حقیقی خوشی کیا ہوتی ہے؟ وہ کیسے محسوس کی جاتی ہے؟ اور اسے محسوس کرتے کتنا خالص پن کا احساس ہوتا ہے؟ ان سوالات کا جواب سہلہ کو تب ملتے ہیں جب پی ایم ایس کے مسابقتی امتحانات کے ٹوپرز میں سے اس کا نام سرفہرست آتا ہے۔
طویل جدوجہد کے بعد جب منزل پانے کے قریب ہو تو ان کی خوشیوں کا کوئی پیمانہ نہیں ہوتا۔ اور ایسی خوشیوں کے راستے کا اگر کوئی کانٹا بن جائے تو؟
سہلہ کے چچا کا بیٹا شاہ میر اسے کافی عرصے سے چاہتا تھا۔ ان دنوں شاہ میر اپنے والدین کے ہمراہ سہلہ کے والدین سے اس کا ہاتھ مانگنے آئے تھے جب سہلہ اپنی خوشی میں مگن ہونے کے ساتھ ساتھ "انٹرویو کیسا ہوگا؟" کے سوال میں الجھی ہوئی تھی۔ رشتے کی بات سہلہ سے اور ان سے سہلہ کے امتحانات کی بات پوشیدہ رکھی گئی۔
سہلہ ایک ایسے دائرے میں رہنے والی لڑکی تھی جہاں کسی لڑکی کی فطری استعداد سے زیادہ اس کا کہاں اچھی جگہ رشتہ مل جانا بڑی بات سمجھی جاتی تھی۔
راز چھپتے کہاں! شاہ میر اور اس کے گھر والوں کو سہلہ کے اس امتحان میں پاس ہو جانے کا علم ہو گیا۔ انہیں سہلہ کی قابلیت قابل قبول نہ تھی۔
"شادی ایک ہی شرط پر ہوگی، اگر سہلہ بھول جائے کہ اس نے کوئی امتحان پاس کیا ہے اور اسے کوئی نوکری کرنی ہے۔" شاہ میر والوں کا یہ اعلانیہ پیغام آیا۔
خاندان کے سب سے اچھے اور معتبر گھر سے رشتہ آنا اور پھر یوں انکار سہلہ کے والد کی عزت کو ٹھیس پہنچاتا۔ معاشرے کے اصولوں کا وہ ایک بہت بڑا غلام تھا۔ بیٹی کی جدوجہد کو قربان کرنا اس کے لئے آسان تھا مگر اس انمول رشتے سے انکار پسند نہیں تھا۔ وہ اپنی بیٹی کو جلد از جلد اپنے گھر میں خوش دیکھنا چاہتا تھا۔ اس نے سہلہ کی رضا مندی پوچھے بغیر شادی کی تاریخ طے کر دی کیونکہ اسے اب زیادہ دیر زندہ رہنے کی امید نہیں تھی۔
مگر اسے اتنا اندازہ نہیں تھا کہ خوشی غم میں تبدیل ہو جائے گی اور موت اتنی جلدی بغلگیر ہو جائے گی۔ اس کی موت دل کے دورے کی وجہ سے ہوئی تھی اور دل کا دورہ بیٹی کے وکیل کے ان تحریری الفاظوں کے صدمے کی وجہ سے آیا تھا جو شاید ہر باپ کے لئے ڈوب جانے کا مقام ہوتا۔ اپنی ہی بیٹی کسی وکیل، کسی قانون، کسی قانونی نوٹس کے ذریعے اپنے باپ کو یہ دھمکی دے کہ اگر آپ نے شادی زبردستی کروائی تو پی پی سی کے 498-B ایکٹ کے تحت آپ کو تین سے سات سال کی قید کی سزا اور پانچ سو ہزار جرمانہ بھرنا پڑے گا۔
یہ الفاظ ہی ایک باپ کی مجبوری اور اکلوتی اولاد کی خوشی کے عوض میں بہت تھے۔ آگے آخری دھمکی پڑھتے وہ دم ہی توڑ بیٹھا۔
"مزید عمل کی اگر ضرورت پڑی تو اس نوٹس کی کاپی میرے پاس موجود ہے۔"
