'جنرل باجوہ تاحیات آرمی  چیف رہنا چاہتے تھے'

سابق گورنر سندھ نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد اور نواز شریف کے باہر جانے میں قمر جاوید باجوہ کا کردار تھا۔ اس میں دو بڑی سیاسی پارٹیاں تھیں جن کے جنرل باجوہ کے ساتھ رابطے تھے۔ ملک احمد اس میں ڈیل کروانے کی کوشش کر رہے تھے کیونکہ وہ جنرل باجوہ کے بہت قریب تھے۔ ن لیگ میں دو دھڑے تھے ایک مزاحمتی اور ایک مفاہمتی، مزاحمت دھڑے نے اپنا کردار ادا کیا اور پی ڈی ایم بھی بنا دی گئی جبکہ مفاہمتی دھڑے نے بعد میں اپنا کردار ادا کیا۔

'جنرل باجوہ تاحیات آرمی  چیف رہنا چاہتے تھے'

سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ آل ٹائم چیف رہنا چاہتے ایک پارٹی کے پیچھے لگ کر نہیں۔ قمر جاوید باجوہ کا کسی بڑے ایونٹ میں کردار نہ ہو یہ نہیں ہو سکتا۔ تحریک عدم اعتماد اور نواز شریف کے باہر جانے میں قمر جاوید باجوہ کا کردار تھا۔ یہ کہنا تھا سابق گورنر سندھ اور رہنما مسلم لیگ ن محمد زبیر کا۔

ن لیگ کے رہنما محمد زبیر نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام میں کہا کہ قمر جاوید باجوہ کا کسی بڑے ایونٹ میں کردار نہ ہو یہ نہیں ہو سکتا۔ ن لیگ کو شدید تحفظات تھے کہ وہ پی ٹی آئی کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ان کو وکٹ کی دوسری طرف بھی کھیلنا تھا اور ہلکا ہاتھ بھی رکھنا تھا۔ تحریک عدم اعتماد میں بھی انہوں نے سہولت فراہم کی تھی۔

محمد زبیر نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کے وقت پوچھا تھا کہ ہم کیوں سمجھوتہ کر رہے ہیں۔ مجھے جواب ملا تھا کہ کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں کبھی بھی تحریک عدم اعتماد فوج کی معاونت کے بغیر کامیاب ہو ہی نہیں سکتی۔ سب لوگوں کو خطرات تھے کہ نومبر 2022 میں اگر فیض حمید آرمی چیف بن جاتے تو سارا کھیل ختم ہو جائے گا۔ جب عدم اعتماد آئی تو مجھ سمیت بہت سے لوگوں نے یہ سوال کیا کہ سب لوگ کہتے رہے کہ عدم اعتماد ادارے کی مرضی کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی تو پھر اب عدم اعتماد کہاں سے آئی۔ تو جواب آیا کہ کبھی نہ کبھی کسی پوائنٹ پر سمجھوتہ تو کرنا ہی ہوتا ہے۔پھر تحریک عدم اعتماد معاونت سے کامیاب بھی ہوئی۔ 

انہوں نے کہا کہ صرف یہی نہیں کہ آپ کو اقتدار سے نکالا گیا بلکہ جو کیسز بنے وہ گلے کا پھندا ہیں۔ اب پرویز الٰہی کو ہی دیکھ لیں، جب تک اسٹیبلشمنٹ کے سائیڈ پر تھے کبھی ایک منٹ کے لیے بھی جیل نہیں گئے اور جیسے ہی سائیڈ بدلی تو دیکھیں ایک سال سے جیل میں ہیں۔ 15 ضمانتیں ہو چکی ہیں لیکن کیس پر کیس بنتا جارہا ہے۔ اس سے زیادہ واضح بات اور کیا ہو سکتی ہے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

سابق گورنر سندھ نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد اور نواز شریف کے باہر جانے میں قمر جاوید باجوہ کا کردار تھا۔ اس میں دو بڑی سیاسی پارٹیاں تھیں جن کے جنرل باجوہ کے ساتھ رابطے تھے۔ ملک احمد اس میں ڈیل کروانے کی کوشش کر رہے تھے کیونکہ وہ جنرل باجوہ کے بہت قریب تھے۔ ن لیگ میں دو دھڑے تھے ایک مزاحمتی اور ایک مفاہمتی، مزاحمت دھڑے نے اپنا کردار ادا کیا اور پی ڈی ایم بھی بنا دی گئی جبکہ مفاہمتی دھڑے نے بعد میں اپنا کردار ادا کیا۔ مزاحمت ہوئی تو اس کے بعد مفاہمت کی میز پر سب آئے۔ یہ موٹو تھا کہ مزاحمت ہو گی تو مفاہمت ہو گی۔ شہباز شریف مزاحمت کے وقت اندر تھے تو مزاحمتی بیانیہ کھل کر سامنے آیا تو کسی کو موقع ہی نہیں ملا بات کرنے کا کہ مفاہمت ہونی چاہیے۔ کیونکہ شہباز شریف کبھی بھی ٹکراؤ یا مزاحمت کے حمایتی نہیں تھے۔بعد میں شہباز شریف نے مفاہمت کے لیے کردار ادا کیا۔ تو سب کو لگنے لگا کہ اب حالات درست ڈگر پر چل رہے ہیں۔

سابق آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق محمد زبیر نے کہا کہ ایک سے زائد باوثوق ذرائع سے پتا چلا تھا کہ آکری وقت تک قمر جاوید باجوہ مدت ملازمت میں توسیع کی کوشش کر رہے تھے۔ جنرل باجوہ کو ن لیگ کی جانب سے مدت ملازمت میں توسیع کی آفر تھی لیکن بانی پی ٹی آئی نے انٹرویو میں کہا تھا کہ ہم بھی مدت میں توسیع دے دیں گے۔ یہ بات درست ہے کہ دونوں پارٹیوں نے ہی مدت ملازمت میں توسیع کی کمٹمنٹ کی تھی۔ نومبر 2022 تک سابق آرمی چیف مدت ملازمت میں توسیع کے خواہاں تھے۔ نواز شریف کے بغیر توسیع کی آفر کون دے سکتا تھا؟ ظاہر ہے اس قسم کے فیصلے پارٹی میں نواز شریف کے علاوہ کوئی نہیں کرتا۔ 

پہلی توسیع کے حوالے سے سوال کیا گیا تو محمد زبیر نے کہاکہ یہ درست نہیں کہ جنرل باجوہ پہلی ایکسٹینشن بھی نہیں چاہتے تھے۔ اگر ایسا ہی تھا تو انہیں تب ہی انکار کر دینا چاہیے تھا۔

پروگرام میں انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم حکومت آنے کے بعد اعتراض اٹھا تو قمر جاوید باجوہ توسیع سے پیچھے ہٹے۔ پی ڈی ایم دور سے ن لیگ میں دھڑے بن گئے تھے۔مریم نواز کا بہت سے معاملات میں نکتہ نظر مختلف ہوتا تھا۔ مزاحمتی بیانیے کی بھی مریم نواز کپتان تھی اور نواز شریف ون ڈاؤن بلے باز تھے۔ مریم نواز سے جب اسٹیبلشمنٹ سے متعلق سوال ہوا تھا تو اس وقت بیانیہ بدل رہا تھا، بیانیہ مزاحمت سے مفاہمت میں بدل رہا تھا جو مریم نواز کیلیے مشکل تھا۔