Get Alerts

حُسن پرست سُخن ور کی اک گونہ بے خودی

حُسن پرست سُخن ور کی اک گونہ بے خودی
درحقیقت ہمیں ریولیوشن (انقلاب) کی نہیں ایولیوشن (ارتقا)کی ضرورت ہے ۔ میں یہ سوچتے ہوئے لارنس گارڈن میں ایک گھنے شجر سایہ دار میں بیٹھاسگریٹ نوشی کرتے ہوئے دو پرندوں کو چونچ سے چونچ ملاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ بہار کا جوبن تھا۔ میں اٹھا اور میرے قدم الحمرا آرٹس کونسل کی طرف گامزن ہوئے جو سڑک کے اس پار تھی۔ بہار آتی ہے تو الحمرا کے دروبام مہک اٹھتے ہیں۔ سازوآواز کی محفلیں جگمگانے لگتی ہیں۔ رنگ رنگ کے پھول کھلتے ہیں تو ان میں ایک پھول جو سب سے زیادہ جواں رعنا اور حسین ہے وہی سب کی نگاہوں کا مرکز ہوتا ہے۔ املتاس کا اکلوتا درخت جس کی چھائوں میں ایک نوجوان بانسری بجا رہا ہے۔ اس کے روبرو ایک الہڑ دوشیزہ اپنے ایک ہاتھ پر اپنا چہرہ رکھے بڑے انہماک سے اس کی بانسری کی دھن کو سن رہی ہے اور سوچ رہی ہے کہ اس دھن میں کیا سندیسہ پنہاں ہے۔

’’الحمرا سپین میں ایک محل تھا۔ وہاں کی تہذیب، عمارتیں منفرد رقص و موسیقی کی لازوال تاریخ ہے۔ جب 1948ء میں پاکستان آرٹس کونسل کی بنیاد رکھی گئی تو اسے ’الحمرا‘ کے نام سے منسوب کیا گیا۔ تاآنکہ مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کی نشاۃ الثانیہ کی عکاسی کرے گا۔ الحمرا آرٹس کونسل کے چیئرمین فیض احمد فیض تھے جبکہ اس وقت اس ادارے کی چیئرپرسن ان کی صاحبزادی منزہ ہاشمی ہیں۔ معروف ماہر تعمیرات نیر علی دادا نے الحمرا آرٹس کونسل کی موجودہ عمارت کو ڈیزائن کیا ہے۔ اس کا موجودہ رقبہ 36کنال پر مشتمل ہے(جس میں متصل برنی گارڈن شامل نہیں ہے) جبکہ الحمرا کلچرل کمپلیکس کا رقبہ 57کنال ہے۔ 4ہال ایک ادبی بیٹھک۔الحمرا اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کے کلاس رومز،آرٹ گیلری، لائبریری آرکائیو، منسٹر بلاک، چیئرپرسن اور بورڈ آف گورنر کا دفتر اس عمارت میں موجود ہے۔ ‘‘

’’1948ء میں فیض احمد فیض، خلیل صحافی عبدالرحمن چغتائی، حیات احمد خان جیسی قد آور شخصیات نے الحمرا آرٹس کونسل کی تشکیل کی ۔ اس کا باقاعدہ افتتاح 10نومبر 1949ء کو عبدالرحمن چغتائی کی مصوری کی نمائش سے کیا گیا تھا۔ بعدازاں انور سجاد، نعیم طاہر، مسعود اشعر اور نیر علی دادا اس قافلے میں شامل ہو گئے جنہوں نے الحمرا آرٹس کونسل کو ایک بڑے ثقافتی پلیٹ فارم میں بدل دیا۔ ‘‘

