شہباز شریف کی حکومت کو نواز شریف کی 100 فیصد حمایت حاصل ہے۔ نواز شریف ملک کی خاطر کل بھی عمران خان کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ تھے اور آج بھی ہیں لیکن عمران خان کسی سے بات کرنے کو تیار نہیں۔ یہ کہنا ہے پاکستان مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر رانا ثناء اللہ کا۔
'وی نیوز' کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ نواز شریف عمران خان سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے عمران خان سے اس وقت بھی بات کی تھی جب 2014 میں انہوں نے 126 دن کا دھرنا دیا ہوا تھا۔ دھرنے کے دوران بھی نواز شریف نے عمران خان کو فون کیا تھا کہ آئیں ملک کے لیے ایک ساتھ بیٹھیں حالانکہ اس سے گذشتہ رات وہ نواز شریف کو گالیاں دے رہے تھے مگر نواز شریف نے اپنے عمل سے ظاہر کیا کہ وہ ملک کی خاطر تب بھی عمران خان کے ساتھ بات کرنا چاہتے تھے اور اب بھی چاہتے ہیں۔
مسلم لیگ ن کے رہنما جاوید لطیف کی جانب سے وفاقی وزیر رانا تنویر پر 90 کروڑ روپے دے کر نشستیں لینے کے الزام پر رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ رانا تنویر ایسا آدمی ہے کہ کسی کو 90 روپے نہ دے، 90 کروڑ کیا رانا تنویر کے گھر پر رکھے ہوئے تھے؟ اتنی بڑی رقم کا اگر لین دین ہوا ہے تو اس کی کوئی ویڈیو کیوں نہیں بنی، کوئی بینک ٹرانزیکشن کیوں نہیں ہوئی؟ جاوید لطیف نے ایسی بات کی ہے جس کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا۔ ہم انہیں سمجھائیں گے کہ ایسا نہ کریں، انہیں بلا لیں گے، مباحثہ کریں گے اور کہیں گے کہ ہمیں قائل کر لیں یا ہماری بات مان جائیں۔
رہنما مسلم لیگ ن نے کہا کہ میاں جاوید لطیف کی ان سے بات ضرور ہوئی تھی لیکن انہوں نے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔ میاں جاوید لطیف کا کہنا ہے کہ انہیں ٹارگٹ کر کے ہروایا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ میاں جاوید لطیف پارٹی صدر کو بھی اس معاملے میں ملوث کر رہے ہیں۔ انہوں نے باور کروایا کہ شہباز شریف کو حکومت کو نواز شریف کی 100 فیصد حمایت حاصل ہے۔
نواز شریف کے دورہ چین سے متعلق رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف کمیونسٹ پارٹی کی دعوت پر چین گئے ہیں اور یہ ان کا نجی دورہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس دوران کوئی سرکاری مصروفیات نہیں رکھیں۔ ان کے مطابق مسلم لیگ ن کو سیاسی اور تنظیمی طور پر ازسر نو اپنا جائزہ لینا چاہیے۔ نواز شریف اس حوالے سے منصوبہ سازی کر رہے ہیں اور جلد اس ضمن میں مشاورت کا عمل شروع کریں گے۔ نواز شریف چاہیں تو کسی بھی وقت پارٹی صدر بن سکتے ہیں۔
سابق وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف اداروں کے چیف صاحبان کو مدت ملازمت میں توسیع دیے جانے کے حق میں نہیں ہیں۔ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اتنے بڑے عہدے پر رہے ہیں، انہیں جیب سے قرآن پاک نکال کر قسمیں نہیں اٹھانی چاہئیں تھیں۔ تاہم ان کی یہ بات درست ہے کہ نواز شریف کو لندن انہوں نے نہیں بھجوایا تھا۔
رہنما مسلم لیگ ن کے مطابق نواز شریف کو علاج کی غرض سے عمران خان اور ان کی کابینہ نے لندن بھجوایا تھا۔ اس وقت کی صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے بھی نواز شریف کی طبیعت کی تصدیق کی تھی۔ عمران خان نے اپنا ڈاکٹر بھیجا کہ جاؤ جا کر تصدیق کر کے آؤ کہ نواز شریف بیمار ہیں یا نہیں۔ پھر تمام میڈیکل رپورٹس بھی دیکھی گئیں۔
رانا ثناء اللہ نے بتایا کہ عمران خان سمجھنے والی چیز نہیں، انہیں اللہ ہی سمجھائے گا۔ عمران خان کی اپنی عوامی پذیرائی صفر ہے لیکن انہیں بس مزاحمت اور مظلومیت کا ووٹ ملا ہے۔ تاہم عمران خان کی وہ مزاحمت نہیں جو ان کی جماعت کی رہی ہے۔ انہوں نے نواز شریف کو ملک میں مزاحمت کی سیاست کا اصل ہیرو قرار دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف نے 32 سال مزاحمت کی سیاست کی ہے۔ میں نے ایک لمحے کے لیے بھی نواز شریف کو مزاحمتی بیانیے سے پیچھے ہٹتے نہیں دیکھا۔ اس بیانیے کی وجہ سے نواز شریف کا کاروبار تباہ ہوا، حکومتیں گئیں، انہوں نے جلاوطنی جھیلی اور جیلیں بھی کاٹیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم عمران خان کے بیانیے کے ساتھ سیاسی لحاظ سے نمٹیں گے، وہ اس بیانیے میں غلط ہیں۔ ہمارا اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ تھا کہ ادارے کاروبار حکومت میں مداخلت نہ کریں مگر عمران خان کا مزاحمتی بیانیہ یہ ہے کہ ادارے ملکی سیاست میں حصہ لیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے دور کرنا ہے تو سیاسی جماعتوں کو آپس میں ملنا ہو گا۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سابق وزیر نے کہا کہ ماڈل ٹاؤن میں جو 14 لوگ مارے گئے وہ طاہر القادری نے مارے تھے۔ طاہر القادری نے یہ کام بڑی محنت سے کروایا، انہوں نے وہاں بندے اکٹھے کیے اور اس طرح کا ماحول پیدا کیا جس کے نتیجے میں یہ سب کچھ ہوا۔