فن کا زعم، سب سے آگے بڑھنے کی خُو۔ سب سے الگ اور منفرد آنے کی جستجو۔ ہرفن مولانا ہونے کا خواب، کچھ ادھورا، کچھ ناتمام مگر ہر تشنہ آرزو کے سامنے ایک اور انداز، کوئی را زمگر سب کے دل کی آواز، دوستیاں، یادیں، جواں سال شخصیت، گہرے بھید بھائو اپنے سامعین اور شاگردوں کے درمیان کہی اَن کہی۔ گٹار کے تار پر کوئی بے قرار اور مچلتی بکھرتی ہوئی دھن ہے۔ وہ ہمارے درمیان اپنی مسکراہٹیں، محبت اور باتوں کی خوشبو بکھیرتا ہوا موجود ہے۔
سر پر ہیٹ سجائے، آنکھوں پر سیاہ چشمہ، فرنچ کٹ، سانولا رنگ، میانہ قد تیز قدموں سے چلتا ہوا وہ کسی یونیورسٹی کا طالب علم لگتا ہے جو کلاس میں اپنی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے وقت کی پابندی کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے۔ اس کے فن سے کئی شخصیات اور ادارے مستفید ہوئے اور بجٹ میں منظور رقم اور جیب میں رکھے ہوئے پیسوں کی اسے خبر تک نہ ہونے دی۔ مگر وہ مسکرا دیتا ہے۔ اور کہتا ہے میں کسی کے کام آتا ہوں تو ٹھیک ہے۔ سجاد طافو پاکستان میں موسیقی کے اول تا آخر کی تاریخ کاایک گواہ ہے اور گذشتہ پانچ عشروں سے اس کا ایک اہم کردار ہے۔
سجاد طافو نے بتایا کہ’’ہمارا مزنگ گھرانہ ہے(ددھیال کی طرف سے)جس میں موسیقار ماسٹر عنایت حسین، موسیقار ماسٹر عبداللہ، اختر حسین اکھیاں، ماسٹر عاشق جنہوںنے سب سے پہلی دھمال کی موسیقی ترتیب دی تھی۔ ’او لعل میری پت رکھیو بلا جھولے لعلن‘ عنایت حسین بھٹی نے 1960ء میں فلم جبرو کا ٹائٹل سانگ گایا تھا۔ ننھیال کی طرف سے حسین بخش چلوے والا سارنگی نواز اور صادق پہلوان تھے۔ دادا حاجی فدا حسین گورنمنٹ کالج لاہور کے گریجوایٹ تھے۔ کوریوگرافر اور طبلہ نواز تھے۔ والد محترم الطاف حسین طافو محض چھ سال کی عمر میں موسیقار ماسٹر عنایت حسین کے ساتھ ڈھولک بجایا کرتے تھے۔
’’میں بچپن میں بہت شرارتی تھا۔ ایک دفعہ میری والدہ نے مجھے ایک روپیہ دیا۔ میں نے ایک پیسے کا داس کلچہ لیا۔ لچھے کھائے۔ ایک روپیہ ختم نہیں ہو رہا تھا مگر آج ضروریات ختم نہیں ہوتی پیسے ختم ہو جاتے ہیں۔ گاڈی محلہ بازار شیخوپوریاں اور ٹبی گلی کے درمیان آ گئے تھے۔ میرے والد محترم طافو نے مجھے بچپن میں ہی طبلے پر بٹھا دیا اور ردھم سکھایا۔ نادں۔ دناں یہ تین تال کا ٹھیکہ ہے۔ ایک سے 16تک گنتی ہوتی ہے۔ پھر 16سے 24تک اور 24سے32تک۔ اسے تلوار ٹھیکہ بولتے ہیں۔ منڈولین میں جو یورپین ساز ہے، اس میں ایک گانا ہے۔’گھر آیا میرا پردیسی‘ میں نے منڈولین پر یہ گانا بجا کر محفل کو سنایا۔ 70سے 73ء تک میری پریکٹس ہوئی۔1974ء میں ایک پروفیشنل گٹارسٹ بن چکا تھا۔
