Get Alerts

وہ میچ جس نے انضمام کے کیریئر کو پھر سے زندہ کر دیا

وہ میچ جس نے انضمام کے کیریئر کو پھر سے زندہ کر دیا
یہ پاکستان کرکٹ کے لئے ایک مشکل ترین دور تھا۔ جون 2002 میں آسٹریلیا کو آسٹریلیا میں ون ڈے سیریز ہرا کر آنے والی ٹیم کے خلاف آسٹریلیا نے ٹیسٹ سیریز کے لئے دورہ کرنے سے معذرت کر لی۔ پاکستان کو سیریز سری لنکا اور شارجہ منتقل کرنا پڑی۔ 2003 کے ورلڈ کپ سے بھی قومی ٹیم پہلے راؤنڈ میں ہی باہر ہو گئی۔ اس کے بعد قومی ٹیم میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی گئیں۔ وسیم اکرم اور وقار یونس جیسے مایہ ناز باؤلر کرکٹ کو خیرباد کہہ گئے۔ ایسے میں راشد لطیف نے ایک نوجوان ٹیم کی قیادت سنبھالی۔ انضمام اس ٹیم میں ان چند تجربہ کار کھلاڑیوں میں سے ایک تھے جو اپنی جگہ واپس حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے ورنہ ورلڈ کپ کے بعد یہ بھی ٹیم سے باہر کر دیے گئے تھے۔ پہلے دو ٹیسٹ تو پاکستان نے بآسانی جیت لیے لیکن تیسرے ٹیسٹ میں مشکل پڑ گئی۔

بنگلہ دیش نے پہلی اننگز میں 281 رنز کیے تو پاکستانی ٹیم میں کوئی ایک بھی کھلاڑی جوابی اننگز میں جم کر نہ کھیل پایا۔ سب سے زیادہ رنز یاسر حمید نے بنائے جنہوں نے 39 رنز کی اننگز کھیلی۔ خود انضمام الحق 10 رنز کے انفرادی سکور پر آؤٹ ہوئے اور 175 پر پوری ٹیم ڈھیر ہوئی تو بنگلہ دیش 106 رنز کی برتری رکھتا تھا۔ دوسری اننگز میں بنگلہ دیش نے محض 154 رنز ہی بنائے لیکن رجن صالح کے 42 اور وکٹ کیپر خالد مسعود کے 28 رنز میچ کو پاکستان کے لئے چوتھی اننگز میں خاصا مشکل بنا گئے۔

جیت کے لئے پاکستان کو 261 رنز درکار تھے لیکن اس کے اوپر کے تمام کھلاڑی بنگلہ دیشی باؤلرز کے آگے ریت کی دیوار ثابت ہو رہے تھے۔ سب سے پہلے سلمان بٹ 35 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے اور اس کے کچھ ہی دیر بعد ان کے ساتھی اوپنر محمد حفیظ (18) نے بھی ہتھیار ڈال دیے۔ کریز پر اب انضمام الحق آئے جن کے ساتھ دوسرے اینڈ پر یاسر حمید موجود تھے۔ ملتان انضمام الحق کا آبائی شہر ہے اور یہاں وہ مقامی ہیرو تھے۔ 261 رنز کا ہدف حاصل کرنا ٹیسٹ میچ کی چوتھی اننگز میں کوئی آسان کام نہیں اور پھر یہ دباؤ کہ بڑی مشکل سے ٹیم میں جگہ بنائی ہے، پوری سیریز میں ایک بھی 50 نہیں اور دوسرے اینڈ پر ساتھی بلے بازوں نے بس آنیاں جانیاں لگا رکھی تھیں۔

یاسر حمید بھی 18 ہی رنز بنا کر آؤٹ ہوئے تو پاکستان اس وقت 78 رنز کے مجموعی سکور پر اپنے اوپری تین بلے باز کھو چکا تھا۔ اور پھر یونس خان بغیر کوئی گیند کھیلے صفر رنز پر رن آؤٹ ہوئے تو اب واقعتاً 261 رنز کا پہاڑ عبور ہوتا دکھائی نہیں دیتا تھا۔ نوجوان کھلاڑی فرحان عادل صرف 8 اور کپتان راشد لطیف 5 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے تو پاکستان 131 رنز پر 6 وکٹیں گنوانے کے بعد شدید مشکلات سے دوچار تھا اور پچھلے 51 رنز میں سے ان دونوں کھلاڑیوں نے مل کر صرف 13 رنز ہی سکور کیے تھے۔ انضمام اکیلے ہی باقی سارا بوجھ ڈھو رہے تھے۔

