16 دسمبر 1971، جب پاکستانی فوج نے ہندوستانی فوج کے سامنے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈالے اور نوے ہزار سے زائد جنگی قیدی بن گئے اور پاکستان ٹوٹ گیا۔ ہر سال 16 دسمبر 1971 کے سانحہ پر اخبارات اور جرائد خصوصی ضمیمہ نکالتے ہیں اور اب الیکڑانک میڈیا بھی اس پر خصوصی پروگارم کرتا ہے۔ دانشور اس پر اپنی اپنی رائے دیتے ہیں۔ مگر اگر آپ ان سب باتوں کا بغور مطالعہ کریں تو اس میں آپ کو ایک بات مشترک نظر آئے گی وہ یہ کہ پاکستان کو ہندوستان نے توڑ دیا اور اس کے ساتھ سوؤیت روس بھی شامل تھا۔ جنرل یحییٰ شرابی اور زانی تھا یا یہ ہماری مذہب سے دوری کا نتیجہ ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ مکمل سچ ہے؟
مکمل سچ جاننے کے لئے ہمیں پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالنی پڑے گی۔
آل انڈیا مسلم لیگ ڈھاکہ میں 1906 میں قائم ہوئی۔ یعنی بنگالی مسلمانوں کو اپنے حقوق کا باقی صوبوں سے پہلے شعور تھا۔ مسلم لیگ نے دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح انگریزوں کو پیٹیشنز دینے کا اور وفد کے ذریعہ ملاقاتوں کا طریقہ اپنایا۔
مارچ 1940 میں لاہور میں منظور ہونے والی ایک قرارداد (جسے ہم قرارداد پاکستان کہتے ہیں) میں ایک ریاست کی بجائے آزاد اور خود مختار ریاستوں کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
بحرحال 15 اگست 1947 کو ہندوستان کی تقسم کے نتیجے میں پاکستان معرض وجود میں آ گیا۔
قائد اعظم محمد علی جناح اس کے پہلے گورنر جنرل بنے اور نوابزادہ لیات علی خان اس کے پہلے وزیر اعظم۔
یہاں اس بات کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ مشرقی پاکستان نے مغربی پاکستان سے چھ لوگوں کے لئے آئین ساز اسمبلی سے استعفے دیے تاکہ یہ لوگ ممبر بن سکیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ممبر بننے والوں میں نوابزادہ لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم بھی تھے۔
گو ہندوستان میں سب سے پہلے انگریزوں نے بنگال کو ہی فتح کیا تھا اور 1911 تک کلکتہ ہی برطانوی راج کا دارالخلافہ رہا، بنگال اور بہار کی فوج کی مدد سے ہی انگریزوں نے باقی ہندوستان فتح کیا لیکن میں جس حقیقت کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے وقت پاکستان کی فوجی اور سویلین نوکر شاہی میں بنگالیوں کا حصہ بہت ہی کم تھا۔
پاکستان کے بہت بڑے مؤرخ محترم کے کے عزیز کا کہنا تھا کہ شروع ہی سے مغربی پاکستان کے لیڈروں کا بنگالیوں کے ساتھ حقارت آمیز رویہ تھا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ جلد ہی ’مہاجر اور پنجابی نوکر شاہی نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی وفات کے بعد خواجہ ناظم الدین کو پاکستان کا گورنر جنرل بنا دیا گیا۔ لیکن کیونکہ نوابزادہ لیاقت علی خان کا سیاسی قد کاٹھ بہت بڑا تھا اس لئے ساری طاقت اور اختیارات لیاقت علی خان کے ہاتھ میں تھے۔
