یہ اُن دنوں کی بات ہے جب آرمی پبلک سکول کراچی میں ہم چند بلڈی سویلینز کے بچے دس گنا زیادہ فیس دے کر فوجی افسروں کی اولادوں کے ساتھ دبکے بیٹھے ہوتے تھے۔ اُس وقت یہ سکولز عام عوام کے لیے 'ویلفیئر' اِداروں میں تبدیل نہیں ہوئے تھے۔ زیادہ تر طالب علموں کی تعداد کرنلوں، میجروں اور بعض اوقات بریگیڈیئرز کے بچوں پر مشتمل تھی (ہماری شدید قسم کی 'یکطرفہ' محبوبہ بھی ایک بریگیڈیئر صاحب کی صاحبزادی تھیں)۔
ہوا یوں کہ اچانک سکول میں ایک 'وزٹ' کے باوصف بھونچال آ گیا۔ ویسے تو 'فیلڈ' افسروں کے ٹورز جاری رہتے تھے لیکن اس بار پتہ چلا کہ یہ ٹوور سب کا باپ ہے کہ آرمی چیف آصف نواز جنجوعہ بنفسِ نفیس سکول کا دورہ کرنے آ رہے ہیں۔ ٹیچرز میں سراسیمگی پھیل گئی جنہوں نے عین توقع کے مطابق اس کو بچوں میں منتقل کیا۔ پورا سکول پڑھائی چھوڑ کر ان گنت تیاریوں میں مشغول ہو گیا۔ اس دورے کے 'ٹی او آرز' میں یہ بات بھی بتلائی گئی کہ چیف صاحب بچوں کی کاپیاں تک چیک کریں گے۔ جی ہاں اور ہم گھر آ کر ہوم ورک کی کاپیوں کو بناتے، بگاڑتے رہتے۔
بہر حال سپہ سالار صاحب آئے اور چلے گئے۔ ہماری انتہائی پرائمری کلاسوں تک تو آمد نہیں ہوئی، لیکن دور سے جھانکتی، ڈرتی اور ترستی ٹیچروں کے ہمراہ ہم بچوں نے بھی روبوٹ بنے کھڑکیوں سے ترچھی نگاہوں کے ساتھ آصف نواز کو طویل قامت ہونے کی وجہ سے جھکتے ہوئے ایک کلاس میں جاتے دیکھا۔ اگلے دن 'مستند ہے آپ کا فرمایا ہوا' کے مصداق اخباروں میں چیف کی واقعی بچے کی کاپی کو دیکھتے ہوئے تصویر چھپی۔ انتہائی رعب دار اور جاذب شخصیت، سکول کا 'پِن ڈراپ' ماحول اور اگلے دن اخبار میں سحر انگیز تصویر۔۔۔ خوش قسمت رہے کہ اوائل عمری میں ہی مدر لینڈ کی 'اصل حقیقت' عیاں ہو گئی۔ اور یہ ہماری خوش فہمی بھی ہے کہ اسی بچپن کے 'ادراک' کی بدولت ابھی تک ہم بالمشافہ ٹھکائی سے بچے ہوئے ہیں۔
اس سکیورٹی سٹیٹ کے سرخیل، رعب و دبدبے اور لمبے قد والے سپہ سالار نے خیر 'ٹھگنے' سویلین وزیراعظم کو کیا سلیوٹ کرنا تھا، بلکہ کچھ عرصے بعد آصف نواز کی قیادت میں سندھ میں کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کراچی کے 'پکوں' تک وزیر اعظم نواز شریف کی اپروول کے بغیر پھیل گیا جو جناح پور کے نقشوں کی برآمدگی اور الطاف بھائی کی لندن مار بھگائی پر منتج ہوا۔ اور 'فاتح سندھ' اور 'فاتح کراچی' میاں شریف کی بی ایم ڈبلیو کو روندتے ہوئے 'فاتح اسلام آباد' بننے کے لیے پر تولنے لگے۔ دن ایسے آ گئے تھے کہ لوگ مارشل لائی خبر پر ماشاء اللہ کہنے کو تیار بیٹھے تھے۔
لیکن یہ بات کہی جاتی ہے کہ 'کشادہ' جسم و دل کے باوجود جنجوعہ صاحب ایک ذہنی خلفشار کا شکار ہوئے کہ باوجود ان کی 'فتوحات' اور سپہ سالاری 'قومی' مقبولیت کی اوپری سطح پر نہ پی این اے جیسی تحریک تھی، نہ انتشار تھا اور نہ اصغر خان جیسا اپوزیشن لیڈر۔ آخر دل و ذہن پر حاوی ہونے کے لیے اوپر گیا اور آصف نواز کو بھی اوپر ہی لے گیا جس کا براہِ راست الزام مقصود چپڑاسی کی موت کی طرح وزیر اعظم نواز شریف کے اوپر لگا۔
