واشنگٹن: امریکی فوج میں خواتین اہلکاروں پر جنسی حملوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے جبکہ ان وحشیانہ حملوں کا زیادہ تر شکار سترہ سے چوبیس سال کی نئی بھرتی ہونے والی خواتین اہلکار ہیں۔
یاد رہے کہ انتظامیہ کی جانب سے برسوں سے اس مسئلے کے حل کے لیے کوششیں جاری ہیں۔اعدادو شمار کے مطابق 2018 کے دوران خواتین اہلکاروں کے خلاف جنسی ہراسانی کے بیس ہزار پانچ سو واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ دوہزار سولہ میں ایسے جنسی حملوں کی تعداد 14 ہزار نو سو تھی۔
سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق ان واقعات میں دست درازی سے لے کر عصمت دری تک کے واقعات شامل ہیں اور یہ2016 کے مقابلے میں 38 فیصد بڑھے ہیں۔ ان معاملات میں سے ہر تین میں سے صرف ایک کیس اعلی حکام تک پہنچایا گیا۔
رپورٹ کے مطابق جنسی ہراسانی کے لئے زیادہ تر الکوحل کا استعمال کیا گیا۔ جنسی ہراسانی کے شکار خواتین میں زیادہ تر ایسی ہیں جن کی نئی تقرریاں ہوئی ہیں اور جنکی عمر سترہ سال سے چوبیس سال کے درمیان ہے۔یہ تعداد رپورٹ کیے گئے حملوں اور ایک لاکھ اہلکاروں کے سروے سے اخذ کی گئی ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ یہ سروے 95 فیصد تک قابلِ بھروسہ ہے۔
حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے امریکی وزیر دفاع پیٹرل شینا ہن نے فوج کو ہدایات دی ہے کہ جنسی ہراسانی کوجرائم میں شامل کیا جائے۔ جنسی ہراسانی فی الحال دیگرفوجی قوانین کی خلاف ورزیوں میں شامل ہے تاہم اسے ایک مجرمانہ فعل قرار نہیں دیا گیا ہے۔
وزیردفاع کی جانب سے جاری کی گئی ہدایات میں اس حوالے سے کئی تجاویز بھی شامل ہیں۔انہوں نے فوج کو لکھا کہ جنسی حملہ غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہے اور یہ فوج کے اصولوں کے بھی خلاف ہے اور اسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ امریکہ میں شہری قوانین کے تحت جنسی ہراسانی غیر قانونی ہے اور رنگ و نسل، مذہب یا قومیت کی بنیاد پر تفریق بھی اسی قانون کے تحت آتی ہے۔