مشیر خزانہ شوکت ترین نے اعتراف کیا ہے کہ حکومت نے اگر وقت پر مائع قدرتی گیس ( ایل این جی) کارگوز خرید لیے ہوتے تو گیس کے بحران کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
نجی ٹی وی چینل ’سما نیوز‘ کے پروگرام میں انٹرویو میں شوکت ترین کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے ملک میں گیس مہنگی ہے۔
ملک میں گیس کے شدید بحران کے حوالے سے سوال پر شوکت ترین کا کہنا تھا کہ ’گزشتہ دنوں میں ہمیں جو کارگوز لے لینے چاہیے تھے وہ ہم نے نہیں لیے، لیکن اگر کارگوز وقت پر خرید لیے جاتے تو بھی صرف 2 سے 3 ماہ کا ہی فائدہ ہوتا، ابھی حالات یہ ہیں کہ پیٹرول اور گیس کی درآمدات 7 سے 8 ڈالرز بڑھ گئی ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ دسمبر اور جنوری کے درمیان قیمتیں کم ہوں گی۔
انہوں نے کہا کہ لکی مروت اور دوسرے مقامات پر گیس کی دریافت ہوئی ہے، مقامی کمپنیاں کچھ نہیں کر رہی ہیں کیونکہ ان کے پاس کیش نہیں ہے، ان کے اوپر گردشی قرضہ اتنا ہے کہ وہ ڈویڈنٹ نہیں دے سکتیں، تو جیسے ہی وہ ڈیویڈنٹ دیں گے اس کی قیمت بڑھ جائے گی‘۔
آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے حوالے سے مشیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا تھا کہ آئی ایم سے دوسرے معاہدے کی شرائط گزشتہ معاہدے کے مقابلے اتنی مشکل نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے معاہدے میں 700 ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگانے تھے اور بجلی کے فی یونٹ پر 4 روپے کا ٹیرف بڑھانا تھا اور مرکزی بینک کو آزاد بنانا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپریل میں عہدہ سنبھالا اور حکومت آئی ایم ایف سے پہلے ہی معاہدہ کر چکی تھی، میں نے حکومت کو ٹیکس دینے والوں پر بوجھ کم کر کے مزید ٹیکس کنندگان کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لانے کا مشورہ دیا۔''
انہوں نے کہا کہ میں نے حکومت سے کہا کہ گردشی قرضہ بڑھنے کا سبب بے شمار بجلی گھر ہیں، آج آپ ٹیرف میں اضافہ کریں تو اس کا نقصان عام شہری کو بھرنا پڑے گا لہٰذا اس کا کوئی دوسرا حل نکالا جائے۔
پیشگی اقدامات کے حوالے سے شوکت ترین کا کہنا کہ آئی ایم ایف کو ایک موقع ملا ہے جب میں 2008 میں آئی ایم ایف گیا تھا تو انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان میں افراط زر کی شرح 18 فیصد ہے اور ڈسکاؤنٹ کی شرح 13 فیصد ہے اور اسے مزید 5 فیصد بڑھائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نے کہا کہ یہ آپ کا پہلا پیشگی اقدام ہوگا جس پر میں نے اس عمل سے انکار کردیا تھا، میں نے کہا یہ تیل کی مہنگائی ہے جب تیل کی قیمت نیچے آجائے گی تو ہم کیا کریں گے ہم اپنا بزنس خراب نہیں کر سکتے، میں نے صرف ڈھائی فیصد ڈسکاؤنٹ ریٹ بڑھایا، یہ اس وقت کی صورتحال تھی۔
آئی ایم ایف کی موجوہ شرائط کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ موجودہ سیاسی حالات کے پیش نظر ہم یہ بات پارلیمنٹ میں لے کر جائیں گے اور تینوں معاملات پر آپ کو فنانس بل لانا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے 700 ارب روپے ٹیکس کی بات کی تھی ہم 300 ارب روپے پر متفق ہوئے، انہوں نے کہا کہ 4 روپے 95 پیسے ٹیرف بڑھائیں ہم نے آدھے ٹیرف ریٹ پر انہیں رضا مند کیا۔
شوکت ترین کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے معاہدے میں موجود اسٹیٹ بینک سے متعلق کئی ایسی شرائط نکال دی ہیں جو ہم پوری نہیں کر سکتے تھے۔
ایک سوال کے جواب میں شوکت ترین نے بتایا کہ منی بجٹ کا اعلان آئندہ ہفتے تک کردیا جائے گا، منی بجٹ سے 350 ارب روپے کی چھوٹ ختم کی گئی ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کسی نہ کسی انداز میں چھوٹ حاصل کر رکھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ آپ یکساں ٹیکس ریٹ 17 فیصد کردیں۔
17 فیصد ٹیکس ریٹ کی وجہ سے مارکیٹ پر دباؤ کے حوالے کے کیے گئے سوال پر شوکت ترین کا کہنا تھا کہ اس سے مارکیٹ میں تھوڑا بہت دباؤ پیدا ہوگا اور اس کے اثرات نمو پر بھی مرتب ہوں گے۔
گاڑیوں کی قیمتوں سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ گاڑیوں کی قیمت میں کمی کا ایک طریقہ اپنایا گیا تھا، جس سے نمو میں اضافہ ہوا، ہمیں اب سے روکنا پڑے گا۔
ان کا بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر کہنا تھا کہ 15 ارب کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں ویکیسن بھی شامل ہے جو فنڈڈ ہے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ کرنٹ اکاونٹ خسارے کو کم کرنا ہوگا
بجلی قیمت کے حوالے سے مشیر خزانہ نے کہا کہ بجلی کی قیمت میں 4 روپے سے زائد اضافہ کرنے کے لیے کہا گیا، لیکن ہم نے ایک روپیہ 68 پیسے اضافہ کیا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ بجلی کی قیمت اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے لیکن پیٹرول کی قیمت کے زیادہ اثرات پڑتے ہیں، اگر پیٹرول کی قیمت کم نہیں ہوئی تو یہ لوگوں کے لیے بوجھ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ڈسکاؤنٹ کی شرح میں اضافے سے اسے کنٹرول کیا جاسکتا ہے اور اب دوبارہ وہ وقت نہیں آئے گا جب شرح سود 13 فیصد سے زائد تھی۔
شوکت ترین نے شرح تبادلہ کے حوالے سے کہا کہ یہ اسٹیٹ بینک کا معاملہ ہے، میرا خیال ہے کہ جب تک مہنگائی کم نہیں ہوگی شرح تبادلہ نیچے نہیں آئے گا، اسے مستحکم رکھنا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ شرح تبادلہ کا سب سے بڑا نقصان مہنگائی ہے اور اس سے کھانے کی اشیا کی برآمدات پر اثر پڑتا ہے۔
نجکاری سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس ایسے کئی منصوبے موجود ہیں جس میں آر ایل این جی پلانٹس بھی شامل ہیں، ہمارے پاس 15 ادارے ہیں جس میں اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے، اس کے لیے ہم ایک بورڈ بنائیں گے، سب سے پہلے ڈسکوز پھر پی آئی اے اور اس کے بعد ریلوے سمیت دیگر اداروں کی نجکاری ہوگی۔