Get Alerts

رانا ثنااللہ کی رہائی کی کہانی: جب مسلم لیگی قیدی کی مدد کے لئے جناح ہاؤس حرکت میں آیا

رانا ثنااللہ کی رہائی کی کہانی: جب مسلم لیگی قیدی کی مدد کے لئے جناح ہاؤس حرکت میں آیا
یہ 1992 کی بات ہے، ان دنوں حکومتی ایوانوں میں خاموش طبع صدر غلام اسحاق خان کی ذات اقتدار و اختیار کا محور تھی۔ اسٹیبلشمنٹ کی تاریخ کے قابل اعتماد ترین بیوروکریٹ جو اس وقت شطرنج کے ایک منجھے ہوئے ماہر کھلاڑی کی طرح نت نئی چالیں چلنے میں مصروف تھے اور مقابلے پر تھی بھٹو کی بیٹی، اپوزیشن کی ایک نہایت ذہین، سمارٹ اور زیرک سیاست دان۔ بے نظیر بھٹو۔

میں روزنامہ جنگ سے اردو کے ایک نئے اخبار میں جا چکا تھا اور بدستور اپوزیشن کی رپورٹنگ کر رہا تھا۔ ایک روز صبح رپورٹرز کی میٹنگ ختم ہونے کے بعد میں ابھی دفتر ہی میں موجود تھا کہ مجھے چیف ایڈیٹر کا بلاوا آیا۔ کمرے میں چیف ایڈیٹر کے سامنے میز کے دوسری طرف 2 افراد بیٹھے تھے جو میرے دیدار کے بے تابی سے منتظر لگ رہے تھے۔ میں ایک طرف رکھے صوفے پر بیٹھ گیا جس کے بعد چیف ایڈیٹر نے ان حضرات کو بطور تعارف میرا نام بتاتے ہوئے کہا کہ لیں جی، یہ ہیں۔ اس پر میری طرف والی کرسی پر بیٹھے مہمان نے یک دم مڑ کر میری طرف دیکھا اور ڈائریکٹ مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے قدرے مشتعل لہجے میں پوچھا کہ آپ کو یہ سٹوری کس نے دی تھی؟ اس پر چیف ایڈیٹر نے میرے کچھ بولنے سے پہلے مجھے کمرے سے رخصت کر دیا۔ مجھ پر برہم ہونے والے صاحب راناثنااللہ تھے اور یہ میری اُن سے پہلی ملاقات تھی۔ ان کے ساتھ موجودہ وفاقی وزیر غلام سرور خان تھے۔ یہ دنوں بلترتیب فیصل آباد اور ٹیکسلا سے پیپلزپارٹی کے منتخب ایم این اے تھے اور ان دونوں میں اتنی گہری دوستی تھی کہ ان کی سیاسی جوڑی خاصی مشہور تھی۔



ایوان صدر ان دونوں جیالے ارکان اسمبلی کو صدر مملکت کے ساتھ پریذیڈنسی میں ڈنر پر ملاقات کے لئے رام کر چکا تھا اور صدر کے معتمد خاص روئیداد خان انہیں لینے کے لئے اسلام آباد ایئرپورٹ پہنچ چکے تھے۔ اس بات سے بے خبر کہ پی پی پی کی مقامی تنظیم سے تعلّق رکھنے والے درجنوں جیالے بھی فلائٹ سے اترتے ہی استقبال کی آڑ میں دونوں مہمانوں کو یرغمال بنانے کے لئے وہاں پہنچ چکے ہیں۔ تاکہ استقبالی جلوس کی آڑ میں پارٹی کے ممکنہ منحرفین کو پیشگی حفاظتی تحویل میں لے لیا جائے اور یوں 5 یورپی ملکوں کے دورے پر گئے پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر جہانگیر بدر کے ترتیب دیے گئے اس ہنگامی آپریشن کے ذریعے ایوان صدر میں غلام اسحاق خان سے ان کی ملاقات کا منصوبہ سبوتاژ کر دیا گیا۔ اسی بابت اگلی صبح فرنٹ پیج پر شائع ہونے والی میری سٹوری کے ردعمل میں دونوں جیالے اخبار کے دفتر آئے تھے۔

پھر جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت کا دور آیا، ایک روز پنجاب اسمبلی کی گیلری میں بیٹھے میں نے ایک ن لیگی ایم پی اے کو اپنی تقریر کے آغاز میں ہی ایوان کو فوجی افسران کی پروموشن کے حوالے سے ایک منفی، طنزیہ اور قدرے شرمناک واقعہ سناتے سنا۔ کچھ دنوں بعد ہی خبر آئی کہ ن لیگ کے ایک رکن پنجاب اسمبلی جسے نامعلوم افراد نے اٹھا لیا تھا، دوران تحویل سخت ایذا رسانی کے بعد مونچھیں اور بھنویں وغیرہ مونڈ کر چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ بھی خبریں آئیں کہ دوران حراست رکن اسمبلی کے جسم پر 22 جگہ کٹ لگا کر مرچیں ڈال کر ٹارچر کیا گیا۔ یہ پنجاب اسمبلی میں فوج مخالف تقریر کرنے والے ن لیگی رکن راناثنااللہ ہی تھے۔

بتایا جاتا ہے یہ آپریشن میجر سیف نامی افسر کو سونپا گیا تھا جو ان دنوں پنجاب میں ن لیگی و دیگر سیاسی باغیوں کو فکس کرنے کے حوالے سے خاصے بدنام تھے۔ بعد میں پنجاب کے بلدیاتی الیکشن ہینڈل کرنے کا ٹاسک بھی اسی افسر کو سونپا گیا تھا۔ پھر ایک وقت آیا کہ رانا ثنااللہ پیپلزپارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ (ن) کو پیارے ہو گئے۔



