آج 23 نومبر 2022 کو جنرل ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی میں شہدا کے اعزاز میں ہونے والی تقریب میں آرمی چیف جنرل باجوہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس موضوع پر بات کرنا چاہتے ہیں جس پر عموماً بات نہیں کی جاتی۔ ان کا مطلب تھا 1971 میں ڈھاکہ کے حالات اور اس پر پاک فوج کا کردار۔ جنرل باجوہ نے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مشرقی پاکستان میں فوج بڑی بہادری سے لڑی اور فوج نے بہت قربانیاں دیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سانحہ مشرقی پاکستان فوجی ناکامی نہیں بلکہ سیاسی ناکامی تھی۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ جنرل باجوہ کو اس حساس اور متنازعہ تاریخی واقعے پر لب کشائی سے گریز کرنا چاہئیے تھا کیونکہ مشرقی پاکستان اور اس میں پاک فوج کے کردار والا موضوع ایک کثیر اور لاحاصل گفتگو کو دعوت دیتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان کی مدت ملازمت میں صرف چند دن رہ گئے ہیں، ان کے لئے مناسب ہوتا اگر سیاسی گفتگو کی بجائے الوداعی اور دعائیہ کلمات پر اکتفا کرتے۔ یہ مناسب نہیں تھا کہ جاتے جاتے ایک نئی بحث اور تنازعہ کھڑا کر جاتے۔ بہرحال انہوں نے جو گفتگو کی اس کے سیاق و سباق میں جانا ضروری ہے۔
جنرل صاحب نے کہا کہ مشرقی پاکستان میں ناکامی ایک سیاسی ناکامی تھی مگر وہ یہ بتانے سے قاصر رہے کہ اس سیاسی ناکامی کے پیچھے وہ کون سے فوجی محرکات تھے جن کے بدولت پاکستان کی سیاست اس مقام پر پہنچی کہ اتنا بڑا سانحہ ہو گیا۔
تاریخ انسانی گواہ ہے کہ ملکوں کے ٹوٹنے، قوموں کے تباہ ہونے اور جغرافیائی حدوں کے بدلنے کے واقعات اچانک رونما نہیں ہوتے بلکہ اپنا ایک ارتقائی عمل طے کرنے کے بعد اس مقام پر پہنچتے ہیں جہاں پر حالات اور واقعات ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔ قیام پاکستان ہی سے بنگال کے ساتھ زیادتیوں کا ایک طویل اور لا متناہی سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ بنگالی کے بجائے اردو کو قومی زبان بنانے کی وجہ سے بنگالیوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی۔ پاکستان کا دارالحکومت بھی مشرقی پاکستان کے بجائے مغربی پاکستان میں بنایا گیا حالانکہ آبادی کے لحاظ سے مشرقی پاکستان زیادہ بڑا علاقہ تھا۔
مشرقی پاکستان کے سیاسی رہنماؤں کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اقتدار اور ریاستی امور سے دور رکھا گیا۔ 1953میں خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو مغربی پاکستان کے گورنر جنرل غلام محمد نے برطرف کر دیا۔ خواجہ ناظم الدین کی برطرفی کے بعد تو بنگالی لیڈروں کی تذلیل ایک عام روایت بن گئی۔ محمد علی بوگرا اور حسین شہید سہروردی کی حکومتوں کو بھی برداشت نہ کیا گیا جس سے بنگالیوں کے ذہنوں میں مغربی پاکستان کی اشرافیہ کے لئے نفرت پیدا ہونا شروع ہوئی۔