گٹار پر نثار بزمی، ناشاد، اے حمید، نذیر علی اور ایم اشرف کے گیت بجاتے سینئر موسیقاروں کے ساتھ کام کیا۔ 1975ء میں فلم ’’آئینہ‘‘ کے گیت میں ’کبھی میں سوچتا ہوں کچھ نہ کچھ کہوں‘ آرکسٹرا میں گٹار بجایا۔ یہ مجھے فلم میں پہلا چانس ملا تھا۔ سولوپرفامر تھا۔ 16سال کی عمر میں روبن گھوش کا میں اسسٹنٹ موسیقار بن گیا۔ بابا نامدار خان وائلن بجاتے تھے وہ بھی میرے ساتھ ہوتے تھے۔ روبن گھوش کی آئندہ فلم ’بندش‘ اور ’احساس‘میں کام کیا۔ فلم ’چکوری‘1970ء سے پہلے کی تھی۔ فلم ’چاہت‘ میں بطور پریکٹس گٹار بجایا تھا۔ یہ سفر جاری رہا۔ 1990ء میں مجھے فلم ’شادمانی‘ ملی۔ اس کے ہدایت کار صفدر حسین تھے۔ موسیقار وجاہت عطرے تھے۔ میں نے بیک گرائونڈ میوزک دیا۔ کل 104فلموں کا بیک گرائونڈ میوزک دیا ہے۔ 2009ء میں الحمرا آرٹس کونسل میں موسیقی کے استاد کی پیشکش ہوئی۔ آفتاب اقبال کے گھر ایک محفل موسیقی تھی۔اس وقت کے سیکرٹری اطلاعات اور بے مثل شاعر شعیب بن عزیز نے مجھ سے کہا کہ ’’الحمرامیں موسیقی کی کلاسز ہو رہی ہیں۔ آپ بھی آئیں میں ان سے دوسرے دن جا کر ملا۔ انہوں نے مجھے اسسٹنٹ ڈائریکٹر الحمرا ذوالفقار زلفی کے پاس بھیجا۔ بڑی سنجیدہ گفتگو ہوئی۔ انہوں نے پوچھ اکیا آپ آٹھ ہزار روپے ماہانہ پر یہ پیشکش قبول کریں گے؟ میں نے جواب دیا کہ میں نوجواں نسل تک اپنا فن منتقل کرنا چاہتا ہوں اس لیے مجھے یہ پیشکش قبول ہے۔ سو میںنے الحمرا آرٹس کونسل میں گٹار کی کلاسز لینا شروع کر دیں۔ آج گٹار کے حوالے سے موسیقی کی کلاسز پڑھاتے ہوئے مجھے تقریباً 20سال ہو چکے ہیں۔ وہاں جو بھی الحمراء کے ڈائریکٹر آئے انہوں نے میری تنخواہ میں کچھ نہ کچھ اضافہ ہی کیا ہے۔ اب میری یہ خواہش ہے کہ جو بھی ڈائریکٹر آئیں وہ فن موسیقی کی سرپرستی کریں۔ اور جو الحمرا میں فن موسیقی کے استاد ہیں ان کو مستقل کیا جائے ان کی تنخواہوں کو زمانہ حال سے ہم آہنگ کیا جائے۔
سجاد طافو اپنی یادوں کی کتاب کو حرف بہ حرف تو نہیں البتہ جو کچھ ذہن کے تاریک گوشوں میں روشن ہوتا اسے سنا رہے تھے۔ ’’70ء کی دہائی میں نے جو فلم کا زمانہ دیکھا ہے ، وہ بڑا بھائی چارہ، دوستی اورسینئرز کی عزت کا دور تھا۔ میں ملازم کے ساتھ گھر سے والد صاحب کے لیے کھانا لے کر اسٹوڈیو جایا کرتا تھا۔ یہ میری فلم سٹوڈیو میں پہلی انٹری تھی۔ میں نے پہلی بار وحید مراد کو دیکھا۔ میری عمر آٹھ دس سال ہو گی۔ وحید مراد کاغذ ہاتھ میں لے کر اپنے مکالمے یاد کر رہے تھے۔ مجھے دیکھا تو بولے ’’یہ کس کا کھانا ہے؟‘‘ بتایا، طافو صاحب کا ہے۔ تب انہوں نے ترنت کہا، انہیں کہیں میں بھی آ رہا ہوں۔ اس طرح نیلو بیگم بھی سٹوڈیو کی راہداری میں ملی اور پوچھا ’منڈیا ایہہ کدھدا کھانا اے۔ بتایا تو کہنے لگیں ’’طافو صاحب سے کہنا تہاڈی بہن وی آئوندی پئی اے۔‘ آگے اقبال حسن کھڑے تھے، جو میرے ددھیال کی جانب سے میرے رشتے دار تھے۔ ان کا بھی یہی مکالمہ تھا۔ آگے منور ظریف ملے بولے ’اوئے تیرا ’پے‘(باپ) کتھے اے؟ یہ سب فن کار ایک فیملی کی طرح تھے۔‘‘
’’70ء میں موسیقار نذیر علی فلم ’’دلاں دے سودے‘‘ کی ریہرسل کر رہے تھے۔ نورجہاں کی آواز میں بڑے معروف اور لازوال گیت فلم میں شامل تھے۔ میں نے اس فلم میں بھی موسیقار نذیر علی کے ساتھ بطور پریکٹس میوزیشن کام کیا تھا۔‘‘ یہ عشرہ بڑا شاندار تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ فنونِ لطیفہ کے حوالے سے خاص طور سے فلم ادب اور شاعری کے حوالے سے ستر کی دہائی ایک زرخیز اور متمول زمانہ تھا۔ ادھر بھی اور ’’اُدھر‘‘ بھی۔ اسی زمانے میں فلیٹیز اور انٹرکانٹی نینٹل ہوٹل(پی سی) میں موسیقی کے بینڈ ہوتے تھے۔ پچاس روپے فی کس موسیقی سننے کے لیے فیس لی جاتی تھی۔ کھانے کے پیسے الگ ہوتے تھے۔ میں ان بینڈکے کرتا دھرتائوں سے ملا۔ انہیں بتایا کہ میں نے فلاں فلم کے لیے موسیقی دی ہے تو وہ حیران ہوئے اور مجھے ان کے درمیان اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع مل گیا۔ ان دنوں ون وے ٹکٹ، بونی ایم بینڈ پاپولر تھا۔ بلیک افریقین امریکن بینڈ کا ممبر ہو گیا۔ جان ڈینور کا ایک سانگ ’کنٹری روڈ بہت معروف ہوا۔ یہ کنٹری فوک سنگر تھا۔ میں نے یہ گانا پرفارم کیا۔ پھر میں نے اپنا گروپ ایونجر بینڈ بنایا، سفر جاری تھا۔ ایک تڑپ تھی۔ کچھ نیا کرنے کی جستجو تھی۔ دنیا میں بہت کچھ ہو رہا تھا۔ سب کو سنتا تھا۔ میں نے اپنا بینڈ اسکول و کالج کے دوستوں کے ساتھ شروع کیا اور یہ 1981ء سے 1998ء تک چلتا رہا۔ ہم پورے پاکستان میں سفر کرتے رہے۔ آرمی کے فنکشنز میں جاتے تھے۔
