ڈی جی آئی ایس آئی کو تبدیل کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟

ڈی جی آئی ایس آئی کو تبدیل کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟
تحریر: (بریگیڈئر صادق محمود) تحریک انصاف کی عملی سیاست سے پہلے پاکستان میں تبدیلی کا مطلب صرف تبادلہ ہوا کرتا تھا۔ کوئی حادثہ یا بڑا واقعہ رونما ہو جائے تو چند چھوٹے بڑے افسروں کو ہٹا دیا جاتا، کچھ کو وقتی طور پر لائن حاضر کر دیتے یا پھر معاملہ ذیادہ سنجیدہ ہو تو مقدمہ درج کر دیا جاتا۔ ان سات دہاہیوں میں پاکستان دو لخت ہو گیا، تیس سال فوج نے حکومت کی، جمہوریت میں کرپشن کا راج رہا اور مذہب کے نام پر سر عام خون بھایا گیا۔ دہشت گردی نے ہزاروں جانیں لیں اور غریب عوام نے بے شمار تبادلے اور برخاستگیاں دیکھیں۔ ان گنت انکوئریاں اور کمیشن بنے مگر بد قسمتی سے تبدیلی کبھی نہیں آئی۔

وہ تبدیلی جو قوم اور عمران خان نے مینار پاکستان کے جلسے میں محسوس کی اس کا سہرا سیاسی قوتوں نے آئی ایس ائی کے سربراہ جنرل پاشا کو پہنا دیا۔ اس تبدیلی نے 2014 کے دھرنے میں ایک نعرے کی شکل اختیار کر لی۔ دھرنےسے انتخابات تک تحریک انصاف کی غلطیوں کے باوجود اس نعرے نے اپنی مقبولیت کو برقرار رکھا اور عوام نے 2018 کے انتخابات میں اکثریت رائے سے حکومت تحریک انصاف کے سپرد کر دی۔ وہ دن اور آج کا دن غریب عوام تبدیلی کے متلاشی ہیں جبکہ عمران خان لگاتار تبدیلی کی بجائے تبادلوں میں مصروف ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے 7 ماہ پہلے خود تعینات کیے  آئی ایس آئی کے سربراہ کو بھی تبدیل کر دیا ہے۔

یہ ادارہ بین الاقوامی طور پر ہر وقت نظروں میں اور ملکی سطح پر خبروں میں  رہتا ہے۔ اس کے سربراہ کی تعیناتی ایک دلچسپ تاریخ اور حیثیت رکھتی ہے۔ اس ادارے کی ستر سالہ تاریخ میں آٹھ انمول رتن تقریبا 47 سال سربراہی کرتے رہے اور باقی 23 سال پندرہ لوگوں نے سربراہی کے فرائض سرانجام دیے۔ قانون اور قاعدے اپنی جگہ مگر اس ادارے کے سربراہ کی تعیناتی کا اپنا عرصہ اور مزاج  ہے۔ ایوب خان نے جنرل ریاض کو سات سال اپنے ساتھ رکھا جبکہ جنرل جیلانی 1971 سے 77 تک اس ادارے میں سربراہ کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے- آج کے سیاسی ہمایوں اختر کے والد محترم جناب جنرل اختر عبدالرحمن 8 سال ضیا الحق دور میں سربراہ تعینات رہے۔ اسکے بعد 1988 سے 1999 تک پاکستانی جمہوریت میں “میوزیکل چیر”کا دور چلا جس میں چار وزیر اعظم، تین نگران وزیر اعظم اور پانچ آئی ایس آئی کے سربراہ رہے۔ ان میں جناب ضیاء الدین بٹ قابل ذکر ہیں جو ایک سال تک عہدے پر فائز رہے اور پھر قید تنہائی کا شکار ہو گئے۔

پرویز مشرف دور میں جنرل احسان چار سال اور جنرل کیانی تقریباً تین سال تک اس عہدے پر فائز رہے اور دونوں نے اسکے بعد وردی میں چوتھا ستارہ لگایا۔ جب جنرل پرویز مشرف نے اشفاق پرویز کیانی کو سپہ سالار کی ذمہ داری سونپی تو انہوں نے اپنے وفادار جنرل ندیم تاج کو اس ادارے کا سربراہ لگایا جنھیں جنرل کیانی نے ایک سال بعد کور کمانڈر گوجرانوالہ کا قلمدان سونپ دیا اور پھر اکتوبر 2008 سے مارچ 2012 کیانی صاحب کے پیارے اور ہر دل عزیز جنرل پاشا اس ادارے کے سربراہ رہے اور اسی دوران میں ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن سے لے کر نہ جانے کیا کچھ ہوا جسکی حقیقت عام آدمی کے لیے پاکستان جیسے ملک میں ھمیشہ دفن رہے گی۔

