ریاستی طاقت کے دس عالمگیر اصول

ریاستی طاقت کے دس عالمگیر اصول
ڈی جی آئی ایس آئی کی حالیہ تقرری پر وفاقی حکومت کے اندر ہونے والے تنازعے نے قانونی ماہرین اور عوام کے ذہن میں ریاستی طاقت کی بابت کئی اہم سوالوں کو جنم دیا ہے۔ طاقت بالعموم کیا ہوتی ہے؟ ریاستی طاقت بالخصوص کیا ہوتی ہے؟ کیا اس طاقت کا مظہر پیسہ، ہتھیار، ملازم، سائنس، مذہب، حسن یا جادو میں سے کوئی ایک ہے؟ یا ان سب کا آمیزہ؟ یا ان میں سے کوئی بھی نہیں؟ کیا ریاستی طاقت ہمیشہ ایک شخص کے پاس ہوتی ہے یا اس کے دو یا زیادہ مالک ہو سکتے ہیں؟ اس بحث میں اداروں کا کیا کردار ہے؟ اور عام شہریوں کا؟ اور معذور افراد اور جنسی اقلیتوں کا؟ ریاستی طاقت کیسے حاصل کی جاتی ہے؟ اس کو استعمال کیسے کیا جاتا ہے؟ اس کو تباہ کیسے کیا جاتا ہے؟ صورتحال اتنی سنجیدہ ہے کہ ہمیں ان سادہ مگر اہم سوالوں کے جواب درکار ہیں۔

عموما ہر ملک کے حکمراونوں اور علماء کو ان سوالوں کے جواب پتہ ہوتے ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ملک میں رہنے والے لوگ کافی صدیوں سے ایک ہی تخت یا ریاست کے تابع ہوتے ہیں۔ اور وہ کافی حد تک ان پیچیدگیوں سے واقف ہوتے ہیں جن کو صرف ان بنیادی سوالوں کے واضح جواب دیے کر ہی حل کیا جاسکتا ہے۔

لیکن پاکستان ایک کافی انوکھا ملک ہے۔ 1947 میں وجود میں آنے سے پہلے تاریخ میں کبھی بھی زمین کا یہ ٹکڑا کسی دیسی بادشاہ یا ریاست کے زیر انتظام نہیں رہا۔ اوپر سے انگریز جاتے ہوئے ہمیں ریاست اور انتخابات کے تحفے دے گئے۔ 11 اگست سے ہی فساد شروع ہو گیا اور چوہتر برس بعد بھی مجال ہے کہ کسی کو بھی کچھ سمجھ آئی ہو کہ ریاست اور انتخابات کی مستقل اور حتمی شکل کیا ہونی چاہیے۔ فی سبیل اللہ کسی اور ملک نے بھی ہمیں ریاست سازی کا کوئی گر نہیں بتایا۔اسی وجہ سے اب تک ہم نے اسلامی و سیکولر، صدارتی و پارلیمانی، مرکزی اور بلدیاتی، مخلوط اور نگران، فوجی و عوامی و عدالتی، بغاوت اور خانہ جنگی۔۔۔ غرض ہر طرح کا نظام حکومت آزما کر دیکھ لیا ہے لیکن تشفی نہیں ہوئی۔ لہذا ہماری قومی و ریاستی تاریخ آج بھی وہیں کھڑی ہے جہاں 11 اگست 1947 کو کھڑی تھی۔

لیکن ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ اتنے زیادہ تجربات کو دیکھتے ہوئے اب کوئی بھی گریجویٹ ان بنیادی اصولوں کو سمجھ سکتا ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں اور تاریخ کے تمام ادوار میں ریاست کی تعمیر و تخریب کے لئے استعمال ہوتے چلے آ رہے ہیں۔

آپ سوچ رہیں ہوں گے کہ ماکیاویلی نے یہ اصول 500 سال پہلے بتا دیے تھے، مگر یہ غلط ہو گا۔ ماکیاویلی نے صرف یہ بتایا تھا کہ ایک بادشاہ اپنی ریاست کیسے برقرار رکھ سکتا ہے۔ ریاستی طاقت کی بنیادی فطرت اور کردار پر اس نے کچھ خاص روشنی نہیں ڈالی۔

حقیقت یہ ہے کہ بظاہر تو ریاستی طاقت انسانی معاشروں میں ایک سماجی عمل کا نام ہے، لیکن اصل میں یہ بذات خود ایک وجود ہے، جو کچھ خاص عالمگیر اصولوں کے تابع ہوتا ہے جن کا ظہور مستتقبل بعید، یعنی 10 سے 25 سال میں ہوتا ہے۔ ان میں سے دس سب سے اہم اصول، بمع مثال، عوامی فلاح کے لئے درج ذیل ہیں۔