’’درحقیقت الحمرا ایک پرائیویٹ ڈانسنگ سکول تھا جو رائے سرن داس کی ملکیت تھا۔ ظفر الحسن لاہور کے ڈپٹی کمشنر تھے جنہوں نے موجودہ جگہ کو جہاں الحمرا آرٹس کونسل آباد ہے، خریدنے کی غرض سے چندہ اکٹھا کرنے کی مہم کا آغاز کیاتھا۔ یہ جگہ اس زمانے میں ڈھائی لاکھ روپے میں خریدی گئی۔ ایوب خان صدر پاکستان تھے انہوں نے یہاں کا دورہ کیا۔ ان سے فن کاروں نے یہاں پر عمارت کی تعمیر کا مطالبہ کیا تھا۔ نیشنل کالج آف آرٹس کے پرنسپل شاکر علی نے تجویز دی کہ ایک نوجواں آرکیٹیکٹ نیر علی دادا ہے۔ جو بے حد ذہین ہے۔ اسی سے الحمرا آرٹس کونسل کی عمارت کا ڈیزائن بنوایا جائے۔ نیر علی دادا کا کہنا ہے کہ ’’جب یہ کام میرے سپرد ہوا تو میں مال روڈ پر چہل قدمی کیا کرتا۔ مختلف عمارتوں کے طرزتعمیر کا مشاہدہ کیا کرتا تھا۔ مجھے لاہور ہائی کوٹ اور جی پی او کی عمارتیں بہت اچھی لگیں کہ یہ چھوٹی اور سرخ اینٹوں سے تعمیر کی گئی تھیں میں نے الحمرا آرٹس کونسل کے ڈیزائن میں اسی طرزِ تعمیر سے استفادہ کیا ہے۔‘‘



اس تاریخ کو حرف بہ حرف سناتے ہوئے انہوں نے کچھ توقف کیا۔ میں نے گلاس آگے سرکایا اور وہ جرعہ جرعہ پینے لگے۔ میں نے کہا اب کچھ اپنے بارے میں بتایئے کہ ’’لکھویرا‘‘ کون ہیں؟

’’تقریباً چار سو برس قبل دادا پوترہ عباسی خاندان بہاولپور کے علاقے میں آیا۔ انہوں نے انگریزوں کی ہر طور سے مدد کی۔ چشتیاں کے قریب ایک سلطنت تھی جسے سلیم خان لکھویرا نے آباد کیا تھا۔ اسے شہر فرید کا نام دیا گیا جو فرید خان لکھویرا کے نام سے موسوم ہے۔ ایک بہت بڑی قوم جوئیہ کہلاتی ہے، اس کی لگ بھگ ڈیڑھ سو سے زائد گوتھیں ہیں۔ جن میں لکھویرا، لالیکا، دولتانہ سلدہرا، بڈھیراقا سمکا، عاکوکا شامل ہیں۔ اس کے مرکزی قبیلہ کے جدامجد کے دس بچے تھے۔ جن میں سے نوکھیتی باڑی کیا کرتے تھے۔ چھوٹا بیٹا سماجی خدمت میں پیش پیش تھا۔ جدامجد جوئیہ کا انتقال ہوا تو ’لکھوکا‘کے حصے میں سرداری آئی۔ جوئیہ قوم کی تمام گوتھیں متفق تھیں کہ ہمارے سردار لکھویرا ہیں۔ نواب محمد بخش لکھویرا کا پوتا فخر لکھویرا موجودہ سربراہ ہے۔ اس وقت کی حکومت نے فخر لکھویرا کے باپ فلک شیر لکھویرا کو نائب تحصیل دار تعینات کر دیا۔ کسی زمانے میں بہاولپور اور بہاولنگر کے درمیان ٹرین چلا کرتی تھی۔ فلک شیر اپنی سرکاری ٹریننگ پر جا رہے تھے، لیکن وہ چلتی ہوئی ٹرین سے اچانک نیچے کود گئے اور گھر واپس آ گئے انہیں پسند نہیں تھا کہ لکھویرا سرکاری ملازمت کریں۔‘‘