سہلہ اپنے باپ کے موت کے بعد بالکل ششدر سی تھی۔ وہ اپنے باپ کی موت نہیں چاہتی تھی۔ اسے تو بس اپنے خوابوں کو پورا کرنے کا جنون تھا۔ ایسے کیسے وہ شادی کر لیتی وہ بھی اس سے جسے اس کے خوابوں کا وزن ہی برداشت نہ ہو رہا ہو؟ اس نے بس قانون کا سہارا لیا تھا۔ کچھ اور وہ نہیں کرنا چاہتی تھی اور اس کا والد اس کی ایک نہیں سن رہا تھا۔
اسی اثنا میں سہلہ کے انٹرویو کی گھڑی بھی آ پہنچی۔ اس کا نام لیا گیا۔ اندر حال میں داخل ہو رہی تھی۔ دروازہ کھولا گیا مگر پیچھے سے ایک آواز نے اس کی زندگی میں ایک نیا موڑ لے لیا۔
آواز دینے والی اس کی ماں تھی۔ بڑے عرصے بعد سہلہ کی ماں نے اسے پکارا تھا۔ جب سے مسٹر اسد اس دنیا سے چل بسے تھے تب سے مسز اسد نے ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالا تھا۔ اس کے ہمراہ شاہ میر اور پولس تھی۔
سہلہ کا جرم کیا تھا؟ اسے پولس کیوں لے گئی؟ اور سب سے اہم پولس کو کون لے کر آیا؟
مسز اسد، سہلہ کی ماں پولس کو لائی تھی۔ سب سے پہلے ایف آئی آر درج کروائی کہ اسد رضا کو موت کے منہ میں دھکیلنے والی ان کی بیٹی ہے۔ اس نے مزید پولس کو بتایا کہ وہ ہمیشہ اپنی من مانیاں کرتی رہی ہے اور اپنے باپ کو دہنی طور پر دباؤ دیتی رہی ہے۔ اس بار بھی صرف اس لئے وہ قانونی نوٹس بھجوایا کیونکہ اسد رضا نے اسے اپنے چچا زاد کا رشتہ آنے کی بات کی۔ وہ قانونی نوٹس ثبوت کے طور پر دکھایا گیا اور شاہ میر ایک اور عینی شاہد بن گیا۔
سہلہ کو وہاں سے گرفتار کر لیا گیا جہاں سے فقط ایک قدم کی دوری پر منزل تھی۔ انٹرویوئرز نے سہلہ کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں دیکھ کر اس کو برخاست کر دیا۔
شاید وہ بری ہوجائے۔
شاید وہ یہ کیس چیت جائے۔
شاید وہ یہ ثابت کر دے کہ اس نے نہیں مارا اپنے باپ کو۔
یا شاید اس کی ماں غصے میں ہو۔
شاید وہی اسے معاف کر دے۔
مگر کیا اس کی جدوجہد نے یہ رنگ لانا تھا؟
ماں کے جذباتی پن کا یہ صلہ ملنا تھا؟
انٹرویو تو برخاست ہو گیا۔
ہجوم میں کی گئی گرفتاری کا کیا انجام ہوگا؟
معاشرے کے اصولوں اور رسومات کے غلاموں نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنا ہی تنکوں کا گھر اجاڑ دیا۔
ان حالات میں ایک لڑکی کیا کرے؟ اس کے ساتھ جب زبردستی کی جائے تو کیا اس کے پاس کوئی قانونی راستہ نہیں؟ کیا وہ قانونی نوٹس غیر قانونی تھا؟
عروسہ ایمان ایل ایل بی کی شاگر کے ساتھ ساتھ اردو ادب میں دلچسپی رکھتی ہے۔ اپنے احساسات و جذبات کو الفاظوں میں قید کرنے کا مقصد صرف اور صرف معاشرے میں بڑھتے تنازعہ اور مرد و خواتین کے درمیان امتیازی سلوک کو ختم کرنے کی ایک بہت سی چھوٹی کوشش ہے۔ وہ کہتے ہیں نا کہ کچھ نا کر سکو تو دل میں ہی بری چیز اور کسی برے عمل کو برا کہو۔ تو بس یہ الفاظوں کی جنگ کا یہی مقصد ہے۔