لاھور کے حلقہ این اے 133 میں ایک ضمنی الیکشن ہونے جا رہا ہے یہ سیٹ مسلم لیگ ن کے پرویز ملک کے انتقال کے بعد خالی ہوئی ہے ،اس حلقہ میں ہونے والی مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی ہے جس میں ووٹر کو پیسے دینے کے عوض ووٹ فروخت خریدے جا رہے ہیں۔
1985 کے الیکشن وطن عزیز میں نظریات کے خاتمے کے الیکشن تھے اس کے بعد نواز شریف نے پلاٹوں کی سیاست اور لفافوں کی صحافت کا آغاز کیا اور وہ لاہور شہر جہاں سے ڈاکٹر مبشر حسن ،شیخ رشید احمد ،ملک معراج خالد،سلمان تاثیر، پروز صالح، جسے دانشور منتخب ہوتے تھے بعد میں قبضہ گروپ اور دیگر جراہم پیشہ افراد الیکشن جیتنے لگ گئے۔
یہ شہر اب مسلم لیگ ن کا گڑھ ہے اور جس حلقہ میں ضمنی انتخاب ہونے جا رہا ہے وہاں سے مسلم لیگ ن کی امیدوار باآسانی الیکشن جیت جائیں گی کیونکہ تحریک انصاف اپنی ناقص حکمت عملی کے باعث الیکشن سے باہر ہو گئی ہے اور پیپلز پارٹی کے اسلم گل جیت نہیں سکتے مگر اس کے باوجود نون لیگ کی ویڈیو کا منظر عام پر آنا بتاتا ہے کہ عادتیں بدل نہیں سکتیں۔
مجھے گلزار صاحب کی شہرہ آفاق فلم اجازت کا ایک منظر یاد آیا جس میں ریکھا اور نصیرالدین شاہ میاں بیوی ہوتے ہیں مگر طلاق ہو جاتی ہے، کچھ عرصے بعد اتفاقی طور پر ان کی ایک ریلوے اسٹیشن کی انتظارِ گاہ میں ملاقات ہو جاتی ہے وہاں بات چیت کے دوران نصیرالدین شاہ سگریٹ پینے کے لئے ماچس تلاش کرتے ہیں تو ریکھا ماچس دہیتی ہیں، نصیرالدین شاہ پوچھتا ہے کہ تم نے بھی سگریٹ نوشی شروع کر دی؟ دیکھا انکار میں سر ہلا کر کہتی ہیں ،نہیں تمہاری ماچس بھولنے کی عادت نہیں گئی میری رکھنے کی عادت نہیں گئی۔
مسلم لیگ ن کے ساتھ بھی ہی مسئلہ ہے وہ چاہے الیکشن جتنے کی پوزیشن میں ہی کیوں نہ ہو مگر ووٹ خریدنے کی عادت ختم نہیں ہو سکتی ،وسیے ویڈیو سے یاد آیا یہ کلچر بھی نون لیگ نے ہی شروع کیا۔ پہلے جج ارشد ملک کی ویڈیو پھر ثاقب نثار صاحب کی جعلی ویڈیو منظرنامے پر لائے اب انکی اپنی دو ویڈیوز سامنے آگئی ہیں، ایک ووٹ خریدنے کی اور دوسری مریم نواز کی ان ٹی وی چینلز کو اشتہار نہ دینے کی ہدایت جو انکے خلاف ہیں اس سارے عمل میں مسلم لیگ ن کا ووٹ کو عزت دینے کا بیانیہ دفن ہو گیا ہے۔
جو ووٹ پیسے دے کر قمیے والا نان اور بریانی کی پلیٹ کے بدلے لیا جائے وہ کبھی بھی عزت کے قابل نہیں رہتا اس طرح رسوائی کا باعث بن جاتا ہے ،جیسا کہ پچھلی سطور بالا میں لکھا گیا کہ وطن عزیز میں لفافہ صحافت بھی خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرنے والے، منی لانڈرنگ کرنے والے انقلابی جو عدالت کے مفرور نواز شریف نے ہی شروع کی وہ صحافیوں کو نوازنے کا فن خوب جانتے ہیں۔ کبھی چیئرمین پیمرا لگا کر اور کبھی سنیٹر بنا کر کبھی چیئرمین کرکٹ بورڈ لگا کر باقی نچلے درجے کے صحافیوں کے لفافے مقرر ہیں یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز کی سیاست اور صحافت دونوں ہی آلودگی کا شکار ہیں۔
اسیے میں حقیقی معنوں میں تبدیلی کی خواہش پوری نہیں ہو سکتی، 1966 کے بعد وطن عزیز میں جو نظریات کی سیاست کی لہر اٹھی تھی وہ اب دفن ہو چکی ہے اب مفادات کی سیاست ہے، پیسے کی سیاست ہے، کوئی بھی مڈل کلاس دانشور پروفیسر ، ڈاکٹر ،صحافی ،ادیب گویا کوئی صاحب علم فرد سیاسی منظرنامے پر نظر نہیں آتا۔ سرمایہ دارانہ نظام نے یہاں نظریات پس پشت میں ڈال دیے جہاں نظریاتی سیاسی کارکنوں کی ضرورت نہیں صرف اور صرف بریانی کی پلیٹ اور قمیے والے نان کھانے والے شاختی کارڈز نمبروں کی ضرورت ہے۔
حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