Get Alerts

سوڈان میں جاری اقتدار کی پُرتشدد جنگ اور مسلم ریاستیں

سوڈان میں جاری اقتدار کی پُرتشدد جنگ اور مسلم ریاستیں
یہ خیال کرنا ہمارے لیے مشکل نہیں کہ دنیا کی بڑی طاقتوں کے مابین سیاسی و دفاعی اختلافات کے باوجود تجارت ہو رہی ہے۔ چاہے چین اور امریکہ کو دیکھ لیں یا چین اور یورپ کو۔ یہ سب اقتصادیات ہے۔ دنیا میں طاقت اب معیشت پر انحصار کرتی ہے، ایٹم بم پر نہیں۔ دنیا میں معاشی طور پر مضبوط ممالک کے مابین اقتصادی سمجھوتے کیے جاتے ہیں، عالمی کانفرنسیں ہوتی ہیں اور ان کانفرنسز میں وہی ممالک شرکت کرتے ہیں جو دنیا میں معاشی اعتبار سے مضبوط ہیں اور پائیدار سلطنتوں کے حاکم ہیں۔ مجھے آج تک یہ نہیں نظر آیا کہ دنیا میں ایٹمی ممالک کے مابین ماہانہ یا سالانہ عالمی کانفرنس ہوئی ہو۔ یقین مانیے اب معیشت ہی ایٹم بم ہے۔

یورپی یونین میں سارے ممالک ایک دوسرے کے ساتھ بارڈر ٹریڈ شیئر کرتے ہیں۔ ان میں سے ڈیوٹی کسٹم ٹیکس کا استثنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ و مغرب کے معاشی غلبے سے ان کی تہذیب دنیا پر حاوی ہے۔ دنیا وہی مصنوعات استعمال کرتی ہے جو یورپ اور امریکہ کی پیداوار ہوں۔ یہ سب کچھ سرمایہ دارانہ نظام کا مرہونِ منّت ہے۔

مسلم دنیا میں صرف خلیجی ریاستیں ایک دوسرے کے ساتھ کچھ حد تک معاشی نرم گوشہ رکھتی ہیں لیکن مشرق وسطیٰ میں شامل ایران کو کوئی نہیں پوچھتا۔ مسلم دنیا میں او آئی سی ہے جس کی ابتدا و آخر مذہب ہے۔ معاشی حوالے سے او آئی سی کا کوئی کردار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم دنیا میں اقتدار اور بھوک کی جنگ چھڑتی رہتی ہے۔ مسلم ممالک کے بیش تر ملک پندرہویں صدی سے نکل نہیں پا رہے۔ اس کی تازہ مثال سوڈان ہے۔

سوڈان میں دو جرنیل اقتدار کے نشے میں مست ہیں۔ جنگ سوڈانی فوج کر رہی ہے اور مر سوڈانی عوام رہے ہیں۔ اقتدار کی جنگ میں نسل کشی عروج پر ہے۔

2019 میں تین دہائیوں تک حکمرانی کرنے والے عمر البشیر کا تختہ الٹ دیا گیا تھا اور اعلانیہ مارشل لاء نافذ کر دیا گیا تھا جو اس سے پہلے غیر اعلانیہ تھا۔ 30 سال تک عمر البشیر سوڈان میں آمر رہے، اب عبدالفاتح برہان اور محمد حمدان آمر ہیں۔

اس سارے کھیل میں مسلم اُمّہ کے کسی بھی ممالک نے ایک بیان کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا۔ سوڈانی پہلے جمہوریت کے لیے مر رہے تھے، اب آمریت کے لیے۔ اور اب ایک ہفتے سے بھوک، پیاس اور بارود سے مر رہے ہیں۔ مرنے والوں کی تعداد اب تک 300 سے زائد ہے۔

محمد حمدان آر ایس ایف کے سربراہ ہیں جو نیم فوجی دستہ ہے۔ یہ دستہ 2013 میں عمر البشیر نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بنایا تھا۔ اس کا کام جمہوریت اور ان کی حکومت کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانا تھا اور اختلاف کرنے والوں کو قتل کرنا تھا۔ آج بھی یہ نیم فوجی دستہ اپنے وہی فرائض انجام دینے میں مصروف ہے۔

سوڈان کا شمار قدرتی معدنیات رکھنے والے ممالک میں ہوتا ہے۔ یہاں سونا بھی ہوتا ہے، چاندی اور تانبا بھی۔ محض کمی انہیں عوامی مفاد میں لانے والوں کی ہے جنہیں یہی فوجی آمر قتل کرکے اپنے رینک بڑھاتے اور مضبوط کرتے رہے ہیں۔

سوڈان ایک جنگی میدان ہے جہاں ہر کوئی اپنا صندوق بھرنا چاہتا ہے۔ سوڈانی عربی بولتے ہیں لیکن پھر بھی ان کے ہم زبان و مذہب صرف تماشائی ہیں۔ امیر عربی شہزادے نہ جنگ بندی کرا سکتے ہیں اور نہ ہی جنگ زدہ سوڈانیوں کی مالی امداد کرنے کو تیار ہیں۔

جب بھی سوچیں جہاں بھی سوچیں مسلم امّہ میں بھائی چارہ یہی ہے جو عیاں ہے۔ اس کے سوا جو بھی ہے جھوٹ ہے۔

یوسف بلوچ کالم نگار ہیں۔ ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں۔