’’انگریزوں نے عباسیوں کی مدد سے شہر فرید پر حملہ کیا اور اسے تاراج کر دیا۔ اس موقع پر لکھویروں نے ایک کنوئیں کے پاس اپنی تمام عورتوں کو ایک قطار میں کھڑا کیا اور ان کے سر قلم کرکے کنوئیں کو ان کی کھوپڑیوں سے بھر دیا تھا۔ یہ کام اس لیے کیا گیا تھا کہ ان عورتوں کی عزتیں پامال نہ ہوں۔‘‘
’’لکھویرا خاندان کے دو سپوت دو سگے بھائی اقبال حسین لکھویرا اور نیاز حسین لکھویرا صحافت اور تصنیف و تالیف سے وابستہ ہوئے۔ نیاز حسین لکھویرا نے سرکاری ملازمت اختیار کی اور تقریباً 42برس پنجاب کی آرٹس کونسلوں میں بطور ڈائریکٹر کام کیا۔ ان کی کئی کتب شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں اردو و سرائیکی ،شاعری، ڈرامے اور ثقافتی تاریخ کی ترتیب و تدوین پر مشتمل کتب شامل ہیں۔‘‘

1973ء میں نیاز حسین لکھویرا نے سی ایس ایس کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ لیکن اس وقت سرکاری ملازمت سے اجتناب کیا۔ قبل ازیں وہ ایک ہفت روزہ’’کارواں‘‘ کے مدیر تھے۔ 1972ء میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا انٹرویو کیا جو اس جریدے میں شائع ہوا تھا۔ 1977ء میں بیگم نصرت بھٹو نے نیاز حسین لکھویرا کو آرٹس کونسل بہاولپور میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر تعینات کرنے کے احکامات جاری کیے۔ جب ضیاء الحق کی آمریت کا دور شروع ہوا تو نیاز حسین لکھویرا نے حکومت کی طرف سے چھبیس انکوائریاں بھگتیں۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ ان کی تعیناتی کو سیاسی، تعیناتی کہا گیا تھا۔ لیکن ان کے اعلیٰ افسر سینہ سپر ہوئے اور کہا کہ یہ تعیناتی میرٹ پر ہوئی ہے اور انہیں برخاست نہیں کیا جا سکتا۔

زندگی کی دھوپ چھائوں میں جب گھٹاٹوپ اندھیرے چھائے تب ان کے آنگن میں ایک ’شمع‘ جگمگائی۔ ایک مترنم آواز نے ان کے کانوںمیں رس گھول دیا۔ چہار جانب روشنی سی بکھر گئی۔ زندگی سنور گئی۔ گھر کا دالان بچوں کی چہکار سے چہک اٹھا۔ بیٹا اسودین نیاز اور دو بیٹیاں ہیں۔ نواسہ آبان اور نواسی رامین ان کی محبت کا مرکز ہیں۔ گھر سے الحمرا اور پھر شام ڈھلے شملہ پہاڑی کی طرف گامزن ۔ محض چند فرلانگ کا سفر طے کرتے ہوئے جب وہاں پہنچتے ہیں تو ان کے آنے کی خبر دوست احباب تو کیا پرندوں کو بھی ہو جاتی ہے۔ مخصوص نشست پر براجمان اور سائیں کی آنیاں جانیاں۔ آدھے اورپوے۔۔ جام در جام۔۔۔ جرعہ جرعہ، قہقہے، باتیں، موسیقی اور شعروادب کی باتیں، محبت بے شمار، ان گنت، لاتعداد ریشمی اجالوں اور مخملیں اندھیروں میں گلاب چہروں، ستارہ آنکھوں سے متوصل لمحات کے قصے۔۔ جب یاد آتے ہیں وہ پیکر کے خطوط، تو یہ بھی یاد آتا ہے کہ ان نشیب و فراز پر کیسے انگلیاں اپنا ’سفر‘ طے کرتی تھیں۔ سرگوشیاں اور انکار و اقرار کی تکرار:

اس عشق نہ اس عشق پہ نادم ہے مگر دل
ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغِ ندامت
کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ زندگی کے اس طویل سفر میں کیسے کیسے لوگ اور زمانے آئے اور وقت کی دھند میں کھو گئے۔ نیاز حسین لکھویرا نے جواب دیا میرا ایک شعر ہے:

عروجِ وقت کا بے رحم تازیانہ ہے
کہ اپنے صبر کدے کا یہی فسانہ ہے
میں نے الحمرا کے ’دیوداس‘ سے پوچھا آپ کے نزدیک حسن کا تصور کیا ہے تو انہوں نے گلاس اٹھایا، ایک گھونٹ گلے سے نیچے اتارا اور گویا ہوئے احمد ندیم قاسمی کا ایک شعر ہے:

فقط اس شوق میں پوچھی ہیں ہزاروں باتیں
میں ترا حُسن ترے حُسنِ بیاں تک دیکھوں
’’میرے نزدیک شکل و صورت میں نہیں گفتار اور کردار میں خوبصورتی ہونا ازبس ضروری ہے۔ مجھے بساوقات یہ افسوس ضرور ہوا ہے کہ میں نے سی ایس ایس کرنے کے بعد سول سروس اکیڈمی جوائن نہیں کی۔ اگرچہ بعدازاں میں نے ایک بیوروکریٹ کی طرح آرٹس کونسلوں میں اس طرح نوکری کی کہ میں اور آرٹس کونسلیں لازم و ملزوم ہو گئے۔

سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟

’’ایک غریب آدمی کوکوئی بزرگ مل گئے۔ بزرگ نے غریب آدمی سے پوچھا تمہاری کیا خواہش ہے؟ غریب آدمی نے کہا’’سامنے والا پہاڑ سونے کا بنا دیں۔‘‘ بزرگ نے اشارہ کیا تو پہاڑ سونے کا بن گیا۔ پھر پوچھا کوئی اور خواہش؟ غریب آدمی نے کہا دوسرا پہاڑ بھی سونے کا بنا دیں۔ انگلی کا اشارہ ہوا اور وہ پہاڑ بھی سونے کا بن گیا۔ پھر پوچھا کوئی اور خواہش؟ غریب آدمی نے کہا کہ یہ انگلی مجھے دے دیں،بقول غالب:

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

نیاز حسین لکھویرا اور سائیں مقبول
نیاز حسین لکھویرا اور سائیں مقبول


’’اگر آپ نے پرفیوم کی بوتل لینا ہے یا روح افزا کی۔۔ اس کے لیے جیب میں پیسے ہونا ضروری ہے۔ امیر ہونا جرم نہیں ہے البتہ پیسے کی ہوس بہت بڑا جرم ہے۔ ہماری سیاسی اشرافیہ کو پیسے کی ہوس ہے۔۔ میری صحت اور سمارٹنس کا راز یہ ہے کہ میں بھرپور نیند لیتا ہوں اور اپنے دل کو صاف رکھتا ہوں۔ اپنے دشمنوں کو معاف کر دیتا ہوں۔ یہ جملہ تو ہم اکثر سنتے آئے ہیں کہ ہم لوگ گروہ بن گئے ہیں لیکن قوم نہیں بن سکے ہیں۔ کمال اتاترک اور خمینی ہر جگہ پیدا نہیں ہوا کرتے ہمارا قومی اور انفرادی رویہ نہایت پستی کا شکار ہے۔ جب تک ہر شخص اپنے اندرانفرادی تبدیل نہیں لائے گا۔ اجتماعی تبدیلی کہاں سے آئے گی۔‘‘

اب تک سائیں چار چکر لگا چکا تھا۔۔۔ کہانی ابھی باقی تھی۔ صراحی بھی خالی نہیں ہوئی تھی۔ میں نے پوچھا، اس معاشرے کی اقدار کیسے آپ کو یہ اجازت دیتی ہیں کہ آپ مینا و ساغر سے شغل پوشیدہ نہیں رکھتے۔ نیاز صاحب نے گلاس اٹھایا اور ایک گھونٹ گلے سے نیچے اتار ااور گویا ہوئے۔
ظفر اقبال کا ایک شعر ہے:

جہاں جہاں مرے عیبوں کی آندھیاں ہیں ظفر
وہیں میں لے کے چراغ ہنر بھی آتا ہوں

’’میں اپنے فرائض سے کبھی غافل نہیں ہوا اور نہ ہی ان پر کوئی سمجھوتہ کیا ہے۔ میں پابند صوم و صلوٰۃ ہوں، تہجد گزار ہوں، منافقت مجھے پسندنہیں ہے۔ اس لیے میرا سب کچھ اظہرمن الشمس ہے۔ سو جب مجھ سے کوئی میرے شوق کے بارے میں استفسار کرتا ہے تو میں اسے میر درد کا یہ شعر سناتا ہوں:

تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں



الحمرا آرٹس کونسل کے مرکزی دروازے سے جب اندر داخل ہوں تو قائداعظم اور علامہ اقبال کے دو سیاہ رنگ کے مجسمے دکھائی دیتے ہیں۔ سیاہ رنگ انتہائی بدذوقی کا مظہر ہے۔ حالانکہ انہیں سفید سنگ مرمر میں ہونا چاہیے۔ جوان عظیم شخصیات کے شایان شان ہوتا مگر آرٹس کونسل میں علامہ اقبال اور قائداعظم کا کیا کام؟یہاں ملکہ ترنم نورجہاں کا مجسمہ ہونا چاہیے۔ فیض احمد فیض، ریشماں، مہدی حسن، صادقین اور فن و آرٹس سے وابستہ شخصیات کے منور مجسمے ایستادہ ہوں۔ الحمرا آرٹس کونسل کی عمارت سرخ اینٹوں سے تو بن گئی مگر اسے روشنیوں سے اجالا نہیں گیا۔ اس کے ساتھ متصل برنی گارڈن ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ یہاں ایک گلستان آباد ہو۔ لاہور میں کتنے ایسے مقامات باقی ہیں جہاں عوام تفریح کے ساتھ کچھ وقت گزار سکیں۔ عوام کے لیے چڑیا گھر اور عجائب گھر رہ گئے ہیں۔ اب یہ سمجھ نہیں آتا کہ چڑیا گھر میں تفریح عوام کرتے ہیں یا وہ جانور جن سے ٹکٹ خرید کر آنے والوں کا پالاپڑتا ہے۔الحمرا کے سامنے مال روڈ کے دوسری طرف لارنس گارڈن ہے جسے جناح گارڈن کا نام دیا گیا ہے۔ نہ جانے کیوں؟ لارنس گارڈن لاہور میں جنت ارضی ہے۔ خوبصورت درختوں، پھولوں کے قطعات پہاڑی،کاسموپولیٹن کی جنت ارضی اور محفوظ ڈیٹنگ پوائنٹ بھی۔ الحمرا آرٹس کونسل کو لارنس گارڈن کے متوازی گوشہ عافیت ہونا چاہیے کم از کم ڈیٹ لگانے والوں کے لیے کچھ تو سہولت میسر ہو۔

علامہ اقبال کے مجسمے کے چبوترے کے تینوں اطراف ان کے اشعار درج ہیں۔ ایک شعر کچھ یوں ہے:

آگ بجھی ہوئی ادھر ٹوٹی ہوئی طناب ادھر
کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں

یہ شعر اس حقیقت کا عکاس ہے کہ اس مقام سے ستاروں کا ایک قافلہ گزرا تھا جو اپنے پیچھے روشنی بکھیر گیا۔ فیض صاحب جب الحمرا کے چیئرمین تھے تو انہوں نے یہ خوبصورت نظم لکھی تھی۔

بہار آئی تو جیسے یک بار
لوٹ آئے ہیں پھر عدم سے
وہ خواب سارے شباب سارے
جو تیرے ہونٹوں پہ مر مٹے تھے
جو مٹ کے ہر بار جئے تھے
نکھر گئے ہیں گلاب سارے
جو تیری یادوں سے مشکبو ہیں
جو تیرے عشاق کا لہو ہیں
اُبل پڑے ہیں عذاب سارے
ملال احوال دوستاں بھی
خمار آغوش مہ و شاں بھی
غبار خاطر کے باب سارے
ترے ہمارے سوال سارے جواب سارے
بہار آئی تو کھل گئے ہیں
نئے سرے سے حساب سارے

آپ کو الحمرا آرٹس کونسل کی تاریخ پر اتھارٹی سمجھا جاتا ہے کہ اس کے شب و روز کا حساب آپ خوب رکھتے ہیں۔ نیاز حسین لکھویرا نے جواب دیا۔
’’جی ہاں ارباب اختیار بھی یہ سمجھتے ہیں کہ میںالحمرا کی تاریخ کا گواہ ہوں۔یہاں کی محافل، شخصیات، میلے، نمائشیں، تھیٹر، فن کار سب کے بارے میں بخوبی جانتا ہوں مجھے اپنے کام سے عشق ہے۔ میں نے اسے کبھی ملازمت نہیں سمجھا۔ فیض صاحب یاد آتے ہیں جنہوں نے کہا تھا:

