Get Alerts

عوام قدم بڑھائیں تو عاصم منیر کا کنواں، پیچھے ہٹیں تو عمران خان کی کھائی ہے

عوام قدم بڑھائیں تو عاصم منیر کا کنواں، پیچھے ہٹیں تو عمران خان کی کھائی ہے
کئی برس پہلے عمران خان کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں وہ یہ دعویٰ کرتے سنائی دے رہے تھے کہ 20 سے 25 ہزار بندہ جمع ہو جائے تو جرنیلوں کی شلواریں گیلی ہو جاتی ہیں۔ پچھلے تقریباً ایک سال میں یہی کام وہ 2 سے 3 ہزار لوگوں کے ساتھ عملاً کرتے نظر آ رہے ہیں۔ آج پاکستان کی فوج اور عدلیہ سمیت ہر ادارہ عمران خان کی انا کے آگے سر بسجود ہے اور ماضی میں جاہ و جلال کے مالک رہنے والے جرنیلوں کے ہاتھوں کے طوطے اڑ چکے ہیں۔ دوسری طرف چالیس چالیس سال حکومت میں رہنے والے اور خود کو عوامی امنگوں کا مظہر سمجھنے والے سیاست دان بھی دل برداشتہ ہو کر عمران خان کے بیانیے کے سامنے مکمّل طور پر ہتھیار ڈال چکے ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ عمران خان کی طاقت کے دونوں ستون یعنی ریاست کا لاڈلا پن اور عوامی حمایت، ان کو جرنیلوں اور عوامی لیڈران نے خود اپنے ہاتھوں سے عطا کیے ہیں۔ 2011 سے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت فوج نے بحیثیتِ ادارہ عمران خان کے منصوبے پر یکسوئی سے کام کیا، میڈیا کے ذریعے عمران خان کو ہیرو بنا کر پیش کیا، عمران مخالف آوازوں کو کچلا اور عدلیہ کے ذریعے عمران خان کو صادق اور امین قرار دلوایا۔ پوری شہری مڈل کلاس کو یہ باور کروایا گیا کہ عمران کے علاوہ سب چور ہیں، عمران کے علاوہ سب نا اہل ہیں اور عمران کے علاوہ سب ملک دشمن ہیں۔ پھر جب اس سے بھی کام نہ چلا تو انتخابات پر دن دیہاڑے ڈاکہ ڈال کر عمران خان کو ملک پر بطور وزیر اعظم مسلّط کر دیا گیا۔

اب جب 2022 کے بعد عمران خان نامی انوکھا لاڈلہ کھیلن کو پھر سے چاند مانگ رہا ہے تو جرنیل اور جج اسے لاڈ پیار سے سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جو چاند اس کو پچھلے 10 سال تک لا کر دیتے تھے، اب وہ اس کام سے توبہ کر چکے ہیں۔ لیکن عمران خان ان کی بات سمجھنے کے بجائے ان ہی پر چڑھ دوڑا ہے اور دھمکی دے رہا ہے کہ چاند لا کر دو، ورنہ سب خاک میں ملا دوں گا۔ عمران کی اس ضد میں اس کے ساتھ پاکستان کی پوری شہری مڈل کلاس بھی شامل ہو چکی ہے۔ ایوب خان کے زمانے سے جرنیلوں کا دم بھرنے والی مڈل کلاس آج آنکھوں میں شدید معصومانہ حیرانی بھرے آپ سے پوچھتی ہے کیا ہمیشہ سے جرنیل اتنے ہی خراب تھے؟ کیا پاپا جونز اور آسٹریلوی جزیرے اور والٹن ایئرپورٹ کی فروخت کی کہانیاں واقعی درست ہیں؟

جن عمران پسند ججز کو جرنیلوں نے چن چن کر عدالتوں میں لگوایا، اب وہ اپنے اور اپنے بچوں کے ہیرو کے خلاف جانے کے لئے تیاّر نہیں ہیں۔ یہ سب تو چھوڑیے، اب تو فوج کے حاضر سروس کرنل، میجر اور کپتان وغیرہ بھی کھل کر عمران کی حمایت میں اپنے جرنیلوں پر تبرّا بھیجنے سے نہیں کتراتے۔ شاید اسی وجہ سے رینجرز عمران خان کے گھر کا کچھ دیر محاصرہ کر کے واپس لوٹ جاتی ہے، امجد شعیب کو کسی فوجی ادارے کے بجائے پولیس کے ہاتھوں پکڑوانا پڑتا ہے اور ججوں کو واٹس ایپ پر حکم دینے کے بجائے ان کی آڈیوز لیک کرنی پڑتی ہیں۔ لگتا یوں ہے کہ عمران کی محبّت میں سرشار عادل راجہ کی فوج عاصم منیر کی جرنیلی کو آنکھیں دکھا رہی ہے۔