رانا ثنااللہ مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت کے انتہائی قریب اور قابل اعتماد شخصیات میں شامل ہو گئے۔ پھر 2014 آیا، سانحہ ماڈل ٹاؤن ہوا، لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن نے تحقیقات شروع کر دیں۔ انکوائری کمیشن کی کارروائی کے آخری دنوں میں وزیراعلیٰ شہباز شریف کا ایک اہم  لیفٹیننٹ کمیشن کو اپنا بیان ریکارڈ کروانے کے بعد ہائیکورٹ کے فین روڈ والے گیٹ سے باہر نکلا تو اپنے حق میں زور شور سے نعرے لگاتے درجنوں متوالوں کے حصار میں تھا جسے ایک پرستار نے اپنے کندھوں پر اٹھایا ہوا تھا۔ دلخراش سانحہ کے حوالے سے گواہی کے لئے پیش ہونے والا یہ شخص پھولوں کے ہار پہنے وکٹری کے نشان بنا رہا تھا۔ یہ بھی راناثنااللہ ہی تھے۔

کچھ عرصہ پہلے جب ایک لائیو ٹی وی ٹاک شو میں پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے مریم نواز کو مسز صفدر کہہ کے پکارا تو شو میں موجود ایک ن لیگی رہنما نے پلٹ کر جواب دیا کہ انہیں بتا دیں کہ دوبارہ انہوں نے یہ زبان استعمال کی تو میں مانیکا ہاؤس سے شروع ہو کر بنی گالہ اور کنٹینر پر سعید کی چیخوں تک جاؤں گا۔ اگلے ہی روز اس لیگی رہنما کو موٹروے سے 25 کلوگرام منشیات سمیت دھر لیا گیا۔ یہ بھی کوئی اور نہیں، رانا ثنااللہ ہی تھے۔ گرفتاری کے وقت سے ہی راناثنا اللہ کی اہلیہ اپنے شوہر کی مدد کے حوالے سے متحرک ہو چکی تھیں۔ اس قدر متحرک کہ اس خاتون خانہ نے اکیلے، وزیراعظم نواز شریف کی بیٹی مریم نواز کو میسر پورے میڈیا سیل کے مساوی میڈیا مہم چلائی، یہاں تک کہ جب عدالت کے لئے مطلوبہ ویڈیو پیدا کرنے کی غرض سے ایک جعلی رانا ثنااللہ کی گرفتاری اور جائے وقوعہ سے منشیات کی برآمدگی کی ویڈیو بنانے کی مبینہ کوشش کی گئی تو نبیلہ رانا نے اسے بھی عین وقت پر طشت از بام کر ڈالا۔

الیکڑانک میڈیا پر اپنے دوسرے یا تیسرے انٹرویو میں نبیلہ رانا نے جب یہ کہا کہ عامر بندیشہ نامی شخص جیل میں آ کر رانا صاحب کو نشہ آور ادویات انجیکٹ کرتا ہے تو میں نے خود ان سے اس بابت پوچھا تھا۔ ڈاکٹر عامر بندیشہ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے بانی رہنماؤں میں شامل اور اتفاق سے سرکاری کارڈیالوجی ہسپتال میں میرے کنسلٹنٹ ہیں۔ بظاہر تو انہوں نے اس کی تردید کی تاہم میرے اصرار پر اس الزام کے پس منظر پر روشنی ڈالی۔



رانا ثنااللہ کو جیل میں تنگ سی کوٹھڑی میں بند رکھنے، فرش پر سلانے سمیت مختلف طریقوں سے اذیتیں دیے جانے سے پریشان ان کی اہلیہ شوہر کی سیاسی، قانونی اور دیگر حوالوں سے مدد کے لئے نوازشریف، شہباز شریف سمیت ن لیگ کی اعلیٰ قیادت سے رابطہ کرتی رہی مگر بتایا جاتا ہے کہ بار بار فریاد کے باوجود شریف فیملی نے اس سلسلہ میں ضروری دلچسپی نہ دکھائی۔

مسز رانا ثنااللہ نے بالآخر پارٹی قیادت کے رویے سے مایوس ہو کر دوسری طرف والوں سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ ذرائع کے مطابق خاتون خانہ کی اس سلسلہ میں کوششیں پچھلے 1 ماہ سے زائد عرصہ سے جاری تھیں، قیدی کی بیوی نے جناح ہاؤس کے مکین یعنی لاہور میں تعینات اعلیٰ ترین عسکری شخصیت سے ملاقات بھی کی اور ضروری یقین دہانیاں حاصل کر لینے کے بعد ایک مسلم لیگی قیدی کی مدد کے لئے بالآخر جناح ہاؤس ہی حرکت میں آیا۔ کیونکہ، بالائی حلقوں نے اس منصوبے کی منظوری دے دی تھی کہ ن لیگ کی لگ بھگ ساری قیادت بیرون ملک اور باقی ماندہ اندر ہونے کے نتیجے میں بالخصوص پنجاب میں ن لیگی لیڈرشپ کا جو خلا پیدا ہو گیا ہے۔

رانا ثنااللہ کو واپس میدان میں لانے سے نہ صرف اسے مطلوبہ اہداف کے مطابق پر کرنے کی کوشش کی جا سکے گی بلکہ مریم نوازشریف کے کسی بھی وقت متحرک ہو جانے کا خطرہ ٹالنے میں بھی مدد ملے گی، جو پیچھے پاکستان میں رہ جانے والی شریف فیملی کی آخری اہم سیاسی شخصیت ہیں۔