ڈاکو کہتے تھے کہ 'استاد آپ کو پیسے تو دینے پڑیں گے، جگر جلال

ڈاکو کہتے تھے کہ 'استاد آپ کو پیسے تو دینے پڑیں گے، جگر جلال

شمالی سندھ کے شکارپور ضلع میں کچے کے علاقے سے چار دن پہلے اپنے چار ساتھیوں سمیت اغوا ہونے والے مقبول سندھی گلوکار نبی بخش چانڈیو عرف جگر جلال جمعے کے رات بازیاب ہوگئے۔ بازیاب ہونے والوں میں جگر جلال کے ساتھ ان کے بیٹے آفتاب، بھتیجے امیر علی، ہارمونیم نوازعبدالظیف تنیو اور ڈرائیور بہادر کھُاوڑ شامل ہیں۔


سندھی ٹی وی چینلز نے دعوی کیا کہ جگر جلال کی بازیابی پولیس اور قبائلی سرداروں کی جانب سے ان کو اغوا کرنے والے ڈاکوؤں سے کی گئی ایک ڈیل کے تحت ہوئی ہے۔ ڈی آئی جی لاڑکانہ عرفان بلوچ نے ان خبروں کے تردید کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کرکے گلوکار اور ان کے ساتھیوں کو رہا کرایا۔ مگر ان کے دعوے کے برعکس ان افراد کے بازیابی کے ساتھ کوئی گرفتاری عمل میں نہ آسکی۔


جگر جلال نے بی بی سی کو خصوصی انٹرویو میں اپنے اغوا سے لیکر رہائی تک کا قصہ سنایا۔ انھوں نے بتایا کہ ڈاکو انھیں کہتے تھے کہ 'استاد آپ کو پیسے تو دینے پڑیں گے۔ 'ان کا کہنا تھا کہ ڈاکو ان کے مداح تھی تھے اور کسی حد تک انہوں نے انکی خدمت بھی کی۔ 

پولیس کے مطابق جگر جلال سمیت پانچ افراد کی بازیابی کے لیے تیغانی ڈاکوؤں کے آٹھ کے قریب رشتے داروں کو گرفتار کیا گیا جبکہ آپریشن کے دوران ایک ڈی ایس پی بھی ہلاک ہوا۔

جگر جلال کے بیٹے آفتاب کا کہنا ہے کہ انھیں امید نہیں تھی کہ کہ 'زندہ بچ نکلیں گے ' کیونکہ پولیس افسر کی ہلاکت کے بعد انھوں نے ہمیں کہا کہ 'اپنے رشتے داروں سے کہو کہ پولیس کارروائی روکیں ورنہ ہم تمہیں مار دیں گے اور تمہاری لاشیں بھی نہیں ملیں گی۔ 'انہیں ڈاکووں کے کہنے پر گلوکار جگر جلال نے سندھی ٹی وی سے گفتگو کی۔ 


واضح رہے کہ ایڈیشنل آئی جی ڈاکٹر جمیل نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ جگر جلال کو آپریشن کر کے بازیاب کرایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 'پولیس کی پہلی ترجیح مغویوں کی باحفاظت واپسی تھی، اب ڈی ایس پی کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے گا۔ '

اس سے قبل ایڈیشنل آئی جی ڈاکٹر جمیل نے کہا تھا کہ جگر جلال کو تاخیر سے آنے اور خواتین ساتھی ڈانسرز نہ لانے پر ڈاکوؤں نے یرغمال بنایا ہے۔

جگر جلال نے ان الزامات کو متسرد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کچے کے علاقے میں وہ پہلے بھی محفل کے لیے جاتے رہے ہیں لیکن اس علاقے میں وہ پہلی مرتبہ گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'ہم پیار و محبت باٹنے والے گلوکار ہیں اگر ہمیں بھی اغوا کیا جائے گا تو پھر تو دنیا میں اعتبار نہیں رہے گا۔ '

یاد رہے کہ شکارپور ضلع گذشتہ کئی برسوں سے بدامنی کا شکار ہے۔ اس سے قبل یہاں فرقہ وارانہ شدت پسندی کے واقعات پیش آچکے ہیں۔ جبکہ حال ہی میں یہاں اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

معاملے پر سینیر پولیس افسران کا کہنا ہے کہ کچے کے علاقے کی ساخت کی وجہ سے بھرپور آپریشن کرکے ڈاکوؤں کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ ’یہ کسی ایک ضلع کی پولیس کے آپریشن کرنے سے نہیں ہوسکتا۔ ان ڈاکوؤں کا مکمل خاتمہ تب ہی ممکن ہے جب پوری شمالی سندھ کی پولیس بشمول پنجاب پولیس کے ساتھ ایک بڑا آپریشن کیا جائے۔ کیوں کہ ہم نے جب بھی آپریشن کیا تو ڈاکوؤں کے گروہ دریا کے راستے دوسرے اضلاع میں بھاگ جاتے ہیں یا پھر پنجاب نکل جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ پولیس کو مستقل کچے میں نہیں رکھا جا سکتا کیوں کہ کچے میں اکثر پانی بھر جاتا ہے اور علاقے کی ساخت کی وجہ سے ہر آپریشن پر خطیر رقم لگتی ہے۔‘