الیکشن کمیشن میں مذکورہ حلقے میں ضمنی انتخاب کے دوران مبینہ دھاندلی کے خلاف دائر کردہ درخواست میں مسلم لیگ (ن)کی امیدوار نوشین افتخار نے پورے حلقے میں دوبارہ انتخاب کا مطالبہ کیا تھا جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے ان 20 پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کی درخواست دی تھی جن کے نتائج روکے گئے تھے۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے این اے 75 مبینہ انتخابی دھاندلی کیس کی سماعت کی۔
الیکشن کمیشن نے حکم دیا ہےکہ حلقے میں الیکشن کے لیے سازگار ماحول نہیں تھا جس کے بعد الیکشن کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔
الیکشن کمیشن نے حلقے میں 18 مارچ کو دوبارہ پولنگ کا حکم دیا ہے ۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ الیکشن میں جو امیدواروں کو ماحول دیا گیا وہ منصفانہ نہیں تھا، فری اور فیئر ماحول میں الیکشن کا انعقاد نہیں ہوسکا جس کی بنا پر اس الیکشن کو کالعدم قرار دیا گیا ہے۔
لیکشن کمیشن کے فیصلے پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما محمد زبیر کا کہنا تھا کہ دھاندلی کرنے کے لیے مکمل سازش کی گئی تھی لیکن حکومت کے حربے ناکام ہوئے، عمران خان سازش میں سب سے آگے تھے۔
انہوں نے کہا کہ آج سے عدم اعتماد ہوچکا، ان کی حکومت کا دھڑن تختہ ہوچکا، کس کس نے سازش کی جب تک سامنے نہیں آئے گا، انصاف نہیں ہوگا۔
واضح رہے کہ این اے 75 ڈسکہ کے ضمنی الیکشن میں بدنظمی دیکھنے میں آئی تھی جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق ہوئے جب کہ 20 پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج تاخیر سے ملنے پر الیکشن کمیشن نے اس حلقے کا نتیجہ روک لیا تھا۔
مسلم لیگ (ن) نے این اے 75 کے پورے حلقے میں دوبارہ پولنگ کا مطالبہ کیا تھا۔