رواں برس جولائی میں نجی ٹی وی چینل پر نعمان اعجاز کے ٹاک شو 'جی سرکار' میں سابق کرکٹر عبدالرزاق کا ایک ویڈیو کلپ وائرل ہوا تھا جس میں وہ ندا ڈار سے متعلق تبصرہ کررہے تھے۔
5 جون کو نشر ہونے والے اس ویڈیو کلپ نے جولائی میں وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر نئی بحث چھیڑ دی تھی جس پر عبدالرزاق کو تنقید کا سامنا بھی ہوا تھا۔
Razzaq is making fun of Nida Dar for looking manly ? pic.twitter.com/ECPBgGdBsp
— Ghumman (@emclub77) July 14, 2021
ٹینس کے معروف کھلاڑی اعصام الحق نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری آرڈیننس 2002 کے سیکشن 26 کے تحت بیرسٹر خدیجہ صدیقی کے ذریعے ندا ڈار سے متعلق نامناسب تبصرے نشر کرنے پر نیو ٹی وی کے خلاف شکایت درج کرائی تھی۔ شکایت میں شو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ خاتون کرکٹر ندا ڈار سے متعلق انتہائی ہتک آمیز، توہین آمیز اور نامناسب تبصرے کیے تھے۔
یہ معاملہ کونسل آف کمپلینز کے 109ویں اجلاس میں پیش کیا گیا تھا جس کی صدارت بیرسٹر محمد احمد پنسوٹا نے کی تھی جبکہ اجلاس میں سحر زرین بندیال، ڈاکٹر شمیم محمود زیدی، سارہ احمد اور توگسر ناصر بھی شامل تھے۔
اعصام الحق کی جانب سے بیرسٹر خدیجہ صدیقی اور مراد خان مروت کونسل کے سامنے پیش ہوئے تھے۔
بیرسٹر خدیجہ صدیقی نے کہا تھا کہ شو میں کیے گئے تبصرے آئینِ پاکستان کے آرٹیکل نمبر 19،14،9،4 اور 25 ، ہتک عزت آرڈیننس ، 2002، الیکٹرانک میڈیا کوڈ آف کنڈکٹ کی شق 4(7) سی، 23،20 اور 24 اور خواتین کے خلاف کسی بھی قسم کے امتیاز کے خاتمے سے متعلق کنونشن کی شق نمبر 5 کی خلاف ورزی ہیں۔
شو کے دوران میزبان وفا بٹ نے ندا ڈار کی بات میں مداخلت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اور جب شادی ہوتی ہے تو چھوڑ جاتی ہیں’، جس پر ندا ڈار نے کہا کہ ’ان کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ جتنا کرکٹ کھیل سکتی ہیں کھیل لیں شادی کے بعد کچھ پتا نہیں ہوتا’۔
شکایتی کونسل نے مذکورہ سوال سے متعلق کہا ہے کہ ایسی باتیں خواتین کے خلاف واضح امتیاز کا باعث بنتی ہیں، اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ خواتین صرف اس وقت تک کام کرتی ہیں جب تک وہ شادی نہیں کر لیتیں، وہ شادی کے بعد اپنا پیشہ چھوڑ دیتی ہیں۔
اسی شو کے دوران ندا ڈار کی بات پر تبصرہ کرتے ہوئے عبدالرزاق نے کہا تھا کہ ‘ان کی فیلڈ ایسی ہے، جب یہ کرکٹرز بن جاتی ہیں تو وہ پھر چاہتی ہیں کہ مردوں کی ٹیم کے لیول تک آجائیں، وہ ثابت کرنا چاہتی ہیں کہ صرف مرد نہیں وہ بھی یہ سب کچھ کرسکتی ہیں، اس لیے وہ احساسات (شادی کرنے کے ) ختم ہوجاتے ہیں‘۔ عبدالرزاق نے مزید کہا تھا کہ آپ ان سے ( ندا ڈار) ہاتھ ملا کر دیکھ لیں، یہ لڑکی تو نہیں لگتیں‘۔
کونسل کی جانب سے مذکورہ بیان سے متعلق کہا گیا ہے کہ ' عبدالرزاق اس بات پر زور دے رہیں ہیں کہ وہ خواتین جو کرکٹ کو بطور پیشہ اختیار کرتی ہیں، ان میں خواتین کی خصوصیات نہیں رہتیں، وہ اس تصور کو پیش کر رہے ہیں کہ کرکٹ ایک کھیل ہے جو صرف لڑکوں کے لیے ہے اور کھیل کی مردانہ نوعیت کی وضاحت کررہے ہیں'۔
شکایتی کونسل کے مطابق ندا ڈار کے چھوٹے بالوں پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کی صنف اور پوزیشن کی وجہ سےان کا مذاق اڑایا گیا، اس طرح کے بیان گھناؤنے ، جنس پرست، مذاق اڑانے والے ، اور خواتین سے متعلق معاشرتی تعلقات اور دقیانوسی تصورات کی وجہ سے سراسر توہین آمیز ہیں۔ مزید کہا گیا کہ وہ ان خواتین کی توہین کر رہے ہیں جن کا ہیئراسٹائل باب کٹ ہے، ان کا بنا توہین آمیز اور آئین کے خلاف ہے۔
شکایتی کونسل کی جانب سے شو کے دوران خاتون میزبان کی جانب سے لمبے بالوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنے سے متعلق سوال کو بھی بے عزتی قرار دیا کہ ان کے مطابق چھوٹے بال بہت زیادہ مردانہ قسم ہیں اور یہ کہ خواتین کرکٹرز کسی حد تک ایسا کرتی ہیں۔ پیمرا کی شکایتی کونسل کی جانب سے مذکورہ شکایت پر دیے گئے فیصلے میں کہا گیا کہ شو میں موجود میزبانوں اور مہمانوں نے مل کر کرکٹر ندا ڈار کا مذاق اڑایا جو کہ ان کے مسلسل بدتمیزی اور نفرت انگیز تبصروں سے ظاہر ہوتا ہے۔
شکایتی کونسل کے چیئرمین کے مطابق یہ فیصلہ ایک واضح پیغام دیتا ہے کہ جنس پرستی اور خواتین سے نفرت پر مبنی بیان قابل قبول نہیں، یہ امتیازی سلوک کے مترادف ہیں اور اس طرح ضابطہ اخلاق اور آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے۔ خواتین عزت کی حق دار ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ چینل نے ضابطہ اخلا ق کی شق نمبر 3 (ڈی)، 4(7) (سی)، 20،16 اور 23 کی خلاف ورزی کی۔
کونسل کی جانب سے فیصلہ جاری کرتے ہوئے چینل پر 5 لاکھ روپے جرمانہ عائد کرنے اور شکایت کنندہ اور ندار ڈار سے غیر مشروط معافی مانگنے اور نشر کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔
بعدازاں پیمرا کی جانب سے ندا ڈار کے خلاف نامناسب و توہین آمیز تبصرے کرنے پر نجی چینل نیو ٹی وی پر 2 لاکھ روپے جرمانہ عائد کردیا گیا۔
خیال رہے کہ اس سے قبل رواں برس 17 مئی 2021 کو نشر کیے گئے مارننگ شو میں غیراخلاقی اور نامناسب الفاظ نشر کرنے پر پیمرا نے نجی نیوز چینل نیو ٹی وی کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کیا تھا۔