انگریزی اردو اور پنجابی گانے یکساں مہارت کے ساتھ بیک وقت پرفارم کیے تھے۔ میرا آئیڈیل مارک نوفلر امریکن گٹارسٹ ہے۔ میں نے اپنا ہاتھ اس کے اسٹائل کے مطابق سیٹ کیا ہے۔ میں نے گٹار پر صوفی کلام ٹھمری اور فوک بھی بجایا ہے۔ 2010ء میں ’’صوفی ساگا‘‘کے نام سے سولوگٹار البم ریلز ہوا۔ میرا پچاس برسوں پر محیط کیریئر ہے۔ بی بی کنگ بلیک امریکن اسی برس کی عمر تک گٹار بجاتا رہا۔ یہ کہانی اس لیے سنا رہا ہوں کہ میں نے ہر دیانت دار اور اپنے فن سے محبت کرنے والے فن کار کی طرح شبانہ روز محنت کی ہے۔ کوئی شارٹ کٹ استعمال نہیں کیا۔ مگرکیا ملا جب یورپ یا ترقی یافتہ ملکوں میں کوئی فنکار شہرت کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے۔ اپنے فن کو منواتا ہے تو اس کے لیے زندگی کے شب و روز آسان ہو جاتے ہیں۔ گاڑیاں، جہاز ان کی ملکیت ہوتے ہیں۔ ہم تو سائیکل تک نہیں خرید سکے آج بھی پیدل یا آٹو استعمال کرتا ہوں، کرائے کے گھر پر رہتا ہوں۔
میری تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ممتاز طافو ہے جو میوزک سے وابستہ ہے۔ دوسرے نمبر پرایک بیٹی کی شادی ہو چکی ہے۔ ایک بیٹی نے ایم فل ایڈمنسٹریشن کیا ہے اور اب آسٹریلیا کی ایک یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کرنے جا رہی ہے۔ تیسری بیٹی نے ایم ایڈ(ایجوکیشن) کیاہے۔ لیکچرار ہو گئی ہے۔ سو میرے لیے میرا فن اور میرے بچے مقدم رہے۔ ہم چار بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ ایک بہن جو شادی شدہ تھیں اس کا انتقال ہو گیا۔ دوسرے تینوں بھائی اعجاز حسین بَلوخاں(طبلہ نواز) تنویر طافو اور شاہد طافو ہیں جو موسیقی سے وابستہ ہیں۔ ایک بھائی برطانیہ میں مقیم ہے۔ بہت ساری آفرز ملی کہ برطانیہ یا امریکہ سیٹل ہو جائوں لیکن اپنے ملک سے محبت ہے۔ اس مٹی سے پیار ہے۔ ستارہ امتیاز مل چکا ہے اب پرائیڈ آف پرفارمنس کے لیے نام جا چکا ہے۔ لاہور پریس کلب نے اعزازی ممبرشپ دے رکھی ہے۔ میں نے پوچھا، گٹار آپ کی پہچان بن چکی ہے کیا آپ اس کے بارے میں کچھ جانتے ہیں کہ یہ کہاں ایجاد ہوا اور بین الاقوامی گٹارسٹ کون ہیں؟
سجاد طافو نے مسکراتے ہوئے کہا۔
میں نے سب کو سنا ہے، پڑھا ہے، سمجھا ہے، گٹار اسپین میں ایجاد ہوا۔ اٹھارہویں صدی میں اسے عروج ملا ہے۔ سیمپین فریڈرک مارٹن ایک جرمن تھا جو امریکہ میں آ کر بس گیا اور گٹار اس کی پہچان بن گیا۔ اس کے علاوہ جمی سیج، ایرک کلپکٹن، جمی ہینڈرکس، البرٹ جانسن، ریڈوین ہیلن، سٹیورائے وین ہیلن، مارک نوفلر جس کو میں فالو کرتا ہوں۔ جیک بیری، بی بی کنگ بین الاقوامی شہرت رکھنے والے گٹارسٹ ہیں۔ تمام امریکی ہیں یا پھر مختلف خطوں سے آئے اور امریکی شہریت اختیار کر لی۔ ہالی ووڈ ہے اور اس کے علاوہ امریکہ فن کاروں کے لیے ایک بڑی مارکیٹ فراہم کرتا ہے۔ انہیں برانڈنیم بننے کے مواقع دیتا ہے۔
