عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف ) نے حکومت پاکستان کی اسٹیٹ بینک سے قرض لینے کا راستہ کُھلا رکھنے کی تجویز مسترد کردی ہے۔
مرکزی بینک کا 100فیصد منافع بھی اس وقت تک وفاقی حکومت کو منتقل نہیں ہوسکے گا جب تک کہ بینک اپنے مالیاتی واجبات کے لیے کوئی کور حاصل نہیں کرلیتا۔ اسٹیٹ بینک کے نفع کا 20 فیصد بینک کے پاس ہی رہے گا جب تک کہ وہ مطلوبہ کور حاصل نہیں کرلیتا۔
ذرائعکے مطابق آئی ایم ایف نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ 1956 میں ترامیم کی حکومت پاکستان کی تمام اہم تجاویز مسترد کردی ہیں اور صرف مرکزی بینک کے بورڈ ممبرز کی تقرری اور سیکریٹری خزانہ کو بورڈ میں رکھنے کا وفاقی حکومت کا اختیار تسلیم کیا ہے مگر سیکریٹری کو ووٹ کا اختیار نہیں ہوگا۔
پیر کے روز مشیر خزانہ شوکت ترین نے میڈیا کو بتایا کہ اسیٹ بینک بل کی منظوری آئی ایم ایف کی ان شرائط میں شامل تھی جن پر حکومت کو جنوری 2022ء میں ایک ارب ڈالر کی اگلی قسط لینے کے لیے عمل درآمد کرنا ناگزیر تھا۔ آئی ایم ایف نے حکومت پاکستان کی ایک مالی سال میں جی ڈی پی کے 2 فیصد تک قرضے لینے کی تجویز بھی مسترد کردی۔
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے یہ تجویز بھی قبول نہیں کی کہ وفاقی حکومت مرکزی بینک کو افراطِ زر کا ہدف دے گی۔ آئی ایم ایف نے البتہ مس کنڈکٹ پر گورنر اسٹیٹ بینک کو ہٹانے کا حکومتی اختیار تسلیم کرلیا ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون نے مارچ میں اسٹیٹ بینک کو مکمل خودمختاری دینے اور وفاقی کابینہ کی جانب سے بل کو پڑھے بغیر منظور کرلینے کا معاملہ اٹھایا تھا۔
مشیرخزانہ شوکت ترین نے کہا کہ حکومت اس بات کو یقنی بنائے گی کہ اسٹیٹ بینک کی خودمختاری سے متعلق قانون سازی منظور ہوجائے۔ شوکت ترین نے کہا کہ اب اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ نیب کا قانون اسٹیٹ بینک پر بھی لاگو ہوگا۔