جب لیاقت علی خان کو 16 اکتوبر 1951 کو راولپنڈی کے کمپنی باغ میں گولی مار دی گئی تو خواجہ ناظم الدین کو ان کی جگہ وزیر اعظم مقرر کر دیا گیا اور نوکر شاہی کے نمائندے غلام محمد جن کا تعلق پنجاب سے تھا گورنر جنرل بن گئے۔ اس طرح سارے اختیارات ایک دفعہ پھر گورنر جنرل کے پاس چلے گئے۔
نوکر شاہی کو کوئی بھی ایسا وزیر اعظم برداشت نہیں تھا جس کا کوئی اپنا قد کاٹھ ہو لہٰذا گورنر جنرل غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کو وزارت عظمیٰ سے برطرف کر کے آئین ساز اسمبلی توڑ دی۔
سندھ ہائی کورٹ نے گورنر جنرل کے فیصلے کو خلاف قانون قرار دیا مگر فیڈرل کورٹ نے گورنر جنرل کے حق میں فیصلہ دیا۔
یہاں سے پاکستانی سیاست میں عدلیہ کا کردار شروع ہوتا ہے مگر بقول حامد خان کے پاکستان کے پہلے چیف جسٹس کے تقرر کے وقت بنگالی جج سینیئر تھے مگر نوکر شاہی نے مغربی پاکستان کے جسٹس منیر کو چیف جسٹس بنا دیا۔
1958 تک جب فوج نے ملک میں جنرل ایوب کی قیادت میں مارشل لا لگا دیا۔ اس سے پہلے مشرقی پاکستان کے محمد علی بوگرہ اور سہروردی پاکستان کے وزیر اعظم بنے۔
مؤرخ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب قائد اعظم نے ڈھاکہ میں یہ ایک جلسے میں اعلان کیا کہ پاکستان کی قومی زبان صرف اور صرف اردو ہوگی تو حاضرین نے اپنے اختلاف کا برملا اظہار کیا۔
یہاں اس بات کا ذکر بھی بے محل نہ ہوگا کہ کراچی کی نوکر شاہی کے خلاف بنگالیوں نے اپنے غم و غصے کا اظہار کرنے کے لئے مشرقی پاکستان کے صوبائی الیکشن میں مشرقی پاکستان والوں نے سب بڑے سیاست دانوں کو زبردست شکست دی۔
جنرل ایوب کے دور حکومت میں مغربی پاکستان نے خوب ترقی کی اور اسلام آباد کو ملک کا دارالخلافہ بنا دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک میں بائیس خاندانوں کی اجارہ داری بھی قائم ہو گئی۔
دراصل 1965 کی جنگ نے نہ صرف ملک کی اقتصادی ترقی کو روک دیا بلکہ مشرقی پاکستان میں بھی احساس محرومی اور خوف پیدا کر دیا کیونکہ یہی کہا جاتا تھا کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کیا جائے گا۔
اقتدار پر جنرل یحییٰ خان کے قبضے کے بعد اس نے نہ صرف مغربی پاکستان میں ون یونٹ توڑ دیا بلکہ پاکستان میں پہلے عام انتخابات بھی کروائے جس میں ملک کی تاریخ میں پہلی بار مشرقی پاکستان کو آبادی کی بنیاد پر قومی اسمبلی میں نمائندگی دی گئی۔
الیکشن کے نتیجہ میں مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ ساری سیٹوں سوائے دو کے کامیاب ہوئی۔ مغربی پاکستان میں پنجاب اور سندھ میں پیپلز پارٹی، صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) اور بلوچستان میں عوامی نیشنل پارٹی جیتی۔
اب چاہیے تو یہ تھا کہ قومی اسمبلی کے نتائج کے اعلان کے فوراً بعد جنرل یحییٰ قومی اسمبلی کا اجلاس بلاتا اور جلد از جلد اقتدار اکثریتی پارٹی یعنی عوامی لیگ کو سونپ دیتا مگر کیونکہ جنرل یحییٰ اور ملڑی کے اپنے عزائم تھے مزید انہوں نے مغربی پاکستان سے ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے ساتھ ملا لیا اور قومی اسمبلی کا اجلاں ملتوی کر دیا۔
