الیکشن سے متعلق مقدمے کا فیصلہ اگلے دو تین دن میں آ جائے گا۔ جب تک جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلے پر بات نہیں ہو گی تب تک الیکشن سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری نہیں کیا جا سکے گا۔ ایک مہینے کے اندر جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کے اختیارات پر سوال اٹھائے ہیں، انہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ عدلیہ کے حوالے سے جب تک رولز نہیں بنائیں گے تو ایک سیاسی پارٹی تب تک چیف جسٹس کو سپورٹ کرتی رہے گی جب تک ان کے حق میں فیصلے آئیں گے اور جب کوئی فیصلہ ان کے خلاف آئے گا تو وہ مخالفت شروع کر دیں گے۔ یہ کہنا ہے قانون دان وقاص میر کا۔
نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں انسانی حقوق کی سینیئر وکیل حنا جیلانی نے کہا کہ اس طرح کے معاملات کے لئے ایک آئینی عدالت قائم ہونی چاہئیے۔ فل بنچ بنانے کے مطالبے کے سامنے مزاحمت دکھانا بذات خود شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے۔ آئینی معاملات سلجھانے کے لئے فل بنچ کی صورت میں سپریم کورٹ کی مجموعی دانش کو فیصلہ کرنا چاہئیے۔ پاکستان پی ٹی آئی کی غلط پالیسیوں کو نافذ کرنے کے لئے نہیں بنا تھا۔ دو صوبوں کی اسمبلیاں محض اپنے سیاسی فائدے کے لئے تحلیل کی گئیں۔ ان کے سیاسی فیصلوں کا اتنا نقصان ہم عوام کو پہنچے گا تو ہمیں اس کے خلاف بولنا چاہئیے۔ اداروں کو ایکشن لینا چاہئیے۔
فوزیہ یزدانی نے کہا کہ ہمیں آئینی عدالت کی ضرورت پر زور دینا چاہئیے۔ دو صوبوں میں کوئی سیاسی بحران نہیں تھا، یہ بحران پیدا کیا گیا تاکہ مرکزی حکومت کو مستعفی ہونے پہ مجبور کیا جا سکے۔ سپریم کورٹ کو کہنا چاہئیے تھا کہ الیکشن سے متعلق معاملات کے لئے سیاسی جماعتیں آپس میں بیٹھیں اور تین دن میں فیصلہ کریں۔ مگر انہوں نے ایسا نہیں کہا کیونکہ انہیں بھی یہ سب اچھا لگ رہا ہے اور نیوٹرلز بھی بہت زیادہ نیوٹرلز نہیں ہیں۔
مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ فی الحال حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت حاصل نہیں جس کی وجہ سے عدلیہ کے حوالے سے وہ کوئی آئینی ترمیم نہیں کر سکتی۔ اس لیے انہیں کوئی آرڈی ننس ہی لانا پڑے گا اور اس آرڈی ننس کی حیثیت پر بھی سوال اٹھیں گے۔
پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ 'خبر سے آگے' ہر پیر سے ہفتے کی شب 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے پیش کیا جاتا ہے۔