لیکن یہ انضمام کا دن تھا۔ کرکٹ کے چاہنے والے جانتے ہیں کہ جب انضمام الحق اپنی آئی پر آ جاتے تو انہیں دنیا کی بڑی سے بڑی باؤلنگ لائن کو بھی تہس نہس کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا تھا۔ انضمام الحق کو آگے چار سال اس قومی ٹیم کی کپتانی کرنا تھی۔ وہ یہ بات نہیں جانتے تھے۔ لیکن قسمت کو یہی منظور تھا۔ انضمام نے اپنے ہوم گراؤنڈ پر بنگلہ دیشی باؤلرز کی درگت بنانا شروع کی تو لگتا نہ تھا کہ محض ٹیل اینڈرز کے ساتھ کھیلتے ہوئے انضمام 129 رنز جو ابھی بھی پاکستان کو درکار تھے حاصل کر پائیں گے۔ دوسرے اینڈ پر ان کے ساتھ پاکستان کے لیجنڈری باؤلر ثقلین مشتاق کھڑے تھے۔ انضمام کو ان سے زیادہ مدد کی ضرورت نہیں تھی۔ انضمام ٹیل اینڈرز کے ساتھ بیٹنگ کرنے کے ماہر بیٹسمین تھے۔ وہ ایک اینڈ سنبھالے رکھتے۔ ہر اوور میں ایک چوکا اور ایک سنگل لینا ان کے لئے کوئی مشکل کام نہ تھا۔ ثقلین مشتاق یوں تو ایک عدد سینچری بھی سکور کر چکے تھے لیکن یہ ایک مشکل وکٹ تھی جس پر ایک لیجنڈ کو بیٹنگ کرنا تھی اور دنیا کو انضمام کے ہنر کو اس کے پورے جوبن پر دیکھنا تھا، سو اس نے دیکھا۔
انضمام بنگلہ دیشی سپنرز کو شاندار مہارت سے قدموں کا استعمال کرتے گراؤنڈ کے چاروں طرف باؤنڈری کا نظارہ کرواتے رہے۔ پچ کے دوسرے سرے پر کھڑے ثقلین مشتاق نے انضمام کو بالآخر ہاف سینچری سکور کرنے پر مبارکباد دی تو پاکستان کو اب بھی میچ جیتنے کے لئے 116 رنز درکار تھے۔ اسی اثنا میں کھیل کے چوتھے دن کا اختتام ہوا تو یہ دونوں کھلاڑی کریز پر جمے ہوئے تھے۔ اگلے دن صبح آ کر ثقلین مشتاق نے ایک چوکا ہی لگایا تھا کہ محض تین رنز بعد انہوں نے وکٹوں کے عقب میں کھڑے خالد مشود کو کپتان خالد محمود کی گیند پر کیچ پکڑایا تو پاکستان کو 97 رنز درکار تھے اور اس کے سات کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے۔

انضمام نے شبیر احمد کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھا جنہوں نے 25 گیندوں پر دو چوکوں کی مدد سے 13 رنز بنائے لیکن اس دوران انضمام رنز سمیٹتے رہے اور اس 39 رنز کی پارٹنرشپ کے بعد بھی جب شبیر احمد آؤٹ ہوئے تو پاکستان کو ابھی 56 مزید رنز درکار تھے۔

یہ وہ موقع تھا جب عمر گل کریز پر آئے۔ یہ عمر گل کی کرکٹ کا آغاز تھا۔ بعد ازاں انہوں نے کئی مواقع پر پاکستان کو اپنی بیٹنگ سے بھی فتح سے ہمکنار کروانے میں مدد دی لیکن یہاں ان کو محض ایک اینڈ پر وکٹ سنبھالے رکھنا تھی۔ دوسرے اینڈ پر ایک مہان کلاکار اپنی پرتبھا دکھانے میں مگن تھے۔ انضمام نے اسی دوران اپنی سنچری بھی مکمل کی۔ اس کے فوراً بعد انضمام کو ایک نئی زندگی اس وقت ملی جب انہوں نے محمد رفیق کو آگے بڑھ کر چھکا لگانے کی کوشش کی اور گیند بلے کا اندرونی کنارہ لیتی ہوئی پیچھے کی باؤنڈری پار کر گئی۔ یہ باؤلر کی انتہائی بدنصیبی تھی۔ رفیق نے اس گیند سے قبل مڈ آف اور مڈ آن کو دائرے کے اندر بلا کر انضمام کو یہ جارحانہ سٹروک کھیلنے کی دعوت دی جسے انضمام قبول کرنے گئے تو جال میں تو آ گئے لیکن اس روز قسمت کی دیوی بھی ان پر مہربان تھی۔ پاکستان کو اب محض 29 رنز درکار تھے۔ انضمام ہر اوور میں ایک آدھ چوکا لگا لیتے اور ساتھ ایک سنگل بھی لے لیتے۔ دوسری جانب عمر گل بھی باؤلرز کو کوئی موقع نہیں دے رہے تھے۔ انضمام دھڑا دھڑ رنز سمیٹ رہے تھے۔ بنگلہ دیشی باؤلرز کے حوصلے پست ہو رہے تھے۔

