Get Alerts

اعلیٰ افسر کا دھاندلی کے الزام پر آزاد کشمیر سے تبادلہ، دھاندلی رکے گی؟

اعلیٰ افسر کا دھاندلی کے الزام پر آزاد کشمیر سے تبادلہ، دھاندلی رکے گی؟
آپ کبھی کسی سیاسی جماعت کو دھاندلی سے اقتدار میں آنے کا طعنہ دے کر دیکھ لیں۔ آپ کو اس کے حامی اور ووٹر یہی کہتے نظر آئیں گے کہ سب حکومتیں دھاندلی سے ہی آتی ہیں۔ آپ کہیں فوجی مداخلت سے حکومت بنی ہے یا بھیجی گئی ہے تو اس پر بھی یہی سننے کو ملے گا کہ پہلے بھی ایسے ہی ہوتا رہا ہے۔ یہ رویہ کوئی تحریک انصاف نے تو شروع کیا نہیں۔ اگر آپ کو یاد ہو تو 2002 سے 2008 تک کی اسمبلی پر بھی جب مشرف کی لائی ہوئی اسمبلی ہونے کا الزام لگتا تھا تو مرحوم شیر افگن نیازی یہی کہا کرتے تھے کہ اس ملک میں ہر سیاستدان فوج کے گملے میں پیدا ہوا ہے۔ اس میں وہ اپنے دو سابق لیڈران ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کو بھی رگڑ جایا کرتے تھے۔

سوال مگر یہ ہے کہ اس کا خاتمہ کیسے ہو؟ ایک گروہ ہے جو لیپا پوتی کو مسئلے کا حل گردانتا ہے۔ جیسا کہ آج کل خان صاحب و ہمنوا کہہ رہے ہیں کہ الیکٹرانک ووٹنگ کرا لو، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ جو RTS بند کر سکتے ہیں انہیں مشین بند کرنے میں کیا امر مانع ہوگا؟ دوسرے وہ لوگ ہیں جو حقیقتاً اس مسئلے کا حل چاہتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ دھاندلی کرنے والے جس دن دھاندلی کرنا چھوڑ دیں گے، دھاندلی اسی دن ختم ہوگی۔ یہ پلاسٹک کی مشینیں کھلونے جنہیں ہم ووٹنگ مشین کہتے ہیں اور کاغذ کے ٹکڑے جنہیں قوانین کہتے ہیں، ان کا ہاتھ روکنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ احمد بلال صوفی نے نیا دور پر ہی ایک دن کہا تھا کہ قوانین ہیں، مسئلہ کچھ اور ہے۔ انہوں نے غالب کا شعر پڑھتے ہوئے کہا تھا کہ

ہو چکیں غالبؔ بلائیں سب تمام
ایک مرگ ناگہانی اور ہے

aseefa-bhutto

اس 'مرگِ ناگہانی' کا انتظام آزاد جموں و کشمیر میں شاید اب ہونے جا رہا ہے۔ گذشتہ ہفتے ایک حیرت انگیز خبر اس وقت سامنے آئی جب کشمیر کے کچھ رپورٹرز نے رپورٹ کیا کہ پاکستانی فوج کے ایک اعلیٰ افسر کا آزاد کشمیر سے تبادلہ کر دیا گیا ہے کیونکہ ان سے متعلق اطلاعات تھیں کہ یہ انتخابات میں مبینہ طور پر دھاندلی میں ملوث تھے۔ یہ صاحب ایک طاقتور ادارے کے ذیلی محکمے کے آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے سیکٹر انچارج تھے۔ خبر کے مطابق ادارے کے اعلیٰ ترین افسر کی جانب سے اس حوالے سے اعلیٰ سطحی تحقیقات کا حکم بھی دیا گیا۔ ان پر الزام ہے کہ یہ کشمیر کے انتخابات میں مداخلت کر رہے تھے، تحریکِ انصاف کی ٹکٹوں کی تقسیم میں بھی ملوث تھے، ایک معروف کاروباری شخصیت کی پشت پناہی کر رہے تھے، آزاد کشمیر میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں ججز کی تقرریوں میں مداخلت کی اور تعمیراتی کمپنیوں کو فائدہ پہنچایا۔

اگر اس حوالے سے تحقیقات ہوئیں بھی تو نتیجہ تو سامنے نہیں آئے گا۔ مگر یہ بات طے ہے کہ اس شخص کو وہاں سے ہٹایا گیا ہے اور دھاندلی کے الزامات پر ہی ہٹایا گیا ہے۔ عام صحافیوں اور یٹیوبرز کی باتوں کو نظر انداز بھی کیا جا سکتا ہے لیکن پیر کی شام خبر سے آگے میں گفتگو کرتے ہوئے سینیئر صحافی نجم سیٹھی نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ وہاں دھاندلی ہو رہی تھی اور اس کے اندر وہ لوگ ملوث تھے جو 'سلیکٹ' کرتے ہیں۔ اب اس کے پیچھے کوئی حکم تھا یا یہ ایک شخص کا انفرادی فعل تھا، یہ نہیں پتہ مگر اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ بات صحیح ہے کہ کچھ افسر جو وہاں کرتا دھرتا تھے، وہ وہاں کوشش کر رہے تھے کہ ایک شخص کو جتایا جائے، پی ٹی آئی کی حکومت بنائی جائے اس شخص کو وزیر اعظم بنایا جائے۔ اور الزام یہ ہے کہ اس شخص نے پیسے بھی دیے ہیں۔ انہوں نے اس خبر کی بھی تصدیق کی کہ اس افسر کو بلا لیا گیا ہے اور بلا کے ان کی اچھی کھنچائی ہوئی ہے اور جس ادارے کے ساتھ ان کا تعلق ہے، ان کو اس عمل سے بے خبر رکھا گیا۔ سیٹھی صاحب کے مطابق یہ فوج کے اندر احتساب کا ایک نمونہ تھا۔ نجم سیٹھی کا مزید کہنا تھا کہ یہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس طرح کے معاملے میں پھر بندے کے ساتھ ان کے افسران اور افسران کے افسران کے نام بھی سامنے آتے ہیں اور اس بحرانی کیفیت میں ایسی چیز ہونا پاکستان افورڈ نہیں کر سکتا کیونکہ ہم مقبوضہ کشمیر پر دھاندلی کے الزامات لگاتے ہیں، آزاد کشمیر میں ایسے الزامات سامنے آئے تو ہمارے مؤقف کو نقصان ہوگا۔

