خواجہ سراؤں کی معاشی خود انحصاری کی راہ میں حائل رکاوٹیں

خواجہ سراؤں کی معاشی خود انحصاری کی راہ میں حائل رکاوٹیں
چہرے پر میک اپ اور پاؤں پر دھول کی موٹی تہہ دو مختلف زاویے ضرور ہیں لیکن یہ ایک ہی فرد کی کہانی کا ابتدائیہ ہیں۔ فائزہ فقیر کی عمر 38 سال ہو چکی لیکن باقی لوگوں کی طرح نہ کوئی ملازمت حاصل کر سکے، نہ ہی کوئی کاروبار جما سکے ہیں۔ سہرا کسی نوبیاہتے کے سر سجایا جائے یا کسی درویش کے مزار پر فائزہ فقیر ساتھیوں سمیت رقص کناں ہوکر روپیوں میں ملنے والی بخشش سمیٹ لیتے ہیں۔ بصورت دیگر صوبہ سندھ کے خیرپور شہر کی بازاروں اور سڑکوں پر خیرات والا ہاتھ لیے لمبی مسافت ان کا مقدر بنی رہتی ہے۔ "چہرے پر میک اپ نہ بھی ہو تب بھی اچھے لوگ خیرات دے دیتے ہیں۔ میک اپ کی موٹی تہہ کو ہماری برادری نے بس اپنی پہچان بنا لیا ہے۔ یہ موٹی تہہ میری روزمرہ زندگی کا حصہ ہے۔ شہروں میں صرف آبادی نہیں دھول بھی بہت بڑھی ہے۔ وہ پاؤں پر نظر آتی ہے، جمتی تو چہروں پر بھی ہے"۔ فائزہ فقیر نے میرے ازراہ تفنن سوال کا جواب سنجیدہ الفاظ میں دیا۔

ان کا کہنا ہے کہ "مجھے والدین کے چہرے بھی یاد نہیں، گرو کہتے ہیں کہ وہ مجھے بہت ہی چھوٹی عمر میں اپنے پاس لائے تھے۔ گرو نے زندہ رہنے کے اسباب مہیا کئے لیکن تعلیم نہیں دلوائی۔ اس وجہ سے کوئی ملازمت یا کاروبار کرنے کا خیال ہی نہیں آیا"۔

مختصر بحث کی ابتدا میں ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے فائزہ فقیر نے بالخر تسلیم کیا کہ "کپڑے سینا، بال کاٹنا، میوے فروخت کرنا یا کوئی چھوٹی سی دکان چلانے میں درپیش دشواریاں عبور کرنا مشکل بات نہیں۔ لیکن خواجہ سرا برادری میں ان باتوں پر زیادہ بحث ہی نہیں ہوتی۔ کوئی اگر ایسی بات کرتا بھی ہے تو لوگوں کے تسمخرانہ رویوں کو بنیاد بنا کر اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ معاشی خودداری کی ضمن میں تمسخر ہماری راہ کی پہلی بڑی رکاوٹ ہے"۔

2017ء کی مردم شماری کے مطابق ملک بھر میں خواجہ سراؤں کی مجموعی آبادی 10,418 نفوس پر مشتمل ہے تاہم صوبہ سندھ میں بسنے والوں کی تعداد 2 ہزار 527 ہے۔ ان اعداد و شمار پر خواجہ سراؤں کو تحفظات ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خواجہ سراؤں کی آبادی زیادہ ہے۔ جبکہ یہ حقیقت ہے کہ کئی خواجہ سراؤں کے پاس مختلف وجوہات کی بناء پر اب بھی کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ دستایب نہیں ہیں۔ جبکہ مردم شماری میں گنے گئے خواجہ سراؤں کی کثیر تعداد ناخواندہ ہے۔

خواتین اور خواجہ سراؤں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی سماجی تنظیم ناری فاؤنڈیشن سے وابستہ انور مہر کا کہنا ہے کہ "ایک تو خواجہ سراؤں کی شرح خواندگی بہت کم ہے۔ اس وجہ سے بھی وہ روزگار حاصل نہیں کر پاتے۔ اس کے بعد ان کا اپنا رویہ بہت اہم ہے۔ سندھ حکومت کے محکمہ سماجی بہبود کی جانب سے سکھر میں شی میل سینٹر قائم ہے جہاں پر خواجہ سراؤں کو ہنری تربیت دینے کا انتظام کیا گیا تاکہ وہ معاشی طور پر کسی کے محتاج نہ رہیں اور روزی روٹی کما سکیں۔ ابتدا میں دو درجن خواجہ سرا وہاں رجسٹر ہوئے لیکن بعد میں یہ تعداد صفر ہوگئی۔ کیونکہ خواجہ سرا ناچ گانے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ یا پھر بھیک مانگتے ہیں"۔ انور مہر نے خواجہ سراؤں سے متعلق اپنے تجربات کو بیان کرتے ہوئے مزید کہا کہ خواجہ سراؤن کے مسائل کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ گروپوں اور گروؤں کی مڑھیوں میں تقسیم ہیں۔ جبکہ ایک بڑی اکثریت ایسے افراد کی بھی ہے جو فطری طور پر خواجہ سرا نہیں لیکن وہ خواجہ سراؤں کی صفوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی محنت مزدوری سے کتراتے اور خواجہ سراؤں کا روپ دھار کر بھیک مانگتے ہیں۔ لیکن حقیقی خواجہ سراؤں کو بھی روزگار یا کاروبار کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں۔ حقیقی خواجہ سراؤں کی اکثریت رقص و ناچ گانے کو ذریعہ معاش بنانے کو ترجیح دیتی ہے"۔