وہ لوگ بہت خوش قسمت تھے
جو عشق کو کام سمجھتے تھے
یا کام سے عاشقی کرتے تھے
ہم جیتے جی مصروف رہے
کچھ عشق کیا کچھ کام کیا
کام عشق کے آڑے آتا رہا
اور عشق سے کام الجھتا رہا
پھر تنگ آ کر آخر ہم نے
دونوں کو ادھورا چھوڑدیا

یہ شاعرانہ تعلی ہے۔ فیض صاحب نے دونوں کام ادھورے نہیں چھوڑے۔ میں بھی ادھورا نہیں چھوڑتا مگر اپنے اپنے وقت دونوں کام بخوبی انجام دیتا ہوں۔
کن شخصیات اور فن کاروں سے زیادہ قربت تھی؟

نیاز صاحب کی نواسی رامین اور نواسا آبان
نیاز صاحب کی نواسی رامین اور نواسا آبان


’’فن کاروں میں عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی ہیں، جن کے ساتھ میرا اس وقت سے یارانہ ہے۔ جب وہ کیسٹ کے بے تاج بادشاہ نہیں ہوئے تھے۔ میں ان کا ہم راز، ہم نوالہ اور ہم پیالہ ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ اس خوبصورت فن کار کے گیتوں میںسوزوگداز کہاں سے آیا ہے۔ آج ان کی شہرت تمام عالم میں خوشبو کی طرح پھیل چکی ہے۔ آج بھی میری ان کے ساتھ نیازمندی اس طرح قائم ہے۔کیپٹن عطا محمد خان جو الحمرا آرٹس کونسل کے سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر تھے۔ اب ریٹائرڈ ہو چکے ہیں میں ان کے ماتحت تھا مگر میری ان سے بے تکلف دوستی تھی اور آج بھی ہے۔ وہ بہت عمدہ شاعر ہیں۔ راجہ جہانگیر انور جو سیکرٹری اطلاعات ہیں،انتہائی شاندار انتظامی صلاحیتوں سے مالامال آفیسر ہیں۔ ہر نازک گھڑی اور دکھ سکھ میں انہوں نے میرے کندھوں پر ہاتھ رکھا۔ وہ روایتی بیوروکریٹ نہیں ہیں۔ ثمن رائے بھی الحمرا آرٹس کونسل کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر رہ چکی ہیں۔ آج کل ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز ہیں۔ بہت اچھی آفیسر ہیں۔ اس وقت الحمرا آرٹس کونسل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ذوالفقار زلفی ہیں۔ وہ اعلیٰ پائے کے مصور ہیں جن کی پینٹنگز میں روشنی اور دھوپ چھائوں کو جس انداز میں مصور کیا گیا ہے وہ ان کے منفرد اور صاحب اسلوب مصور ہونے کا ثبوت ہے۔ میں ان کی اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں اور دوست نوازی کا مداح ہوں۔ میرے صنم خانے میں میرے بے شمار دوست تصویروں کی طرح آویزاں ہیں۔ مجھ سے ہم کلام رہتے ہیں ان کی محبتوں کا میں ہمیشہ شکرگزار رہتا ہوں۔ منفرد لہجے کے شاعر منیر نیازی سے شام کے بعد کی دوستی ان کی زندگی کے آخری دم تک رہی یہاں ان کا ایک شعر یاد آتا ہے:
دیکھ کے مجھ کو غور سے پھر وہ چپ سے ہو گئے۔

دل میں خلش ہے آج تک اس اَن کہے سوال کی

دیوداس نے پارو کی محبت کو بھول جانے کے لیے چندر مکھی کا دامن تھاما تھا۔ اور امر پریم کا آنند بابُوکسی ٹوتے ہوئے رشتے کی ڈور تھامے ہوئے پشپا کے کوٹھے پر گیا اور اس کی آہوچشم میں کھو گیا۔ لیکن آپ کے پاس کوئی جواز، بہانہ یا عذر تو ہوگا۔ جس نے مدہوش رہنے پر مجبور کیا ہے؟
نیاز حسین لکھویرا نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور کہا۔ ’’میرا جواز اور غالب کا اعتراف درحقیقت ایک ہے۔ غالب نے کہا تھا:

مے سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو
اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے

سرائیکی زبان دنیا کی خوبصورت زبانوں میں سے ایک ہے۔ شیرینی، نزاکت، کومل لفظوں کی مٹھاس کے ساتھ وارفتہ لہجہ اس کی پہچان ہے۔ اس زبان کے شاعر نیاز حسین لکھویرا نے جب لاہور کو اپنی آماجگاہ بنایا تو الحمرا آرٹس کونسل میں ان کی پہچان فزوں تر ہوئی۔ یوں سرائیکی اردو شعروسخن سے ہم آمیز ہوئی۔کوئی دوئی نہ رہی۔

تہذیبی ،رکھ رکھائو ،عمدہ زبان ،لب و لہجہ کے ساتھ ایک شاندار شخصیت کے مالک انسان نیاز حسین لکھویرا کسی بھی حکومت سے کسی طور ملتجی نہ ہوئے۔ ان کے ہاتھوں ترشے اور ان سے سیکھے سکھائے ہوئے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اپنی ملازمتیں مستحکم کراتے رہے مگر وہ خاموشی کے ساتھ اپنا کام انجام دیتے آئے ہیں۔ الحمرا آرٹس کونسل کو ان جیسے تجریہ کار، اعلیٰ تعلیم یافتہ، شاعر، مدبر اور دانشور شخصیت کی ضرورت ہے کہ یہ ثقافتی ادارہ ان کے تجربات سے مستفید ہو سکتا ہے۔

آپ ہمیشہ لوگوں کی مدد کے لیے کمربستہ رہتے ہیںاس کی کیا وجہ ہے۔

’’میں نے مفلسی کا نمک چکھا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ ناکامی اور مایوسی کے وقت خاموشی کے ساتھ آپ کے کندھے پر رکھا جانے والا ہاتھ ان ہزاروں تالیوں سے بہتر ہوتا ہے جو آپ کی کامیابی پر بجائی جاتی ہیں۔ اس لیے کسی ضرورت مند کو دکھ اور تکلیف میں دیکھتا ہوں تو جو کچھ ہو سکتا ہے اس کے لیے کر دیتا ہوں اور بھول جاتا ہوں۔ اپنی زندگی میں ناکامی کو کبھی مستقل نہیں ہونے دیا جانا چاہیے۔ رکاوٹ یا جمود زندگی کے رواں دریا کو گدلا کر دیتے ہیں۔‘‘

بہار کی ہوا کے جھونکے نے سب کچھ تازہ دم کر دیا۔ میں نے دیکھا میرے اردگرد پھول ہی پھول ہیں رنگ رنگ کے پھول۔ جن میں ایک پھول سب سے زیادہ جواں رعنا اور حسین ہے۔

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا

جب کبھی وہ ’’آٹھ کا ہندسہ‘‘ بن جاتے ہیں تو ان کے دو ’پشتی بان‘ دائیں بائیں ان کے بازو اپنے گلے میں ڈال کر انہیں مرکزی دروازے سے باہر کسی سواری میں پھینک دیتے ہیں۔دانی کا ابا نوٹ اور گلاس گِن رہا ہے ،دیکھنے والے اکثر یہ تماشا دیکھتے ہیں اور سوچتے رہ جاتے ہیں۔رگوں میں دوڑنے والے خون میں شامل یہ سیال جب نہیں ہوتا تو آنکھوں کی روشنی ماند کیوں پڑ جاتی ہے اور یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔

شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے
شعلۂ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد

طاہر اصغر مصنف و صحافی ہیں ان کی دلچسپی کے موضوعات پروفائل اور آپ بیتی لکھنا ہے۔ وہ جالب بیتی اور منٹو فن و شخصیت کی کہانی کے مصنف ہیں۔ زیر طبع ناول ’’قصہ غوغا غٹرغوں‘‘ ہے ۔موسیقی اور ادب سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