https://twitter.com/nayadaurpk_urdu/status/1417483954345611267

 

آزاد کشمیر میں 25 جولائی کو انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز جو اس انتخابی مہم کے دوران ایک عوامی لیڈر کے طور پر ابھر رہی ہیں، آزاد کشمیر میں بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کرتے یہ یاد دلانا نہیں بھولتیں کہ اب یہ ماضی کی مسلم لیگ ن نہیں ہے، اگر دھاندلی کرنے کی کوشش کی تو ڈسکہ تو صرف ٹریلر تھا، کشمیر میں عوام ووٹ چوروں کے گھر تک پیچھا کریں گے۔ سینیئر صحافی بشمول نجم سیٹھی، حامد میر اور سلیم صافی گذشتہ دنوں میں مختلف مواقع پر خبردار کر چکے ہیں کہ کشمیر کا موڈ اب ویسا نہیں ہے جیسا ماضی میں ہوا کرتا تھا۔ اگر دھاندلی کی کوشش کی گئی تو اس کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ ماضی میں کشمیر میں الیکشن میں دھاندلی کی ضرورت اکثر پیش ہی نہیں آتی تھی۔ لوگ اسی جماعت کو ووٹ دیا کرتے تھے جو اسلام آباد میں حکومت میں ہوتی تھی کیونکہ یہ انتخابات تقریباً ہر دورِ حکومت کے وسط میں منعقد ہوتے ہیں۔ کسی بھی قسم کی ڈویلپمنٹ کے لئے وہی حکومت ڈلیور کر سکتی ہے جو اسلام آباد کی منظورِ نظر ہو۔

لیکن اس مرتبہ حالات مختلف ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کے جلسوں میں عوام کی شرکت مایوس کن رہی ہے۔ ان کے مقابلے میں پہلے بلاول بھٹو زرداری اور بعد ازاں آصیفہ بھٹو زرداری نے بڑے جلسوں سے خطاب کیے ہیں۔ جب کہ مریم نواز کی مہم اب تک سب سے زیادہ کامیاب نظر آ رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ جلسوں میں نظر آنے والی تعداد سے انتخابات کے نتائج کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہوتا لیکن جب خالی میدان سے وقت کا وزیر اعظم گفتگو کر رہا ہو تو اس میں دیکھنے والوں کے لئے نشانیاں تو ہوتی ہیں۔ مریم نواز کے جلسوں میں عوام جس طرح ان کو دیکھنے، سننے کے لئے بڑی تعداد میں جمع ہو رہے ہیں، ان کی ایک ایک بات پر لبیک کہہ رہے ہیں، یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ عوام کا موڈ میڈیا پر نظر آ رہا ہے اور میڈیا سے زیادہ سوشل میڈیا پر نظر آ رہا ہے۔ عمران خان نے 8 اگست 2019 کے بھارتی فیصلے پر جنرل اسمبلی میں جو مرضی تقریر کی ہو، عملی طور پر جمعے کے دن عوام کو دھوپ میں کھڑا کرنے کے سوا کوئی اقدام نہیں کیا۔ یہاں تک کہ سکیورٹی کونسل میں اتنے ملکوں کی حمایت حاصل کرنے میں بھی ناکام رہے جتنے ایک معاملے پر اجلاس بلانے کے لئے درکار ہوتے ہیں۔ اور پھر قریب ایک سال بعد شاہ محمود قریشی نے اسلامی سربراہی کانفرنس اور سعودی عرب تک کی حمایت حاصل نہ ہونے کا اعتراف بھی کر لیا۔

 

Maryam Nawaz Kashmir

مریم نواز نے اس معاملے کو خوب اچھالا ہے۔ یہاں تک کہ سرکار کے پٹھو قسم کے صحافی ٹی وی پر یہ عجیب و غریب منطق پیش کرتے نظر آئے کہ جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف عوام مودی کے فیصلوں سے پہلے ہی بہت مایوس ہیں، مریم نواز یہ سب کہہ کر انہیں مزید مایوس کر رہی ہیں۔

یہ اتنی فضول منطق ہے کہ اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ اس کا بیان کر دینا ہی اس کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ اتنا لیکن ضرور کہنا چاہیے کہ یہ ڈرامے اب بکتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہے۔ اگر واقعتاً وہ مرگِ ناگہانی واقع ہو گئی ہے، کم از کم اس الیکشن کی حد تک، تو آزاد کشمیر کا انتخاب اس دفعہ کچھ اور منظر پیش کرتا نظر آ رہا ہے۔ اور اس میں بھی دیکھنے والوں کے لئے نشانیاں ہوں گی۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.