چیف جسٹس اس وقت کہاں تھے جب نواز شریف اور شہباز شریف کی والدہ کی میت آ رہی تھی اور عدالت میں شہباز شریف پر جرح کی جا رہی تھی؟ آج چیف جسٹس صاحب کو جیل میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی حالت زار کا خیال آ رہا ہے۔ یہ کہنا ہے مسلم لیگ ن کے رہنما عطاء اللہ تارڑ کا۔
ایک نجی نیوز چینل کے پروگرام میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال پر کڑی تنقید کرتے ہوئے عطا اللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر ہمیں اعتراض ہے کیونکہ یہ کیس ہم نے دائر کیا تھا۔ ن لیگ کے کچھ قانون سازوں نے سپیکر کو ریفرنس بھیجا جو الیکشن کمیشن گیا۔ اس ریفرنس کی بنیاد پر یہ مقدمہ درج ہوا۔ پاناما پر نہیں بلکہ نواز شریف کو اقامے پر نکالا گیا۔ سزا دلوانے کے لئے سپریم کورٹ کے مانیٹرنگ جج بیٹھے۔ عمران خان کے کیس میں آؤٹ آف دی وے جا کر، آؤٹ آف ٹرن بیٹھ کر سزا سے بچانے کی اور جیل سے نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو آپ کا اختیار ہی نہیں ہے۔ یہ وہ عمران خان ہیں جنہوں نے ریاست مدینہ کا نام لے کر، مسلم امہ کا لیڈر بن کر اور دو جھنڈے لگا کر گھڑیاں بیچ دیں۔
اس پر اینکر طلعت حسین نے کہا کہ عمران خان کو سزا ہو تو گئی ہے، اب آپ کیا چاہتے ہیں کہ باہر ہی نہ نکلیں؟ اس پر عطا تارڑ نے جواب دیا کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ملک میں 'رُول آف لا' ہو، 'رُول آف مدر-ان-لا' نہ ہو۔ آپ نے قانون کی بالادستی قائم کرنی ہوتی ہے۔ اپیل ٹرائل کی ایکٹینشن ہوتی ہے، اس ٹرائل کو مکمل کریں۔ پاکستان میں کوئی ایسا شہری ہے جس کی اپیل شام کو ہوتی ہے اور صبح سماعت کے لیے مقرر ہو جاتی ہے؟ کوئی شہری جو ٹرائل کے دوران 11 بار اسلام آباد ہائی کورٹ جائے اور اس کی 11 کی 11 پیٹیشنز کو مقرر کیا جائے؟ خواجہ حارث نے 2 مہینے اسلام آباد ہائی کورٹ میں صرف عدالتی و قانونی دائرہ کار اور اپیل کے قابل سماعت ہونے پر بحث میں گزار دیے۔
عطا تارڑ نے کہا کہ یہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال تب کہاں تھے جب میاں نواز شریف اور شہباز شریف صاحب کی والدہ وفات پا گئیں؟ شہباز شریف تب جیل میں تھے۔ انہیں عدالت میں پیش کیا گیا۔ جج صاحب نے کہا کہ میں نے جرح کرنی ہے۔ شہباز شریف نے استدعا کی کہ لندن سے میری والدہ کی میت آنی ہے۔ جج نے کہا کہ میت آتی رہے گی لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنی کراس ایگزامینیشن کروائیں۔ آپ یہ مکمل کریں گے تو جا سکیں گے۔ تب کہاں تھے چیف جسٹس صاحب جب ایک شخص کی والدہ کی میت آرہی تھی لیکن آج انہیں یہ خیال آ رہا ہے کہ جیل میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو کس حالت میں رکھا گیا ہے؟ اس ملک میں قانون کے دہرے معیار نہیں چلیں گے۔
22 نومبر 2020 کو مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور سابق وزیر اعظم شہباز شریف کی والدہ بیگم شمیم اختر لندن میں انتقال کر گئی تھیں۔ ان دنوں شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز بدعنوانی کے الزام میں لاہور کی جیل میں قید تھے۔ اُنہیں جیل میں ہی بیگم شمیم اختر کے انتقال کی خبر دی گئی تھی جس کے بعد شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی پرول پر رہائی کے لیے قانونی کارروائی کی گئی تھی۔
اس سے قبل ایک اور بیان میں عطا اللہ تارڑ نے کہا تھا کہ یہ کہنا غلط ہے فیصلہ عجلت میں سنایا گیا، دوران سماعت عدالت پردباؤ ڈالا گیا۔ کیس میں ایک جج نے اپنا ٹرانسفر کرا لیا۔ ملزم کی حاضری سے استثنیٰ کی 40 درخواستیں منظور ہوئیں۔ عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کو بار بار موقع دیا۔ وہ دیگر عدالتوں میں جاتے تھے لیکن اس عدالت میں پیش نہیں ہوتے تھے۔ ان کی مہربانی ہے کہ وہ 3 بار عدالت میں پیش ہوئے۔ تمام اعتراضات تکنیکی بنیادوں پر اٹھائے گئے۔
عطا تارڑ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کیس کے میرٹ پر جا کر کیس خراب کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر ہمیں اعتراض ہے۔ ٹرائل کورٹ کا فیصلہ ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔ ہائی کورٹ کے بعد کیس سپریم کورٹ میں آنا تھا، یہ ریمارکس اس وقت آتے تو ٹھیک تھا۔
واضح رہے کہ گذشتہ روز سپریم کورٹ میں توشہ خانہ کیس کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا تھا کہ جیل میں چیئرمین پی ٹی آئی کو کس حالت میں رکھا گیا ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل آفس سے کوئی کمرہ عدالت میں موجود ہے؟ معاون وکیل نے کہا کہ اس وقت اٹارنی جنرل کمرہ عدالت میں موجود نہیں ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمیں چیئرمین پی ٹی آئی کی جیل کی حالت زار بارے آفیشلی جواب دیا جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی حکومت چیئرمین پی ٹی آئی کو جیل میں دی گئی سہولیات سے متعلق تحریری جواب دے۔ ہائی کورٹ کیس سن رہی ہے، اس کا انتظار کریں گے۔ دیکھیں ہائی کورٹ کیا فیصلہ کرتی ہے۔ ممکن ہے ہائی کورٹ ریلیف دے دے۔ پہلے ہائی کورٹ کو فیصلہ کرنے دیں، اس کے فیصلے کے بعد ہم کیس سنیں گے۔