دوسری جانب دہائیوں پر محیط تجربہ رکھنے والے اور تین بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کی عقل کو داد دینے کو بہت دل کرتا ہے۔ پچھلے سال عمران خان کی حکومت ختم کرنے کے بعد اگر فوری طور پر انتخابات میں چلے جاتے، تو آج عمران خان تاریخ کے حاشیے سے بڑھ کر کچھ نہ ہوتا۔ یہ بات تو بچے بچے کو پتہ تھی کہ پٹرول کی قیمت بڑھانے کے بعد عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن اس وقت اگر آپ کسی مسلم لیگی لیڈر سے بات کریں تو وہ کچھ دیر حب الوطنی کا راگ الاپنے کے بعد یہ کہہ دیتے تھے کہ اگر مہنگائی سے عوام تنگ ہو بھی گئی تو جائے گی کہاں؟ پھر ایک آدھ سال میں معیشت درست کر لیں گے اور عوام پرانی مہنگائی بھول جائیں گے۔

ان کے دل میں یہ بھی خواہش تھی کہ عوامی حمایت کی قربانی دے کر ہم جرنیلوں کو یہ باور کروا دیں گے کہ ہم سے زیادہ آپ کا وفادار کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ مستقبل میں عمران جیسے کسی پروجیکٹ پر کام کرنے کے بجائے اپنا دست شفقت ہمارے ہی کندھے پر رکھیے گا۔ نواز شریف نے تو جنرل باجوہ کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے جرنیلوں کے منظور نظر شہباز شریف کو وزیر اعظم بھی لگوا دیا اور اس طرح انہوں نے 'ووٹ کو عزت دو' کے نعرے کو یکسر چھوڑ کر 'جرنیلوں کو عزت دو' کا نعرہ اپنا لیا اور خوشی خوشی ان کا گند اپنے سر لے لیا۔

جولائی اور اکتوبر 2022 میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں عوام نے غصّے کا کچھ ایسا اظہار کیا کہ مسلم لیگ ن کے چھکّے چھوٹ گئے۔ مہنگائی سے تنگ آئے عوام نے عمران خان کو بھاری اکثریت سے جتوا کر پنجاب اسمبلی میں پھر اقتدار دلوا دیا۔ اب مسلم لیگ ن کی قیادت کی سمجھ میں یہ بات آ چکی تھی کہ جرنیلوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے حکومت لے کر انہوں نے اپنی سیاست کو دفن کر دیا ہے۔ لیکن ان کے پاس اب پیچھے ہٹنے کا کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ لیگی قیادت نے ایک مرتبہ پھر اپنی سیاسی بلوغت اور دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل کو ہٹا کر ملکی خزانے کی چابی سمدھی جی کے ہاتھ میں تھما دی اور سمدھی جی نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔

اب حالات یہ ہیں کہ عوامی مقبولیت اور شہری مڈل کلاس کی بھرپور حمایت سے عمران خان کو اقتدار میں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ آج نہیں تو کل، بالواسطہ یا بلاواسطہ، عمران خان کا ملک کی باگ ڈور سنبھالنا اب نوشتہ دیوار بن چکا ہے۔ طاقت میں آنے کے بعد عمران خان وہی کچھ کریں گے جو وہ کہہ چکے ہیں۔ اقتدار میں آ کر وہ فوراً آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو عہدے سے ہٹا دیں گے اور اپنی مرضی کا آئی ایس آئی سربراہ بھی لگا دیں گے۔ ہماری فوج پنجاب پولیس جبکہ سپریم کورٹ ضلع کچہری بن کر رہ جائے گی۔ ان کمزور پڑتے اداروں پر اجارہ داری قائم کر کے عمران خان فوری طور پر آصف زرداری، مریم نواز اور شہباز شریف سمیت اپنے تمام مخالفین کو جیل بُرد یا جلاوطن کروا دیں گے۔ جنرل باجوہ کو غدّاری پر سزا ہو گی اور جنرل عاصم منیر کو امریکی سازش اور لندن پلان کا حصّہ بننے پر کیس بھگتنا پڑیں گے۔

دوسری طرف اپنی بے انتہا نا اہلی اور عدم توجہی کی وجہ سے عمران خان ملک کی معیشت کو تباہ و برباد کر دیں گے۔ ایک سے دو سال میں جب تک عوام عمران خان سے متنفر ہوں گے، تب تک بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ ملک کے تمام ادارے تہس نہس ہو چکے ہوں گے۔ عمران خان ایک حقیقی جابر حکمران کی صورت میں اپنے آپ کو مستحکم کر چکے ہوں گے اور گسٹاپو یا سوک جیسی خفیہ پولیس کے ذریعے عشروں تک بشارالاسد کی طرح راکھ پر بیٹھے حکومت کرتے رہیں گے۔