اسی موضوع پر بات کرنے کیلئے میں نے کراچی میں مقیم خواجہ سراؤں کے معروف رہنما بندیا رانا سے بات کی۔ خواجہ سرا معاشی خود کفالت کیلئے تگ و دو کیوں نہیں کرتے کے جواب میں بندیا رانا کا کہنا تھا کہ "ایسا نہیں ہے کہ تمام خواجہ سرا صرف اور صرف بھیک مانگتے یا رقص کرتے ہیں۔ کراچی میں ایسے خواجہ سرا بھی ہیں جو رکشہ چلاتے ہیں، سلائی کڑھائی کی دکانیں چلا رہے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ لوگوں کی چھیڑ چھاڑی کی وجہ سے خواجہ سراؤں کی اکثریت ایسے کام کرنے کو ترجیح نہیں دیتی"۔

ملک کی وفاقی حکومتیں بیروزگار افراد کو کاروبار کے مواقع میسر کرنے کیلئے مختلف کم شرح سود یا آسان شرائط پر قرضے دینے کے منصوبے چلاتی آئی ہیں، ایسے مواقع سے خواجہ سرا کوئی فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے؟ اس سوال کے جواب میں بندیا رانا نے کہا کہ "حکومتیں یا بینک جو قرضہ دیتے ہیں ان کی شرائط اتنی مشکل ہوتی ہیں کہ کوئی خواجہ سرا ان کو پورا نہیں کرسکتا۔ میں نے خود گھر کی تعمیر کیلئے مختص قرضہ حاصل کرنے کیلئے بینک سے رجوع کیا لیکن ان کی شرائط ہمارے لئے مشکل ہیں کیونکہ ہمارے پاس مستقل آمدن کا کوئی وسیلہ نہیں نۃ کوئی ایسی جائیداد ہے جو گروی رکھے جائے"۔ بندیا رانا نے بتایا کہ کراچی جیسے شہر میں اب خواجہ سرا تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں ہماری آبادی میں ان کا تناسب 20 فیصد کے لگ بھگ ہوسکتا ہے۔ ایسے خواجہ سرا ملازمت بھی کر رہے ہیں۔

"کیا خواجہ سراؤں کو کاروبار اور محنت کرنا مشکل جبکہ بخشش اور بھیک لینا آسان لگتا ہے؟" اس سوال کے جواب میں بندیا رانا نے کہا کہ "یہ تاثر مکمل سچ پر مبنی نہیں۔ خواجہ سرا باعزت زندگی گذارنا چاہتے ہیں لیکن حکومتیں ہمارے لئے ایسا کوئی منصوبہ شروع نہیں کرتیں جو ہمارے حالات کو سامنے رکھ کر بنایا جائے جو ہمارے لئے قابل دسترس ہو۔ ایسا کوئی پروگرام شروع ہوگا تو خواجہ سرا بلا جھجھک معاشی خودکفالت کیلئے محنت کریں گے"۔

لگ بھگ ایسا ہی جواب سکھر سے تعلق رکھنے والے زاہدہ فقیر کا بھی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ "بینک قرضہ تبھی دیتے ہیں جب کوئی مکان یا اثاثہ بطور ضمانت گروی رکھا جائے یا سرکاری ملازم ضامن بن جائیں۔ ہمارے پاس تو اپنے مکان یا جائیداد ہوتی نہیں اور کوئی سرکاری افسر ہماری ضمانت کبھی نہیں دیتا۔ اس لئے ہم قرضہ حاصل ہی نہیں کرپاتے"۔

واضح رہے کہ نیشنل بینک سمیت تمام نجی بینک بشمول فرسٹ ویمن بینک کاروبار کرنے کیلئے کئی طرح کے قرضے فراہم کرتے ہیں۔

نیشنل بینک سکھر ریجن کے اسسٹنٹ وائس پریزیڈنٹ محمد آصف ابڑو نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ "کوئی بھی کمرشل بینک یا کوئی ایسا سرکاری ادارہ جو کاروبار کیلئے قرضہ مہیا کرتا ہے وہ ملک کے ہر شہری کو قرضہ دینے کا مجاز ہے جو قرضہ اسکیم کی شرائط پر پورا اترتا ہو۔ خواجہ سراؤں کو قرضہ دینے سے کوئی بھی بینک انکار نہیں کرسکتا تاہم دیگر شہریوں کی طرح ان پر بھی لازم ہے کہ وہ شرائط کو پورا کریں"۔

بندیا رانا، زاہدہ فقیر اور فائزہ فقیر کا اس ضمن میں ایک ہی مطالبہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں خواجہ سراؤں کی معاشی خودانحصاری کیلئے خصوصی منصوبے تشکیل دیں۔ تاکہ خواجہ سراؤں کو پہلے اپنی چھت میسر آئے اس کے بعد زندگی کی دیگر رکاوٹیں عبور کرنا آسان ہوجائیں گی۔