جنرل پاشا اس سے پہلے فوج کے جنگی منصوبوں کے انچارج تھے جو عہدہ انکے آئی ایس آئی میں جانے کے بعد جنرل جاوید کو سونپ دیا گیا اور وہ ترقی پانے کے بعد جنرل کیانی کے ساتھ اے جی جیسے اہم عہدے پر فائز رہے اور جنھیں حال ہی میں چودہ سال کی سزا دی گی ہے۔

سربراہ کے طور پر جنرل عاصم منیر کا یہ کم ترین عرصہ ہے۔ ایک ہی وزیر اعظم اور سپہ سالار کا سات ماہ بعد اپنے اس اہم ادارے کے سربراہ کو بدل دینا پاکستانی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔ کیا یہ ایک تبادلہ ہے یا تبدیلی کی طرف ایک بڑا قدم ہے؟ آئینی طور پر اس ادارے کے سربراہ کی تعیناتی اور تبادلے کا اختیار وزیر اعظم پاکستان کے پاس ہے اور سپہ سلار تین افراد کی فہرست اور اپنی ترجیح دے سکتا ہے جس کا مقصد وزیراعظم کی سہولت ہے اور تعیناتی انکا صوابدیدی اختیار ہے۔ وہ ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں یا دوسری فہرست کا تقاضا کر دیں۔ بے نظیر کے پہلے دور میں انہوں نے مرضی سے ریٹائرڈ جنرل شمس الرحمان  کو سربراہ لگایا مگر وہ صرف ایک سال تین ماہ رہے اور حکومت کے ساتھ ہی فارغ ہو گئے۔ انکی موجودگی میں بھی ادارے پر سپہ سالار کی گرفت اور راج رہا۔

نومبر 2017 میں تحریک لبیک کے فیض آباد دھرنے پر سپریم کورٹ کا “سوموٹو”اور پھر جسٹس فائض عیسی اور جسٹس مشیر عالم کا نومبر 2018 میں دیا گیا فیصلہ اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں مگر احکامات پر عمل باقی ہے جہاں وزارتِ دفاع اور تینوں افواج کے سربراہان کو ان لوگوں کے خلاف اقدامات جاری کرنے کا کہا گیا جنہوں نے آئین کی حدود سے تجاوز کیا۔ معزز جج صاحبان نے اپنے فیصلے میں ڈی جی آئی ایس پی آر کو بھی سیاست پر بات کرنے کا مرتکب پایا اور آئی ایس آئی کا نام لے کر ادارے کے طور پر ان معاملات میں ملوث اور درانداز  ہونے کا مرتکب بھی پایا جن سے اس کا تعلق نہیں بنتا۔ کیا اس تبدیلی کا تعلق مستقبل میں حکومت عدلیہ معاملات سے ہے چاہے وہ سپریم جوڈیشل کونسل ہو یا پھر زرداری، شریف برادران اور دوسرے کرپشن کے مقدمات اور معاملات ہوں؟ اسلام آباد دھرنے پر جسٹس فائز عیسی کا فیصلہ اگرچہ اب تاریخ کا حصہ ہے لیکن نئے سربراہ کے لیے خاص  اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستان کی اعلی ترین عدلیہ کے سربراہ نے بھی عدلیہ کے علاوہ ہر شعبے میں مندی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ڈی جی آئی ایس آئی کے تبادلے یا تبدیلی کی ضرورت وزیراعظم نے سات ماہ بعد کیوں محسوس کی ہے؟ کیا اس تبادلے کی ذمہ داری انہوں نے پہلے سے ہی سپہ سالار کو سونپ رکھی ہے یا پھر اس طرع کی تبدیلی یا تبادلے سے انکا کوئی تعلق ہی نہیں ہے؟ کیا پہلے سربراہ حکم عدولی کے مرتکب ہوئے ہیں یا فرائض میں کوتاہی یا لاپرواہی کا مظاہرہ کیا گیا ہے؟ اسکی وضاحت تو وزیراعظم کے ترجمان ہی کر سکتے ہیں تاہم پہلے اس بات کا فیصلہ بھی کرنا ہے کہ کیا عوام کو اس سچ کے جاننے کا حق حاصل ہے یا نہیں؟ اور یہ فیصلہ کب اور کس نے کرنا ہے؟