مگر حالات کی سنگینی کی تاریخ اس وقت شروع ہوتی ہے جب پاکستان میں 1958 میں پہلا مارشل لا لگا۔ بنگالی مغربی پاکستان کی عوام سے زیادہ سیاسی طور پر بیدار قوم تھے۔ مسلم لیگ کے قیام سے لے کر پاکستان بننے تک انہوں نے قائداعظم اور تحریک پاکستان کا ساتھ دینے میں جنون اور جوش کا مظاہرہ کیا۔ اس لئے بنگالیوں نے کبھی بھی پاکستان میں فوجی حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ لیکن فوجی حکومت نے ہمیشہ سے بنگالیوں کو طاقت کے زور پر کچلنے کی اور سبق سکھانے کی کوشش کی۔ ایوب خان نے مشرقی پاکستان کو لیفٹیننٹ جنرل اعظم خان، میجر جنرل مظفرالدین اور لیفٹیننٹ جنرل یعقوب خان جیسے فوجی جرنیلوں کے ذریعے سے چلانے کی کوشش کی جنہوں نے آمریت کی طاقت سے بنگالیوں کے سیاسی شعور کو دبانے کی کوشش کی۔ ایوب خان کے 1965 کے صدارتی ریفرنڈم میں بنگالیوں نے ایوب خان کے مقابلے میں فاطمہ جناح کی حمایت کی مگر ان کے ووٹ پر فوجی آمروں اور ان کے حواریوں نے شب خون مارا۔ الیکشن کے اگلے دن ڈھاکہ کے سب سے بڑے اخبار کی شہ سرخی یہ تھی: 'ایک شخص جیت گیا اور 10 کروڑ عوام ہار گئے۔'
اسی طرح ایوب خان کی فوجی حکومت نے بنگالیوں کی ہردلعزیز سیاسی پارٹی عوامی لیگ اور اس کے رہنماؤں مولانا بھاشانی، حسین شید سہروردی اور شیخ مجیب الرحمنٰ کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا۔ عوامی لیگ کے جائز مطالبات کو بھی غداری سے جوڑ کر ان کو اقتدار سے دور رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کو پابند سلاسل بھی کیا گیا۔
جنرل یحییٰ خان نے اپنے مارشل لا کے دور میں بنگالیوں پر مظالم کی ایوبی دور کی تاریخ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ انہوں نے بھی فوجی گورنروں وائس ایڈمرل محمد احسن، لیفٹیننٹ جنرل یعقوب علی خان اور جنرل ٹکا خان کے ذریعے سے بنگالیوں کی اپنے جائز حقوق کی آواز کو دبانے کی کوشش کی۔
جب بنگال میں حالات زیادہ خراب ہوئے تو بجائے اس کے کہ تنازعہ کا کوئی سیاسی حل نکالا جاتا، یحییٰ خان نے جنرل امیر عبداللہ جیسے سفاک شخص کو مشرقی پاکستان کا گورنر بنا کر بھیج دیا جس کے وہ الفاظ آج بھی ہر محب وطن پاکستانی کے کانوں میں گونجتے ہیں: 'میں اس حرام زادی قوم کی نسل بدل کر رکھ دوں گا۔'
جنرل باجوہ شاید ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ سانحہ مشرقی پاکستان ہماری سیاسی ناکامی تھی مگر یہ فوجی- سیاسی ناکامی تھی کیوںکہ مشرقی پاکستان کے حکومتی اور سیاسی حالات تو پاکستان کی فوج اور اس کے جنرل چلا رہے تھے۔
جنرل باجوہ اہنی ریٹائرمنٹ کے آخری دنوں میں یہ بھی بھول رہے ہیں کہ 1971 میں سانحہ بنگال کے وقت حکومت کس کی تھی؛ پاکستان کی فوج کی اور یہ کس کی ذمہ داری تھی بنگالیوں کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے ان کو اقتدارٹرانسفر کیا جائے۔ مگر آمریت نے ہمیشہ کی طرح بنگالیوں کو اس بار بھی حکمرانی کے قابل نہ سمجھتے ہوئے ان کو ان کے آئینی اور جمہوری حق سے محروم کر دیا۔
پروین شاکر کا ایک شعر یاد آ رہا ہے کہ:
ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی
اس نے مگر بچھڑتے وقت اور سوال کر دیا
عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