کچھ لوگوں کو امید ہے کہ جنرل عاصم منیر ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ پانچ چھ مہینے میں اپنی مرضی کا آئی ایس آئی سربراہ اور کور کمانڈرز لگا کر وہ حالات پر قابو پا لیں گے۔ تب تک سپریم کورٹ کی صدارت عمر عطا بندیال کی جگہ قاضی فائز عیسیٰ کے ہاتھوں میں آ جائے گی اور درست فیصلے ہونے لگ جائیں گے۔ عمران خان کو نا اہل کروا کر، کچھ دن جیل میں رکھ کر اور انتخابات میں دھاندلی کروا کر سیاست سے باہر رکھنا فوج کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

یقیناً 2022 سے پہلے یہ کام آسان رہا ہوگا لیکن اب حالات مختلف ہیں۔ عمران خان کو سیاست سے باہر کرنے کے لئے فوج کو ویسی ہی کھلّم کھلاّ انجینئرنگ کرنی پڑے گی جیسی 2016 کے بعد سے نواز شریف کو ہٹانے کے لئے کرنی پڑی تھی۔ نواز شریف تو اپنے خلاف سب سازشیں سہہ گئے لیکن عمران خان 'مجھے کیوں نکالا؟' اور خلائی مخلوق جیسی عمومی باتیں ہرگز نہیں کریں گے۔ ہر موقعے پر سیدھا سیدھا الزام جنرل عاصم منیر اور عدالت کے ججوں پر لگے گا۔ دوسری طرف فوجی افسران جو بڑھ چڑھ کر نواز شریف کے خلاف محاذ کا حصّہ تھے، اب بے دلی سے یا شاید تھوڑی مزاہمت کے ساتھ ہی عاصم منیر کے حکم بجا لائیں۔ نتیجتاً ان سازشوں میں ویسے افادیت نہیں حاصل ہو گی جیسی نواز شریف کے خلاف حاصل ہوئی تھی۔ دوسری طرف فوجی جرنیلوں کی طاقت کا سرچشمہ یعنی شہری مڈل کلاس اب فوج کے خلاف ہو چکی ہو گی اور سوشل میڈیا پر عاصم منیر، ان کے حواریوں اور ان کے خاندانوں پر تھوک کے حساب سے گالیاں برسائی جائیں گی۔

اگر عاصم منیر اس سب کے باوجود کامیاب ہو بھی جائیں تو ان کی مشکلات کم ہونے کے بجائے مزید بڑھیں گی۔ عاصم منیر خود اقتدار سنبھالیں یا حکومت شہباز شریف یا شاہ محمود قریشی کے ذریعے سے چلائیں، دونوں صورتوں میں وہ ایسے فیصلے ہرگز نہیں کر پائیں گے جن کی ملک کو اشد ضرورت ہے۔ مثلاً عوام کے اعتماد سے عاری حکومت کیا پی آئی اے اور پاکستان سٹیل ملز  جیسے قومی اداروں کی نجکاری کر پائے گی؟ کیا ایسی حکومت دفاعی اخراجات میں کمی کر پائے گی؟ اگر نہیں تو ایسی حکومت کو بار بار آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا اور بار بار مہنگائی کا بوجھ عوام پر پٹرول کی قیمتوں اور ٹیکسوں کی شکل میں ڈالنا پڑے گا۔ ایسے میں بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال ہمیں سری لنکا یا میانمار والی نہج پر پہنچا دے گی۔ اس صورت میں ایک غیر مقبول حکومت یقیناً عوام کا غصّہ اور شہری مڈل کلاس کا غضب زیادہ دن تک برداشت نہیں کر پائے گی اور ملک میں انتشار مزید بڑھے گا۔

مختصراً یہ کہ آج ہمارا معاشرہ انتشار کے ان اندھیروں کے دہانے پر کھڑا ہے اور بھلے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ جنرل باجوہ اور ثاقب نثار جیسے مسخروں نے ملک کو ایک ایسے بھنور میں دھکیل دیا ہے کہ اب اس سے نکلنا ممکن نظر نہیں آتا۔ اب سوال بس اتنا ہے کہ ہمیں آگے قدم بڑھا کر عاصم منیر کے کنویں میں گرنا ہے یا قدم پیچھے لے جا کر عمران خان کی کھائی میں۔