Get Alerts

اسٹیبلشمنٹ عمران خان فیکٹر کو مکمل طور پر نظر انداز نہیں کر سکتی: عامر ضیاء

اسٹیبلشمنٹ عمران خان فیکٹر کو مکمل طور پر نظر انداز نہیں کر سکتی: عامر ضیاء
معروف صحافی اور بول میڈیا گروپ کے پریذیڈنٹ عامر ضیاء کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار رسک لے کر واپس پاکستان آ رہے ہیں۔ شاید انہیں کوئی اشارہ ملا ہے یا امید ہے کہ اب یہ حکومت اور آگے چلے گی اس لئے وہ آ کر وزیر خزانہ بننے جا رہے ہیں۔ اس سے پہلے پانچ ماہ تک وہ بے یقینی کا شکار رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب (ن) لیگ کو تھوڑا سا فائدہ ملتا نظر آ رہا ہے۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں اظہار خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہر کوئی تسلیم کرتا ہے کہ اس وقت ملک میں سیاسی بحران بھی ہے اور معاشی بھی اور یہ اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتے جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آ جاتا۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ اس وقت سیاسی اسٹیبلشمنٹ، میڈیا اسٹیبلشمنٹ اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے خلاف ہیں مگر وہ پھر بھی کھڑے ہیں اور عوام کی حمایت سے کھڑے ہیں۔ فوج بھی عمران خان فیکٹر کو مکمل طور پر ایک طرف نہیں رکھ سکتی، انہیں عمران خان سے بات کرنی پڑے گی۔ فوج عمران خان کو انگیج کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہو سکتا ہے فوج عمران خان کو اگلے سال اگست سے پہلے الیکشن کی کوئی تاریخ دے بھی دے۔

پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے معروف کالم نگار مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ اسحاق ڈار کو پچھلے چار سال سے جو ریلیف نہیں مل رہا تھا وہ اب اتنی آسانی سے مل گیا ہے۔ وہ عدالت تک آنے کا راستہ مانگ رہے تھے مگر انہیں یہ راستہ نہیں دیا جا رہا تھا۔ اسحق ڈار کی واپسی عمران خان کے لئے بہت بڑا سگنل ہے۔ عمران خان کی حکمت عملی ناکام ہو گئی ہے۔ ان کی قبل از انتخابات والی بات ختم ہو گئی ہے۔ عمران خان کی پارٹی کی طرف سے ان پر پارلیمنٹ میں واپس جانے پر سخت دباؤ ہے، کوئی استعفیٰ نہیں دینا چاہتا۔ عمران خان کو اندازہ ہے کہ ان کی مقبولیت کا بلبلہ کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کا ٹارگٹ دس بیس ہزار لوگ اکٹھے کرنے سے نہیں حاصل ہوگا بلکہ لاکھوں میں لوگ چاہئیں جو خان کو احساس ہوا ہے کہ اس وقت میں کال دیتا ہوں تو اتنے لوگ نہیں آئیں گے اس لئے ان کی لانگ مارچ کی کال کہیں گم ہو گئی ہے۔ جس طرح خمینی کے لئے لوگ خود بخود جمع ہو گئے تھے، طیب اردگان کے لئے لوگ اکٹھے ہو گئے اسی طرح خود سے لوگ اسلام آباد اکٹھے ہو جائیں تو الگ بات ہے ورنہ عمران خان سے اب اسلام آباد میں لوگ اکٹھے نہیں ہونے۔ عمران خان کو اب اسٹیبلشمنٹ کی انگلی میسر نہیں ہے اس لئے ان سے غلط فیصلوں کی توقع کی جا سکتی ہے اور وہ غلط فیصلے کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان ایسا لاڈلہ ہے یہ جس کی گود میں بیٹھتا ہے اس کی ڈاڑھی نوچنے لگ جاتا ہے۔ عدلیہ نے عمران خان کی بہت حمایت کی مگر فواد چودھری اور پوری پی ٹی آئی سے اسے پھر بھی گالیاں کھانی پڑ رہی ہیں۔ عمران خان صاحب پاکستان کی سیاست کی گمراہ گلیوں میں کہیں گم گئے ہیں جہاں سے اب انہیں نکلنے کا راستہ نہیں مل رہا۔ پہلے بھی ان کو راستہ معلوم نہیں تھا وہ اسٹیبلشمنٹ کی انگلی پکڑ کر یہاں پہنچے تھے۔

پروگرام کے میزبان مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ ایک دفعہ پھر عمران خان کی سیاسی ناپختگی ظاہر ہوئی ہے۔ 2014 میں انہوں نے ایک جوا کھیلا تھا کہ ایمپائر کی انگلی اٹھے گی مگر 126 دن کے بعد انہیں واپس آنا پڑا تھا اور سامنے خواجہ آصف کھڑے تھے اسمبلی میں۔ ایک مرتبہ پھر خان صاحب نے اقتدار سے نکلنے کے بعد خود کو بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے کہ انقلاب آئے گا، امپورٹڈ حکومت جائے گی۔ ان کو عدم اعتماد کے فورا بعد ہی اپوزیشن میں بیٹھ جانا چاہئیے تھا۔ جلسوں میں وہ گلا پکڑتے ہیں اور پس پردہ جا کے پاؤں پکڑ لیتے ہیں۔

'خبر سے آگے' کے دوسرے میزبان اور نیا دور کے ایڈیٹر انچیف رضا رومی کا کہنا تھا کہ نکالے جانے کے بعد سے اب تک عمران خان 52 جلسے کر چکے ہیں اور ہر جلسے میں بڑی تعداد میں لوگ موجود ہوتے ہیں۔ عمران خان کی مقبولیت کے غبارے میں ابھی تک ہوا موجود ہے۔