وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی خاتون کم لباس میں مرد کے سامنے آئے گی تو کامن سنس کا تقاضہ یہی ہے کہ مرد اس کی طرف راغب ہوگا ماسوائے اس کے کہ مرد کوئی روبوٹ ہو۔ ان سے سوال ہوا کہ کیا اس سے جنسی تشدد کے واقعات جنم لینے چاہئیں؟ عمران خان کا جواب تھا کہ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ رہ کس معاشرے میں رہے ہیں۔ اگر آپ ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں لوگوں نے کبھی پہلے (عورتوں کو) ایسا نہیں دیکھا تو اس کا یقیناً اثر ہوگا۔
سوال یہاں پیدا ہوتا ہے کہ اس ملک میں روزانہ کی بنیاد پر درجن بھر بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات پیش آتے ہیں۔ ان میں بہت سے دس سال سے بھی کم عمر ہوتے ہیں۔ پانچ سال کی بچی، دو سال کا بچہ جب اس خوفناک فعل کا نشانہ بنتے ہیں تو کیا یہ ان کے لباس کا اثر ہوتا ہے؟ عمران خان صاحب اور ان کے جیسی سوچ رکھنے والے افراد آپ کو بتائیں گے کہ نہیں۔ دراصل لوگ خواتین کو اس حالت میں دیکھتے کہیں اور ہیں، نشانہ کسی اور کو بنا دیتے ہیں۔ وجہ اس کی وہ ہیجان ہوتا ہے جو خواتین کو کم کپڑوں میں دیکھ کر روبوٹ سے مختلف قسم کے مردوں میں پیدا ہوتا ہے۔ اکثر آن لائن یا ٹی وی پر وہ ایسا مواد دیکھ کر مشتعل ہوتے ہیں۔
یہ بات انہوں نے ایک ایسے موقع پر کی ہے جب ان کے بیان سے پہلے تک ملک کا سب سے زیادہ زیرِ بحث آنے والا مسئلہ لاہور کے ایک مدرسے میں ایک مولانا صاحب کا ایک طالبِ علم کے ساتھ جنسی زیادتی کا کیس تھا۔ اس واقعے کی ایف آئی آر کے مطابق مولانا صاحب نے طالبِ علم کو امتحان میں فائدہ دینے کا لالچ دیا اور جب وہ لالچ میں نہ آیا تو اپنی اتھارٹی کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اسے بلیک میل کیا۔ اس شخص کے پاس ایک ایسی طاقت تھی کہ وہ بچے کو بلیک میل کر سکتا تھا اور اس نے اپنی جنسی تسکین کے لئے اس طاقت کا استعمال کیا۔
کیا وجہ ہے کہ عموماً ریپ کے واقعات میں نشانہ چھوٹے بچوں کو بنایا جاتا ہے؟ اعداد و شمار کے مطابق خاندان ہی کے لوگ کیوں اکثر ایسے معاملات میں ملوث پائے جاتے ہیں؟ گھروں میں کام کرنے والی خواتین اس کا شکار کیوں اتنی بڑی تعداد میں بنتی ہیں؟ مدرسوں میں اساتذہ اس فعل میں اکثر کیوں ملوث پائے جاتے ہیں؟ سکولوں اور یونیورسٹیوں میں بھی اساتذہ ایسی سرگرمیوں میں ماضی میں پکڑے بھی جاتے رہے ہیں۔ ابھی چند ہی ماہ پہلے لاہور کے ایک مشہور سکول اور پھر پاکستان کے سب سے نامی گرامی کالج یعنی لاہور کے گورنمنٹ کالج سے اساتذہ کے نام کیوں سامنے آئے؟ یاد رہے کہ گورنمنٹ کالج نے تو استاد کے خلاف بھرپور ایکشن لے کر اس کو برطرف بھی کیا۔
ان تمام کیسز میں نوجوان بھی نشانہ بنے ہیں، بچے بھی۔ مرد بھی اور خواتین بھی۔ اور ابھی یہاں خواجہ سراؤں کے تو اعداد و شمار بھی شامل نہیں ہیں۔
ایک چیز جو ان میں تقریباً تمام معاملات میں مشترک ہے، وہ ہے مجرم کا مظلوم کے ساتھ تعلق۔ ہر واقعے میں طاقت، یعنی power کا کردار مشترک ہے۔ مدرسے کے استاد کو شاگرد پر ایک طاقت حاصل ہے۔ سکولوں، کالجوں میں یہی طاقت اساتذہ کو حاصل ہے۔ بچوں کی بات کا اعتبار نہیں کیا جاتا، ان کو ڈرا دھمکا کر چپ کروایا جا سکتا ہے۔ گھروں میں کام کرنے والی خواتین کی مالی مجبوریوں کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ یہ پاور کا اصول شادی کے بعد کے ریپ میں بھی کارفرما ہوتا ہے۔
عمران خان جیسے طاقتور لوگ جو اس چین میں ٹاپ پر بیٹھے ہیں، وہ مظلوم کو قصوروار ٹھہرانا آسان سمجھتے ہیں کیونکہ ان کو اپنی طاقت کا علم ہے، لیکن اس فعل کا شکار بننے والوں کی powerlessness یا کمزوری کا ادراک نہیں ہے۔ اور زیادہ سیکھنے اور سمجھنے کی کبھی ضرورت اس لئے بھی محسوس نہیں کرتے کہ سیکھے سکھائے تو اپنے تئیں وہ پہلے ہی سب کچھ ہیں۔ بقول ان کے، اللہ انہیں سب دے بیٹھا ہے۔
لیکن بطور وزیر اعظم پاکستان، وہ پورے ملک کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں، خصوصاً جب وہ غیر ملکی میڈیا کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کی ٹیم کو انہیں بٹھا کر یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ پوری دنیا کے سامنے پاکستان کے وزیر اعظم کو rape apologist یا ریپسٹ کے حق میں بہانے بازیاں کرنے والے شخص کے طور پر نہیں، اس کے شکار افراد کا نمائندہ اور ان کا وکیل بن کر سامنے آنا چاہیے۔ پہلے ہی اس معاشرے میں مظلوم کی آواز دبانے کا کلچر عام ہے۔ ہمارا وزیر اعظم بھی یہی باتیں کرے گا تو پھر تندور کے باہر بنچ پر بیٹھے بابوں کو کون سمجھائے کہ بدنامی جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے کی نہیں ہوتی، اس کا حقدار جنسی زیادتی کرنے والا ہوتا ہے۔