لیکن پھر بنگلہ دیش کو ایک امید کی کرن اس وقت نظر آئی جب پاکستان کو محض پانچ رنز درکار تھے۔ انضمام نے تھرڈ مین کی طرف گیند کو کھیل کر دو رنز لینے کی کوشش کی۔ عمر گل کو دوسرے اینڈ پر پہنچنا مشکل لگ رہا تھا لیکن انضمام نے ان کو دوڑنے کے لئے کہا۔ وہ نکلے لیکن اسی وقت انضمام کو اندازہ ہو گیا کہ یہ رن ناممکن ہے۔ انہوں نے عمر گل کو روک دیا۔ وہ واپس کریز میں پہنچنے کے لئے مڑے لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ اس سے بھی زیادہ پریشانی کی بات یہ تھی کہ یہ اوور کی پہلی گیند تھی۔

بنگلہ دیش نے چار برس قبل 1999 کے ورلڈ کپ میں پاکستان کو پہلی بار شکست دی تھی جس نے اس کے ٹیسٹ سٹیٹس کے حصول میں مدد کی تھی۔ اور اب پاکستان بنگلہ دیش کی ٹیسٹ کرکٹ میں پہلی فتح کا شکار بھی بننے والا تھا۔ انضمام باؤلنگ اینڈ پر محصور تھے۔

اب نوجوان کھلاڑی یاسر علی جو اپنا پہلا اور آخری ٹیسٹ کھیل رہے تھے انہیں خالد محمود کا سامنا تھا جو بہت ہی شاندار گیند بازی کر رہے تھے۔ انہیں یا تو رن لے کر انضمام کو کھلانا تھا یا پھر پانچ گیندیں کھیلنا تھیں۔ تین گیندیں ان کے بلے کے باہری کنارے کے پاس سے گزریں لیکن بالآخر اوور کی پانچویں گیند پر یہ رن لینے میں کامیاب ہو گئے۔ پاکستان کو جیت کے لئے تین رنز درکار تھے۔ انضمام جانتے تھے کہ انہیں اسی گیند پر میچ ختم کرنا ہوگا۔
مزید ایک رن لینا مشکل تھا۔ دباؤ بہت تھا اور باؤلر ایک رن روکنے کے لئے پوری فیلڈنگ اوپر لے چکا تھا۔

لیکن یہی چیز انضمام نے بھانپ رکھی تھی۔ باؤنڈری خالی تھی۔ خالد محمود نے انضمام کی ٹانگ پر گیند کی اور انضمام نے سکوئر لیگ پر اڑتا ہوا سٹروک لگایا تو اس تاریخی چوکے پر ڈریسنگ روم کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔ انضمام نے فضا میں مکا لہرا کر فتح کا جشن منایا تو پویلین کی طرف لوٹتے ہوئے ان پر گل پاشی کی جانے لگی۔ 139 ناٹ آؤٹ کی یہ اننگز اتہاس کے پنوں میں رقم ہو گئی۔ اسی میچ کی پہلی اننگز میں راشد لطیف نے زمین پر گری ہوئی گیند اٹھا کر الوک کپالی کے کیچ کا دعویٰ کیا تھا۔ انہیں وکٹ تو مل گئی لیکن بدلے میں پانچ ون ڈے میچوں کی سزا بھی ہوئی۔ انضمام کی اس اننگز کے صلے میں انہیں ون ڈے انٹرنیشنل ٹیم کا کپتان بنا دیا گیا۔ راشد لطیف دوبارہ کبھی ٹیسٹ میچ نہیں کھیلے۔ اگلے ہی ماہ جنوبی افریقہ کے خلاف انہوں نے انضمام ہی کی کپتانی میں اپنا آخری ون ڈے کھیلا اور یہ داغ لے کر کرکٹ کی دنیا سے رخصت ہوئے۔