1۔ تعریف اور ترکیب: ریاستی طاقت معاشرے کے تمام افراد کے اجتماعی تخیل کا نام ہے، جو ایک بادل کی طرح ان سب کے سروں پر منڈلاتا ہے۔

یعنی کہ باہمی رواداری اور مشاورت کے بغیر ریاست کا وجود ممکن ہی نہیں ہے۔ اسی وجہ سے خلیفہ دوم حضرت عمر نے فرمایا تھا: "اگر نہر فرات کے کنارے کوئی بکری کسی سبب سے ہلاک ہو جائے تو مجھے اندیشہ ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالی مجھ سے اس کی بازپرس فرمائے گا" (حلیتہ الاولیاء، دارالاشاعت، کراچی، 2006,  صفحہ 63)۔ اسی طرح پاکستان میں حال ہی میں مخلوط جنس والے لوگوں کو ملنے والے شناختی حقوق بھی اسی اصول کا مظہر ہیں۔

2۔ مقصد: ریاستی طاقت معاشرے کے تمام افراد کے درمیان اعتماد اور بھروسے کی فضا پیدا کرتی ہے۔

معاشرے میں تمام گفتگو اور کاروبار اسی اعتماد کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ اس کی سب سے مشہور مثال امریکی کرنسی نوٹوں پر لکھا یہ جملہ ہے: "ہم خدا پر بھروسہ رکھتے ہیں"۔ امریکہ چونکہ ایک سیکولر ملک ہے لہذا یہ جملہ کاروباری اعتماد کا ایک عام فہم اظہار ہے۔

3۔ ڈھانچہ: ریاستی طاقت کے تین جزو ہیں - مقننہ، انتظامیہ، اور عدلیہ۔

تاریخی طور پر یہ تینوں اختیار بادشاہ کے پاس ہوتے تھے، یعنی وہ قانون ساز بھی تھا، منتظم اعلی بھی، اور منصف اعلی بھی۔ تاہم امریکہ دنیا کا پہلا ملک تھا جہاں ان تین اختیارات کو تین علیحدہ اداروں کے سپرد کیا گیا۔

4۔ شکل: ریاستی طاقت ایک وقت میں صرف ایک منظم یا مجسم شکل اپنا سکتی ہے۔ اور اس کی بھی صرف دو ممکن اشکال ہیں: بادشاہ یا تحریری آئین۔

یعنی ایک ملک میں بیک وقت دو بادشاہ نہیں ہو سکتے، نہ ہی دو آئین، اور نہ ہی آئین اور غیر آئینی بادشاہ کا ملغوبہ۔ پاکستان کی موجودہ مخلوط حکومت میں بھی دو بادشاہ ہیں: وزیر اعظم اور آرمی چیف۔ اس لئے اس حکومت کے پانچ سال پورے ہونے کا امکان بہت کم ہے۔

5۔ طریقہ کار: ریاستی طاقت صرف اور صرف بزرگوں کے اتفاق رائے کے ذریعے کام کر سکتی ہے۔

اسی وجہ سے ترقی یافتہ ملکوں میں آئین بنانے یا اس میں ترمیم کے لئے اضافی اکثریت بلکہ تقریبا اجماع کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اسی اصول کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے 1970 کے عام انتخابات کے بعد مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہو گیا۔

6۔ حجم: ریاستی طاقت پھیلتی ہے یا سکڑتی ہے، مگر کبھی ساکن نہیں رہتی۔

پھیلتے ہوئے یہ سامراج، نیم وفاق یا وفاق کی شکل اختیار کرتی ہے۔ اور سکڑتے ہوئے یہ بیرونی ریاستوں کے قبضے میں چلی جاتی ہے۔ مثلا، ابتدائی اسلامی فتوحات کی وجہ نہ صرف یہ تھی کہ مسلمان ریاست داخلی طور پر ہم آہنگ اور مضبوط تھی بلکہ یہ بھی تھی کہ ایرانی اور بزنطینی ریاستیں داخلی کمزوری کا شکار ہو چکی تھیں۔ نیم وفاقی یورپین یونین کا قیام بھی اسی اصول کا مظہر ہے۔ اسی طرح پاکستان میں آئے دن کی فوجی سر کشیاں، سیاسی بد عنوانیاں، صوبائی بغاوتیں اور عوامی احتجاج ایک غیر مستحکم اور لگاتار سکڑتی ہوئی ریاست کی علامات ہیں۔