سجاد طافو نے موسیقی کے حوالے سے مختلف موسیقاروں کے بارے میں سلسلہ وار کالم بھی لکھے، وہ اس پر ایک کتاب شائع کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہے۔ ایک البم ’صوفی ساگا‘ آ چکا ہے اب دوسری البم بھی تیاری کے مراحل میں ہے۔ میوزک اکیڈمی اور دوسرے شہروں میں اپنے فن کو پہنچانے کا عزم۔ کئی سماجی مسائل کے بارے میں سجاد طافو نے جنگلز تیار کیے خود ہی نغمے لکھے اور موسیقی تیار کی اور انہیں سوشل میڈیا کے ذریعے عام شہریوں تک پہنچایا۔
سجاد طافو کا کہنا ہے وہ صبحدم پانچ بجے بیدار ہو جاتاہے۔ فجر کی نماز کی ادائیگی کے بعد دن بھر کا شیڈول سامنے ہوتا ہے اور پھر نو بجے گھر سے نکل آتا ہے۔ کچھ کام، ملاقاتیں اور پھر پریس کلب آ کر چار بجے تک الحمرا جا کر کلاس لینے کے لیے انتظار کرتا ہے۔ دوستوں سے خوش گپیاں ،چائے یا لسی یا گرمی کی حدت دور کرنے کے لیے سکنجبین اس کو مرغوب ہے جو وہ دوستوں کے ساتھ نوش کرتا ہے۔
پنج گانہ نماز کی ادائیگی اس کا وطیرہ ہے۔ محرم کے ایام یکم سے 10محرم تک اپنے آبائی گھر میں لنگر کا اہتمام اعزازداروں میں تقسیم اور مولا علی کی نسبت نواسہ رسول کی شہادت واقعہ کربلا کا ذکر اور سوگ کا وہ اور اس کے اہل خانہ پابند ہوتے ہیں۔ مذہبی شعائر کی پابندی کے باوجود اس نے کبھی مسلک یا فرقہ وارانہ تقسیم کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی پارسائی کا ڈھونگ رچایا ہے۔ وہ ایک لبرل فن کار ہے۔گذشتہ دنوں اس کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوگیا۔ سجاد طافو آخری دم تک اُن کے ساتھ رہا۔ اُن کی بہت خدمت کی اور ان کی جوتیوں کو اپنے سینے سے لگا کر رکھا۔ اس کا کہنا ہے کہ ’’آج میں جو کچھ بھی ہوں اپنی والدہ کی دعائوں کی بدولت ہوں وہ جاتے جاتے بھی مجھے اور میرے بچوں کو ڈھیروں دعائیں دے گئیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے۔ ہر نماز کے بعد ان کے لیے دعا کرتا ہوں۔‘‘
میں اس کی محنت اور اپنے نام کو اپنے فن کے باوصف زندہ رکھنے کی جستجو اور محنت کو دیکھ کر ساحر لدھیانوی کے اس شعر کو اس کی نذر کرتا ہوں:
جو تار سے نکلی ہے وہ دھن سب نے سُنی ہے
جو ساز پر گزری ہے وہ کس دل کو پتہ ہے
طاہر اصغر مصنف و صحافی ہیں ان کی دلچسپی کے موضوعات پروفائل اور آپ بیتی لکھنا ہے۔ وہ جالب بیتی اور منٹو فن و شخصیت کی کہانی کے مصنف ہیں۔ زیر طبع ناول ’’قصہ غوغا غٹرغوں‘‘ ہے ۔موسیقی اور ادب سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