ٹوکن والا پینٹ

ٹوکن والا پینٹ
از عمار مسعود

ٹی وی پر ایک اشتہار اکثر چلتا ہے جس میں ٹوکن والے پینٹ کی چالبازیوں کی تشہیر کی گئی ہے۔ بات اتنی ہے کہ جعلی کمپنیوں نے ناقص پینٹ کو فروخت کرنے کے لئے ٹوکن والے پینٹ کے ڈبے مارکیٹ میں لانا شروع کیے، جس میں پینٹ بھی ناقص ہے اور پینٹ کے اجزائے ترکیبی بھی خالص نہیں۔ دیکھنے میں یہ پینٹ بھی مہنگے پینٹ کی طرح ہوتا ہے۔ ڈبے کا سائز بھی وہی اور پیکنگ بھی وہی۔ لیکن اس جعلی پینٹ کو مارکیٹ کرنے کے لئے ہر ڈبے میں ایک ٹوکن رکھ دیا جس کا فائدہ صرف رنگ ساز کو ہوتا ہے۔ گھر کے در و دیوار کے ساتھ کیا بیتتی ہے اس سے بے پروا ہو کر رنگ ساز اپنے ٹوکن کے پیسے کھرے کرتے ہیں۔ اس طرح کے پینٹ سے نہ صرف گھر کی دیواروں کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ کچھ عرصے کے بعد گھر کی شکل بھی بدنما ہو جاتی ہے۔

عمران خان نے اپنی سیاست کا انداز تبدیل کیا ہے۔ اس سے پہلے عمران خان کی سیاست خالص تھی؛ وہ جو بات کرتے تھے وہ دلیل کے ساتھ کرتے تھے۔ ان کے دلائل میں وزن تھا، ان کی آواز میں جوش تھا۔ ایک سرمدی ولولہ تھا۔ وہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہتے تھے۔ ایسے موضوعات کی طرف نشاندہی کرتے تھے کہ جن کی طرف اشارہ کرتے بھی روایتی سیاستدانوں کے پر جلتے تھے۔ لیکن عمران خان کی اس کاوش کا نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلا۔ زیادہ سے زیادہ میانوالی کی ایک سیٹ اور شوکت خانم کے لئے فنڈنگ اکٹھی ہو جاتی تھی۔ یہ سب عمران خان کے عزائم کے لئے کافی نہیں تھا۔ عمران خان اس ملک کی سیاست میں فعال کردار ادا کرنا چاہتے تھے۔ اپنے خوابوں کو تعبیر دینا چاہتے تھے۔ ملک کے لئے کچھ کرنا چاہتے تھے۔ لیکن یہ سب روایتی طریقے سے ممکن نہیں تھا۔ مجبوراً عمران خان نے بھی وہی رستہ اختیار کیا جس کی تلاش میں ماضی میں سب سیاستدان رہے ہیں۔ 2011 کے بعد سے عمران خان کی سیاست کو چار چاند لگ گئے۔ 2013 کے بعد سے عمران خان نے حکومت کے خلاف ایک مہم کا آغاز کیا جس کی ابتدا دھاندلی کے الزامات سے ہوئی اور انتہا 2018 کے انتخابات میں فتح پر ہوئی۔ ان پانچ سالوں میں عمران خان درجنوں دفعہ اپنے بیانات سے مکرے۔ سول نافرمانی سے لے کر مذہب کارڈ تک ہر ذریعہ استعمال کیا۔ کبھی کرپشن کو موضوع بنایا، کبھی ان ڈھائی کروڑ بچوں کا ماتم کیا جو سکول نہیں جاتے، کبھی تین سو پچاس ڈیم بنانے کا خواب دکھایا، کبھی احتساب کا چراغ جلایا، کبھی جمہوریت کا نعرہ بلند کیا، کبھی معدنیات کی دولت سے ملک کی تقدیر بدلنے کا اعلان کیا۔ کبھی ان بچوں کا ذکر چھیڑ دیا جن کا صاف پانی نہ ملنے سے انتقال ہو جاتا ہے، کبھی ہزاروں کھروبوں ارب روپوں کی کرپشن کے ثبوت میڈیا کو پیش کرنے کا وعدہ کیا۔

ان پانچ سالوں میں زیادہ تر میڈیا عمران خان کی انگلیوں کے اشارے پر ناچتا رہا۔ خبروں سے لے کر تجزیوں تک اور شہ سرخی سے لے کر کالم تک ہر چیز عمران خان کے مؤقف کی حمایت کرنے لگی۔ عمران خان کے حامی سیاستدان جلسوں میں، گلی کوچوں میں انہی الزامات کو دہرانے لگے۔ یہ سب باتیں اتنے تواتر اور تسلسل سے ہوئیں کہ لوگوں کو بہت حد تک یقین آ گیا کہ اس ملک کا اصل نجات دہندہ عمران خان ہے۔ باقی سب سیاستدان کرپٹ، چور، غدار اور کافر ہیں۔ اور اگر ملک کے حالات ٹھیک کرنے ہیں تو عمران خان کو وزیر اعظم بنانا ہی پڑے گا۔ یہ درست ہے کہ 2018 کے انتخابات بہت حد تک متنازعہ رہے، فارم پینتالیس ابھی تک میسر نہیں آ سکا، پولنگ ایجنٹس کو پولنگ سٹِشنز سے نکال دیا گیا اور واضح طور پر عمران خان کی طرفداری کی گئی۔ یہ سب باتیں اس بات کی دلیل ہیں کہ الیکشن متنازعہ تھے لیکن ہمیں اس بات کو بھی تسلیم کرنا چاہیئے کہ میڈیا کی پانچ سالہ مسلسل کاوشوں کے نتیجے میں تحریک انصاف کو بھی پہلے سے زیادہ ووٹ پڑے۔ بے شمار لوگوں کو اس بات کا صدق دل سے یقین ہے کہ اس ملک کا نجات دہندہ عمران خان ہی ہیں۔ خاص طور پر بیرون ملک پاکستانیوں کی اکثریت یہی سمجھتی ہے۔