7۔ حدود: طبیعاتی اور ما بعد از طبیعاتی وسائل کا ریاستی طاقت سے براہ راست کوئی واسطہ نہیں ہے۔

پیسہ ہو یا ہتھیار، زلزلہ ہو یا طوفان، جادو ہو یا بھوت۔۔۔ ریاست کو ان سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ریاست صرف  ایک ملک کے شہریوں کے درمیان اعتماد کا نام ہے اور جب تک یہ اعتماد قائم رہے، ریاست کو دنیا کی کوئی طاقت تباہ نہیں کر سکتی۔ یعنی، ریاست فطری طور پر سیکولر اور حقیقت پسند ہوتی ہے۔ اس اصول کی بہترین حالیہ مثال افغان طالبان ہیں جو اسلام پر اتفاق رائے کی بنیاد پر بیس سال تک امریکہ سے جنگ لڑتے رہے اور اب واپس حکومت میں آچکے ہیں۔

8۔ مشکل ترین صورت: ہر معاشرے میں ہمیشہ کم از کم ایک بادشاہ ضرور موجود ہوتا ہے۔

یعنی طوائف الملوکی کی حالت میں بھی ایک شخص ایسا ضرور ہوتا ہے جو اگر کوشش کرے تو ریاست سازی کے اصول سیکھ کر اپنی قوم کو متحد اور مربوط بنا سکتا ہے۔ پاکستان میں 1947 سے لے کر اب تک طوائف الملوکی ہی چل رہی ہے۔ اس محرر کے خیال میں ہمارے "اتفاقیہ بادشاہ" یا تو قدرت اللہ شہاب تھے یا شریف الدین پیرزادہ، مگر افسوس کہ یہ دونوں حضرات اپنی صلاحیت اور رتبے کو بروئے کار نہ لا سکے۔

9۔ بد ترین صورت: ریاستی طاقت کی غیرموجودگی میں جنگل کا قانون چلتا ہے۔

ریاست نہ ہو تو ہر شخص خود کو بادشاہ کہلوا سکتا ہے مگر اس کی حکومت اپنے ملازمین تک محدود رہتی ہے۔ اعتماد اور انصاف نا پید ہو جاتے ہیں اور ہر روز نئے سانحے رونما ہوتے ہیں۔ مزید براں، اجتماعی تخیل کا بادل تحلیل ہو کر کچھ عام لوگوں پر نازل ہو جاتا ہے جس سے ان کو اپنے پاس "روحانی طاقت" ہونے کا وہم ہو جاتا ہے۔

پاکستان چوہتر سال سے در حقیقت جنگل کے قانون پر ہی چل رہا ہے۔ ایسی طوائف الملوکی کی ایک اور اچھی تاریخی مثال "انارکی" ہے جو بارہویں صدی عیسوی میں انگلینڈ میں برپا ہوئی، جس کے دوران سینکڑوں نئے قلعے تعمیر ہوئے اور ایک بار ایسا بھی ہوا کہ لندن کی عوام نے ایک ملکہ کی تاج پوشی کو ہنگامہ کر کے رکوا دیا باوجود اسکے کہ ملکہ جنگ بھی جیت چکی تھی اور کلیسا کی حمایت بھی حاصل کر چکی تھی۔

10۔ عام فہم مثال: ریاست سازی گیند سے کیچ کھیلنے کی طرح ہے۔

کیچ کھیلنا شاید دنیا کا آسان ترین کھیل ہے۔ اور ریاست بھی اسی کھیل کی طرح چلتی ہے۔ یوں سمجھئے کہ ایک گیند ہے جس کو تمام شہری ایک دائرے میں کھڑے ہو کر ایک دوسرے کو کیچ پھینک رہے ہیں۔ کیچ پکڑنا ضروری نہیں لیکن جب تک گیند حرکت میں رہے گی، ریاست چلتی رہے گی، لیکن جیسے ہی کوئی شہری گیند کو چھیننے یا مستقل اپنے پاس رکھنے کی کوشش کرے گا، گیند اور دائرہ دونوں غائب ہو جائیں گے اور پیچھے صرف فساد اور جہالت رہ جائیں گے۔ دوسرے لفظوں میں، جو لوگ ریاستی طاقت کے ساتھ کھیلنا نہیں جانتے، ریاستی طاقت ان لوگوں کے ساتھ کھیل کر جاتی ہے۔