مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ میرے بچے کن کلاسوں میں پڑھتے ہیں:عثمان بزدار

مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ میرے بچے کن کلاسوں میں پڑھتے ہیں:عثمان بزدار
برصغیر کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس خطے پر حکمرانی کرتے ہر حکمران کی کوشش رہی کہ کسی طرح پنجاب اس کے قبضے میں آ جائے اور اس کے اقتدار کی بنیادیں محفوظ ہو جائیں۔ اسی جستجو میں مرکز سے حکمرانی کرنے والوں نے کبھی تو اپنا مرکز ہی پنجاب منتقل کرنے کی ٹھانی یا پھر کم از کم اپنے انتظامی، فوجی و سیاسی طور پر مضبوط شخص کو اس کا سربراہ تعینات کیا۔ برصغیر کا بٹوارہ ہو گیا جو دراصل بنگال اور پنجاب کا بٹوارہ تھا۔ سیاسی حقیقتیں بدل گئیں لیکن پاکستان کی نظامت و سیاست میں پنجاب کی اہمیت میں رتی بھر فرق نہ پڑا۔
پنجاب نے فوجی حکمرانی میں تگڑے گورنرز اور ایڈمنسٹریٹرز دیکھے، ساتھ ہی تگڑے وزیر اعلیٰ بھی۔ جمہوری حکومتوں کا زور بھی پنجاب پر رہا کہ بھٹو صاحب کی سیاست ہو یا محترمہ بے نظیر کی، لاہور نے ہی انہیں اقتدار کے منہ زور گھوڑے پر براجمان کرانے کی کرشمہ سازی میں مدد دی۔
پھر ن لیگ رہی تو یہی پنجاب تھا جس نے 2008 کے بعد شہباز شریف کی کارکردگی دیکھ کر اگلے انتخابات میں وفاق میں بھی حکومت ن لیگ کو ملنے میں کردار ادا کیا۔
لیکن پھر تحریک انصاف آ گئی۔ پہلے تو پنجاب سے کلین بولڈ ہوتے رہنے والی پارٹی نے پنجاب کے ہی جادو گر ترین کی مانی تو تحریک انصاف کا جادو وفاقی طاقت کے ایوانوں کے سر چڑھا اور ابھی تک بول رہا ہے لیکن سیاسی روایت میں ایک بدمزہ سی حرکت عثمان بزدار کی بطور وزیر اعلیٰ تعیناتی سے سیاست میں پنجاب کی اہمیت کی ٹھیک ٹھاک بے قدری کی گئی۔
جس دن بزدار نے حلف لیا، تحریک انصاف کے اشاروں پر چلنے والے میڈیا نے اس عمل کو انقلاب فرانس کے مشابہ قرار دے دیا۔ تاریخ امریکہ سے اسے جیکسونین ڈیموکریسی سے متشابہ قرار دیا۔ اسی لمبی لمبی خبریں لانے والے میڈیا کے ایک مخصوص حصے نے یہاں تک کہہ دیا کہ خاتون اول کے استخارہ نے بزدار عمران خان کا لکی چارم قرار دیا ہے اور وزیر اعظم کو بتایا گیا ہے کہ اگر یہ نہ رہے تو آپ بھی جائیں گے۔ تاہم، جلد ہی یہ بخار اترا اور یہ بات درست ہے کہ میڈیا سمیت اپوزیشن اور طاقت کے اصل مراکز جب بھی عمران خان پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں وہ عثمان بزدار پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ لیکن ذمہ دار میڈیا ذرائع بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ خان صاحب بزدار کے معاملے پر طاقتوروں کو بھی صاف جواب دے چکے ہیں۔
لیکن کیا کریں کہ عثمان بزدار صاحب اتنا وقت اور کپتان کا اتنا اعتماد ملنے کے باوجود اپنی پرفارمنس میں ذرا سا بھی فرق لانے سے قاصر ہیں۔ حتیٰ کہ اپنی پرفارمنس سے متعلق میڈیا امیجنگ اور سیاسی بیانیہ بدلنے میں بھی ناکام ہیں۔
اب حال ہی میں جاوید چوہدری نے ایک کالم لکھا ہے جس میں انہوں نے 8 اگست کو وزیر اعلیٰ پنجاب سے ملاقات اور ان سے ہونے والی گفتگو کا احوال لکھا ہے جس میں ایسے انکشافات کیے گئے ہیں جن کے بعد عثمان بزدار کی ایک ایسی شبیہ سامنے آتی ہے جس میں وہ ایک نہایت سادے، ناتجربہ کار اور غیر تربیت یافتہ سیاستدان نظر آتے ہیں۔ جاوید چوہدری نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے ٹیکنالوجی سے نابلد ہونے کا بھی نقشہ انہی کی زبانی کھینچا ہے۔ جب کہ سیاسی اور خاص طور پر انتظامی طور پر فارغ البال ہونے کی تصدیق بھی بزدار صاحب نے اپنے منہ سے کی ہے۔