حکومت نے یہ محسوس کیا ہے کہ آئندہ آنے والے حالات سے  نئے سربراہ بہتر انداز میں نبرد آزما ہو سکتے ہیں۔ ان کی طبیعت کی شاستگی اور آرزو مندی میں پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی فتح پنہاہ ہے جس کا احساس انھیں ابھی ہوا ہے۔ لہذا جسٹس فائز عیسی کے خلاف ریفرینس بھیجنے کے بعد وکلاء اور عدلیہ میں واضع تقسیم اور موجودہ سیاسی انتشار کی صورتحال کو دیکھ کر حکومتی حلقوں نے فیض حمید کی تعیناتی  کو اس ریفرنس کی کامیابی سے جوڑ دیا ہے۔ کچھ حلقوں نے اسے حسین اتفاق بھی قرار دیا ھے۔

 میری رائے میں آئی ایس ائی کے نئے سربراہ کی تعیناتی میں سپہ سالار اور وزیراعظم دونوں کی مکمل مرضی شامل ہے اور اس میں سیاست سے ذیادہ معیشت اور ملکی مفاد کا کردار ہے۔ موجودہ حالات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ان دو بڑوں کے تعلقات میں ایک توازن اور ہم آہنگی موجود ہے۔

اس خدشے یا مفروضے کے امکانات بہت کم ہیں کہ سپہ سالار کو اس ادارے کے لیے ایک ایسے سربراہ کی ضرورت ہے جو ماضی کے کچھ خاص حالات کی طرع صرف اپنے مالک کی زبان اور آواز ہو۔ جنرل فیض حمید پہلی دفعہ عوام کے سامنے ظاہر ہوئے جب مولانا خادم حسین رضوی نے اسلام آباد دھرنے کے معاہدے میں ان کی شمولیت پر اصرار کیا اور انہوں نے ضامن کے طور پر دستخط کر دیے۔

فیض حمید ایک متوسط گھرانے اور مڈل کلاس بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھتے ہیں اور پاک فوج کے جرنیلوں کی سب سے بڑی نرسری ضلع چکوال کی پیداوار ہیں۔ وہ خوش شکل ہی  نہیں خوش اخلاق ہونے کے علاوہ بلند نظر اور آرزو مند شخصیت کے حامل ہیں۔

وہ نہ صرف ایک عام، خالص اور سادہ آدمی ہونے کا تاثر دیتے ہیں بلکہ سپہ سالار کے ثابت شدہ وفادار سپاہی ہیں۔ جب ضیاء الدین بٹ ادارے کے سربراہ کے طور پر تعینات ہوئے تو اس وقت کے سپہ سالار جناب پرویز مشرف کو ان پر اندر سے نظر رکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اسی طرز کی ذمہ داری حالات، ادارے کے سربراہ کی میاں برادر سے خاندانی تعلق اور شاید انکی حسن پرستی کی وجہ سے سپہ سالار کو سونپنی پڑی جو ایمانداری، وفا اور نیک نیتی سے نبھائی گئی۔ ان کے تجربے میں عمران خان کا دھرنا، ڈان لیک، وکی لیکس کی جے آی ٹی، ٹویٹ کے معاملات، تحریک لبیک کا دھرنا، سینٹ کے انتخابات، قومی اسمبلی کے انتخابات اور پاکستان تحریک انصاف کی پچھلے دس ماہ میں قلابازیاں شامل ہیں اس لئے میری نظر میں تجربہ، شخصیت، وفاداری اور اہلیت کی بنیاد پر وہ مستحق بھی ہیں اور دستیاب بھی۔

میری ذاتی رائے یہ ہے کہ یہ تبادلہ نہیں بلکہ تبدیلی ہے جو کتنی اچھی ہوگی اور کس حد تک خوشگوار ثابت ہو گی وہ تو وقت ہی بتائے گا۔ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