کچھ عرصے بعد صدر اسحاق نے 58 ٹو بی کے تحت 'اسمبلیاں پھر توڑتے ہوئے' کرپشن کے دائمی سویلین الزام کے علاوہ آرمی چیف کی موت میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تو بیگم آصف کی درخواست پر قبر کشائی ہوئی۔ آخر پوسٹ مارٹم رپورٹ پر لب سلائی ہوئی جس کی کُھلوائی پوری ایک نسل کے وقفے کے بعد ان کی نواسی کے طفیل اس بار بظاہر سویلین لبادے کے 'ایلان' میں ہوئی، لیکن 'نو مئی' قسمت کہ جنگجو کے طور پر پہچان رکھنے والے جنجوعہ خاندان کی ایک بار پھر دلی خواہش نما بغاوت ادھوری رہ گئی۔
آصف نواز جنجوعہ کی صاحبزادی اور آمریتی حکومتوں کے معاشی گُرو سلمان شاہ کی بیٹی خدیجہ شاہ کو اس 'نو پانچ' انقلاب ہوتی بغاوت کا کمانڈر کہا جا رہا ہے کہ 'کچی ریکی' کے مطابق 'پیک پوائنٹ' یعنی لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس پر یلغار کی وہ ماسٹر مائنڈ تھیں۔ باوجود مس شاہ جنجوعہ کے بیان کے کہ وہ بس لبرٹی میں 'شاپنگ نما' احتجاج کرنے آئی تھیں اور محض جلوس کے ساتھ 'بڑے گھر' چل پڑیں، لیکن لوگوں کا کہنا ہے کہ 'سٹرابیری اور مور' کا پتا صرف گھر کا بھیدی ہی بتا سکتا تھا۔ چنانچہ 'فیلڈ مارشل' خدیجہ کی نشاندہی پر سٹرابیری بھی کھائی گئی، مور کو بھی چُک لیا گیا اور پھر مور چُک کو بھی چُک لیا گیا۔
جن آہنی ہاتھوں کے خلاف ریڈ لائن کراس ہوتے ہی انقلاب لایا جا رہا تھا، طُرفہ تماشہ ہے کہ وہ خود آہنی ہاتھ رہ چکے تھے اور 'سپر سپریم کمانڈر' کی ہدایات کے مطابق فیشن ڈیزائنر 'فیلڈ مارشل' خدیجہ شاہ کے 'گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا' والا انقلاب ایسے ہی بھاپ بن کر ہی اُڑ سکتا تھا کہ جس کی 'اُڑن چُھو' مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔
وہ جو کہتے ہیں کہ ہر ناکام انقلاب بغاوت ہے تو اسی طرح 9 مئی کی انقلابی 'پیش کش' بھی ہلکی پھلکی بغاوت کے طور پر پیش کی جا رہی ہے جس کی باگ کھلاڑی کے ہاتھ میں تھی تو ڈور فیشن ڈیزائنر کے ہاتھ میں۔ ڈور تو کٹ گئی لیکن بل نہیں گیا اور جنرل کی نواسی سے 'اپنے ملک کی ایمبیسی' تک سب کَس بَل گرفتاری سے پہلے ایک 'جرنیلی' معذرت میں بتا دیے گئے۔
امید ہے کہ اس دو قانون والے رونے پیٹنے کے بعد چند دنوں میں کوئی راہ تلاش کر لی جائے گی کہ ان کے 'ایلان' سے مستفید ہونے والوں میں بڑے بڑے لوگ شامل ہیں۔ جنجوعہ خاندان کیلئے اس بار فرق یہ رہے گا کہ بجائے اوپر جانے کے، وہ اپنے من پسند ملک سدھاریں گی۔
جہاں تک سزاؤں کا تعلق ہے تو ایسی 'پولی' بغاوت میں 'سلیکٹیڈ' اور ہلکی پھلکی قید اور لتر سے ہی کام چلایا جائے گا کہ مور چور کو تو دو چار سال بولے گی اور لتر پولے الگ کیے جائیں گے جبکہ دوسری طرف مور سے 'بے وفائی' کرنے والی چار پنکھ اور لگا کر اپنے جنگل جا کر اِترا اِترا کر چلا کرے گی۔