ملڑی جُنٹا نے مشرقی پاکستان پر فوج کشی شروع کر دی۔ شیخ مجیب اور چند دوسرے عوامی لیگ کے لیڈروں کو گرفتار کر کے مغربی پاکستان لے آئے، بہت سارے عوامی لیگ کے رہنما اور کارکن بھاگ کر ہندوستان چلے گئے۔
اس طرح ملک میں خانہ جنگی شروع ہو گئی جو 16 دسمبر 1971 تک جاری رہی جب پاکستان کی فوجوں نے ہندوستانی فوجوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور بنگلہ دیش ایک آزاد ملک بن گیا۔
اب ہوتا یہ ہے کہ طاقت کے استعمال کے ساتھ مسئلے کا سیاسی حل بھی نکالا جاتا ہے۔ ہمارے تمام دوست ممالک حتیٰ کہ چین نے بھی عوامی لیگ سے بات چیت کے ذریعے مسئلے کے سیاسی حل کا مشورہ دیا۔ مگر اس وقت کے حکمران ٹولے نے ان کی ایک نہ سنی اور آخر کار پاکستان کو فوجی میدان میں شکست ہوئی۔ پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا۔
اس دوران جو قتل و غارت ہوا میں اس کی تفصیل میں نہیں جاتا۔
مغربی پاکستان یا جسے بھٹو نیا پاکستان کہتا تھا میں فوج کے ایک حصے نے جنرل یحییٰ کے خلاف بغاوت کر دی اور اسے اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کرنا پڑا۔
بدقسمتی سے نئے پاکستان میں وہ پارٹی بر سر اقتدار آ گئی جو مشرقی پاکستان پر فوج کشی کی حامی تھی۔ گو اس نے حقائق کو جاننے کے لئے چیف جسٹس آف پاکستان حمودالرحمان کی سربراہی میں کمیشن قائم کر دیا مگر اس کی رپورٹ آج تک منظر عام پر نہ آئی (فوج نے اپنے طور پر جنرل آفتاب کی نگرانی میں انکوائری کی)۔
زمینی حقیقت یہ ہے کہ نئے پاکستان میں دو دفعہ طویل مارشل لا لگا اور سویلین حکومتیں بھی اپنے اقتدار بچانے کے لئے اتنی ہمت نہیں رکھتی تھیں کہ وہ مشرقی پاکستان کے جمہوری حق غصب کرنے والوں کے خلاف کوئی اقدام اٹھاتیں یا اخلاقی طور پر ہی اپنے بنگالی بھائیوں سے معافی مانگتیں۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ غیر جمہوری طاقتوں یعنی فوج نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی لگایا بلکہ ہر سویلین حکومت کے سر پر غیر جمہوری قوتوں کی تلوار لٹکتی رہی۔ موجودہ پاکستان میں کسی بھی سیاسی حکومت کو کام کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔
اب صورت حال یہ ہے کہ مسلسل فوجی حکومتوں اور فوج کی کھلی اور درپردہ مداخلت کے نتیجے میں عوام میں جمہوریت کا جذبہ دن بدن کمزور ہوتا جا رہا ہے (جو بہت ہی تشویشناک بات ہے)۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ لوگ جو آج پارلیمان کی بالادستی کی بات کر رہے ہیں، وہ قابل تحسین ہیں۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ پاکستان میں آج اس بات کا فیصلہ ہونا باقی ہے کہ ہمارے پیارے ملک میں حکمرانی کا حق عوام کے منتخب نمائدوں کو ہے یا غیر جمہوری قوتوں کو۔ مقصد یہ ہے کہ ہمارے اکابرین اور صاحب بست و کشاد آج بھی مشرقی پاکستان پر فوج کشی کو جائز سمجھتے ہیں اور اپنی غلطیوں کی درستگی کی بجائے ہندوستان اور روس کو بنگلہ دیش بنانے کا الزام دیتے ہیں۔
18ویں ترمیم ختم کرانے کے لئے دباؤ بھی اسی عوام دشمن سوچ کے تسلسل کا اظہار ہے جس کے نتیجہ میں پاکستان ٹوٹا تھا۔