جسٹس ناصرہ جاوید کے گھر پر چھاپے کی معافی مانگتا ہوں، خواجہ آصف

جسٹس ناصرہ جاوید کے گھر پر چھاپے کی معافی مانگتا ہوں، خواجہ آصف
وزیر دفاع خواجہ آصف نے علامہ اقبال کی بہو جسٹس ناصرہ جاوید کے گھر پر چھاپے پر معافی مانگتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا بیٹا پی ٹی آئی میں ہے۔ جب سیاسی ورکر دہشتگردی کی زبان بولتا ہے تو سیاسی شناخت کی نفی کرتا ہے۔ سیاسی رہنما ایسی زبان نہیں استعمال کرتے
ان خیالات کا اظہار انہوں نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ حریت رہنما یاسین ملک کی کشمیر کی آزادی کیلئے لمبی جدوجہد ہے۔ سابقہ حکومت نے کشمیریوں کیلئے کوئی جدوجہد نہیں کی، سوائے دن گنے جانے والے ایک بورڈ لگانے کے، ہمیں بحثیت قوم مذمت تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ کشمیریوں کو ہم سے بہت زیادہ توقعات ہیں۔ پاکستان اگر صرف مذمت پر اکتفا کرے تو شرمندگی کا باعث ہے۔ ہم کشمیریوں کے مقروض ہیں۔
خواجہ آصف نے جسٹس (ر) ناصرہ جاوید کے گھر پر چھاپے پر قومی اسمبلی میں معافی مانگتے ہوئے کہا کہ مذمت سلیکٹڈ نہیں ہونی چاہیے۔ پوچھتا ہوں نور عالم کے گھر پر چھاپے کی کس نے مذمت کی؟۔ انہوں نے کہا کہ میں جسٹس (ر) ناصرہ جاوید جو علامہ محمد اقبال کی بہو اور ہمارے معزز پارلیمنٹرین ولید اقبال کی والدہ ہیں، سے گھر پر چھاپہ مارے جانے پر معافی مانگتا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی سے بھی بہت تناؤ رہا مگر جلاؤ، گھیرائو، مارو، خونی مارچ والی بات نہیں کی۔ ایک کانسٹیبل جس کے پانچ بجے ہیں اس کو شہید کر دیا گیا، جو ملزم پکڑا گیا وہ باریش ہے۔ ہماری پولیس اور فورسز اس طرح مسلح نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پنڈی سے پرانے سیاست دان جلا دو والی باتیں کر رہے ہیں۔ دیکھیں کہ ہمارے سیاسی کلچر میں کتنا زوال آ چکا ہے۔ یہ کلچر نہیں بلکہ مار دھاڑ کی علامت ہے۔ آج پی ٹی آئی کی گرفتاریوں پر ہمدردی کی جارہی ہے۔ ہر دور میں جب اس قسم کے دھرنے شروع ہوئے ہیں۔ اس طرح گرفتاریاں ہوتی رہی ہیں۔ خدا کیلئے مذمت سلیکیٹو نہ کریں۔ جب ہم پر بلڈوزر چلائے جا رہے تھے اس وقت کسی کا ضمیر نہیں جاگا۔ اس وقت کسی کو ضمیر کی چبھن محسوس نہ ہوئی۔
وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ جو اصول کی بات ہوتی ہے وہ کرنی چاہیے۔ مولانا فضل الرحمن نے کشمیر روڈ پر جلسہ کیا ایک گملا نہیں ٹوٹا تھا۔ ایک ماہ پہلے جب لاجز سے ایم این اے اٹھائے گئے اس وقت کیوں نہ کسی کا ضمیر جاگا۔
خواجہ آصف نے کہا کہ اقتدار کا چھن گیا رولا ہی پڑ گیا ہے۔ ہم نے 2007 نومبر میں اس ایوان سے استعفے دیے، دوسرے دن میں پکڑا گیا۔ ہم نے اپنی آزادی سیاسی جدوجہد میں انوسٹ کی ہے۔ ہم تین فیملی ممبرز اس ملک میں ہیں، باقی بیرون ملک ہیں۔ ہم تین کے تین عدالتوں میں ہیں۔ میں نے وفاداریاں بھی تبدیل نہیں کیں۔