جاوید چوہدری کے مطابق انہوں نے پوچھا ’’کیا آپ عمران خان کو جانتے تھے‘‘ یہ بولے ’’میری ایم پی اے بننے یا وزیر اعلیٰ نامزد ہونے تک خان صاحب سے کوئی ملاقات نہیں تھی، مجھے میرے ایک دوست نے کہا، میں تمہیں لینے آیا ہوں، ہم نے بنی گالا جانا ہے، میں اس کے ساتھ آگیا‘‘۔ میں نے انھیں روک کر کہا ’’اور آپ کے اس دوست کا نام جمیل گجر تھا‘‘۔ وہ ہنس کر بولے ’’ہاں یہ بھی تھے اور بھی تھے‘‘۔
وہاں میری خان صاحب سے پہلی ملاقات ہوئی، جہانگیر ترین سے دوسری ملاقات تھی لیکن انھوں نے مجھے پہچانا تک نہیں، میں پارٹی کے کسی بھی شخص کو نہیں جانتا تھا‘‘۔ میں نے پوچھا ’’آپ پر اعتراض کیا جاتا ہے آپ کو کوئی انتظامی تجربہ نہیں لیکن 12 کروڑ لوگوں کا صوبہ اٹھا کر آپ کی جھولی میں ڈال دیا گیا‘‘۔ یہ ہنس کر بولے ’’یہ بات درست ہے، میں زندگی میں پہلی بار ایم پی اے بنا اور اس کے ساتھ ہی وزیراعلیٰ بن گیا، میں نے پہلے دن اپنے سٹاف کو کہہ دیا تھا مجھے انتظامی امور کا کوئی تجربہ نہیں، آپ بس یہ سمجھیں ایک شخص ڈی جی خان سے سیدھا لاہور آ گیا اور اسے راستے کے کسی شہر۔ کسی سڑک کا پتا نہیں لہٰذا میری آپ سے بس یہ درخواست ہے آپ صرف اور صرف قانون کے مطابق چلیں۔‘‘
عثمان بزدار کے ساتھ ملاقات میں چند دل چسپ باتیں بھی ہوئیں۔ مثلاً بزدار صاحب نے بتایا ’’میں نے زندگی میں کبھی کوکا کولا اور سیون اپ نہیں پی، میں فانٹا بھی نہیں پی سکتا، میں صرف شیزان پیتا ہوں، میں سمارٹ فون استعمال نہیں کر سکتا، میرے پاس عام سا فون ہے، میں اس پر بھی صرف فون کرتا یا سنتا ہوں، زیادہ سے زیادہ واٹس ایپ کر لیتا ہوں، میں فون کو زیادہ نہیں چھیڑتا کیوں کہ مجھے خطرہ ہوتا ہے کہیں غلطی سے میرا ہاتھ دائیں بائیں نہ لگ جائے اور کوئی ایسی چیز نہ کھل جائے جسے میں بند ہی نہ کر سکوں، میں نے کبھی آئی فون یا اینڈرائیڈ استعمال نہیں کیا، میں انھیں ہاتھ بھی نہیں لگاتا‘‘۔ یہ ہنس کر بولے ’’مجھے یہ بھی نہیں پتا میرے بچے کس کلاس میں پڑھتے ہیں‘‘۔
میں نے چند دن پہلے ان کے فارم پر کرنا تھے، میں نے ان سے کہہ دیا بیٹا مجھے نہیں پتا تم کس کس کلاس میں پڑھتے ہو لہٰذا تم اپنے فارم خود پر کر لو۔
اب یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ایسا شخص جسے اپنے بچوں کی کلاسز تک نہیں معلوم، جو پاکستان کی گھاگ بیوروکریسی کو بتا رہا ہے کہ مجھے انتظامیہ کا کچھ نہیں معلوم اور میں ایک سیدھے سادے شخص کی طرح ہوں جو لاہور آ گیا ہے اور پھر یہ کہ وہ اینڈرائڈ موبائل بس اس قدر ہی چلاتا ہے کہ جہاں کچھ بھی کھل جانے کا خدشہ نہ ہو، اس کے ساتھ کیا ہوتی ہوگی؟ اور جس صوبے کا وہ سربراہ ہے اس صوبے کے ساتھ کیا ہوتی ہوگی؟ اور اس صوبے میں رہنے والے عوام کس حال میں ہوں گے۔
گو کہ جیو نیوز کے پروگرام میں تو وزیر اعلیٰ کے دعوے کچھ اور رہے لیکن اب کیا کریں اس گفتگو کا حال جو جاوید چوہدری نے بیان کیا اس کی تردید بھی کسی نے نہ کی۔ کوئی ایک انٹرویو اور اس میں کیے گئے وزیر اعلیٰ کے دعوے جھوٹے ہوں گے؟
لیکن بس احوال معاملات کو جاننے کے لئے ناظرین کو انصار عباسی کی وہ خبر یاد دلاتے جائیں جس میں انہوں نے بتایا کہ کہ جب شوگر کمشین نے عثمان بزدار سے چینی سبسڈی دینے والے اجلاس سے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مجھے ایسے کسی اجلاس کا یاد نہیں پڑتا۔ یاد رہے کہ اس دستاویز پر وزیر اعلیٰ کے دستخط میٹنگ منٹس کے ساتھ ہوتے ہیں۔
اور ہاں، وزیر اعلیٰ نے صحافی اور ڈان کے رزیڈنٹ ایڈیٹر فہد حسین کو اس خبر پر نوٹس بھیج رکھا ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ عثمان بزدار نے اپنے افسر سے کرونا بارے دریافت کیا تھا کہ یہ کرونا کاٹتا کیسے ہے؟