اب صورت حال بدل گئی ہے، اب عمران خان وزیراعظم بن چکے ہیں۔ ملک اب ان کے حوالے ہو چکا ہے۔ وزراء حلف اٹھا چکے ہیں۔ صوبوں میں حکومتیں بن چکی ہیں۔ قومی اسمبلی میں اکثریت مل چکی ہے۔ ہم ابھی تک عمران خان کے ماضی کے بیانات کو دیکھیں تو موجودہ تعیناتیاں اس سب کے باکل برعکس ہیں جو خان صاحب کا مؤقف تھا۔ عثمان بزدار وزیر اعلیٰ پنجاب بن چکے ہیں، ان پر چھ قتل کا مقدمہ تھا۔ کے پی کے وزیر اعلیٰ محمود خان پر اٹھارہ لاکھ روپے اپنے اکاؤنٹ میں ڈلوانے کے ثبوت مل چکے ہیں۔ علیم خان اور جہانگیر ترین اب بھی خان صاحب کے خاص سیاسی مصاحبین میں سے ہیں۔ پرویز خٹک پر بی آر ٹی میں انیس ارب روپے کی کرپشن کے الزامات لگنے کے بعد انہیں وزارت دفاع کا عہدہ تفویض کر دیا گیا ہے۔ مشرف دور کی کابینہ دوبارہ حلف لے چکی ہے۔ عشرت حسین ایڈاوئزر بن چکے ہیں۔ اہم ملکی فیصلوں میں ابھی تک صرف پی سی بی کے چئیر مین کی تعیانی ہوئی ہے۔ جس کے لئے کسی قسم کا میرٹ نہیں دیکھا گیا۔ صرف ایک ٹوئیٹ پر یہ تعیناتی کر دی گئی ہے۔ کرپشن سے مراد اب صرف پیپلز پارٹی اور نواز شریف کے مقدمات رہ گئے ہیں۔ اپنی طرف نگاہ کرنے کا کسی کو ہوش نہیں ہے۔

المیہ یہ ہے کہ اب کرپشن پر بات کرنے والے کرپٹ لوگوں کو عہدوں پر متمکن کر رہے ہیں۔ اب سب نعرے خود سوال بن کر کھڑے ہیں۔ وہ لوگ جو عمران خان کو نجات دہندہ سمجھتے تھے، اتنے قلیل وقت میں یہ سب کچھ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ کیا وہ سب نعرے، وعدے جھوٹ تھے۔ سب الزامات دھوکہ تھے۔ نیا پاکستان ایک واہمہ تھا۔ جن لوگوں کو عہدے دیئے گئے ہیں یہ تو وہی لوگ تھے جن کے خلاف خان صاحب نے جہاد شروع کیا تھا۔ جن کی نسلوں سے قومی دولت چھیننے کا وعدہ کیا تھا۔ جن کے خلاف ہر تقریر کی تھی۔ اگر ان لوگوں سے مفر ممکن نہیں تو پھر سب سوالوں کے جواب تشنہ ہیں ، سب نعرے کھوکھلے ہیں، سب جھوٹ ہے، سب سراب ہے، سب خواب ہے۔

عمران خان نے قومی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر سے یہ واضح کر دیا ہے قومی معاملات پر وہ کیا کریں گے، کس طرح کا انصاف ہو گا، کس طرح کا انتقام ہو گا، کس طرح کا احتساب ہو گا۔ قومی معاملات پر عمران خان کی گرفت تو ٹاسک فورسز کی بھرمار سے نظر آ رہی ہے۔ کوئی منصوبہ نہیں ہے معشیت کو ٹھیک کرنے کا، کوئی پلان نہیں ہے ایک کروڑ نوکریاں دینے کا، کوئی طریقہ نہیں پچاس لاکھ گھر بنانے کا۔ جلسوں میں کی جانے والی تقریریں اسمبلی میں کرنے سے ملک نہیں چلتے۔ احتجاج کا ہتھیار حکومت کے پاس نہیں ہوتا۔ ایجی ٹیشن کی سیاست حکومت نہیں کر سکتی۔ جن لوگوں نے بڑی چاہت سے عمران خان کو ووٹ دیا وہ بھی حیران و پریشان ہیں۔ وہ بھی اپنا سر پیٹ رہے یں کہ یہی نیا پاکستان ہے تو پرانے پاکستان میں کیا خامی تھی۔ ان سب لوگوں کو اب احساس ہو رہا ہے، کہ مہنگے داموں ان کوسستا، جعلی اور ٹوکن والا پینٹ فروخت کر دیا گیا۔

یاد رہے۔ دیکھنے میں یہ پینٹ مہنگے پینٹ کی طرح ہوتا ہے۔ ڈبے کا سائز بھی وہی اور پیکنگ بھی وہی۔ لیکن اس جعلی پینٹ کو مارکیٹ کرنے کے لئے ہر ڈبے میں ایک ٹوکن رکھ دیا جاتا ہے جس کا فائدہ صرف رنگ ساز کو ہوتا ہے۔ گھر کے در و دیوار کے ساتھ کیا بیتتی ہے اس سے بے پروا ہو کر رنگ ساز اپنے ٹوکن کے پیسے کھرے کرتے ہیں۔ اس طرح کے پینٹ سے نہ صرف گھر کی دیواروں کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ کچھ عرصے کے بعد گھر کی شکل بھی بدنما ہو جاتی ہے۔