'این اے 133 میں کم ٹرن آئوٹ، ن لیگ کو سیاسی اور انتخابی حکمت عملی بارے سوچنا ہوگا'

'این اے 133 میں کم ٹرن آئوٹ، ن لیگ کو سیاسی اور انتخابی حکمت عملی بارے سوچنا ہوگا'
رضا رومی نے کہا ہے کہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 133 کے ضمنی الیکشن نے مسلم لیگ (ن) کا مفروضہ غلط ثابت کر دیا ہے کہ اگر کل الیکشن کروا لیں تو ہم سویپ کریں گے۔ ان انتخابات میں ان کے ووٹوں کا مارجن کم ہوا، انھیں انتخابی اور سیاسی حکمت عملی بارے سوچنا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی جانب سے حکومت مخالف مارچ کیلئے آئندہ سال کی تاریخ دینا بالکل بےکار ہے کیونکہ اس وقت ویسے ہی الیکشن کا سال شروع ہو جائے گا۔ یہ معاملہ ڈنگ ٹپائو لگتا ہے۔

نیا دور ٹی وی کے پروگرام '' خبر سے آگے'' میں ملکی سیاسی صورتحال پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کوئی بڑی تبدیلی نہیں ہونے والی، اسی تنخواہ پر سب کو گزارا کروایا جائے گا۔ اگلے سال کے آخر تک یہ کام اسی طرح سے ہی چلے گا۔ حکومت کے جانے کی باتیں صرف قیاس آرائیاں، کچھ بھی نہیں ہونے والا۔

پروگرام میں شریک رائے شاہنواز کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کا این اے 133 کے انتخابی مقابلے سے باہر ہو جانا ٹرن آئوٹ کم ہونے کی بڑی وجہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) اس کو یکطرفہ الیکشن سمجھ رہی تھی، اس لئے ان کے کارکنوں میں بھی کمپین کے حوالے سے کوئی جوش وخروش دیکھنے میں نہیں آیا۔ ان کے مقابلے میں پیپلز پارٹی بہت متحرک دکھائی دی۔ انہوں نے پی ٹی آئی اور ٹی ایل پی کی غیر موجودگی کو بہت اچھی طریقے سے استعمال کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بات رد نہیں کی جا سکتی کہ این اے 133 کے ضمنی الیکشن میں ووٹوں کیلئے پیسوں کا استعمال کیا گیا کیونکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں نے الیکشن کمیشن میں اس معاملے کا نوٹس لینے کیلئے اپنی اپنی درخواستیں جمع کرائی ہیں۔ الیکشن کمیشن نے اس پر جو سٹینڈنگ آرڈر جاری کئے ہیں اس میں پیسوں کے لین دین کے معاملے میں ملوث لوگوں کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے۔

مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ این اے 133 کا ضمنی الیکشن ورلڈ چیمپئن اور کوالیفائنگ ٹیم کے درمیان میچ تھا۔ ن لیگ نے اپنی کمپئین ہی نہیں کی جبکہ دوسری جانب پیپلز پارٹی نے پوری قوت سے الیکشن لڑا۔ تاہم جیت پھر بھی ن لیگ کے ہی حصے میں آئی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ حلقے میں اوپن بولی لگ رہی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق 30 سے 40 کروڑ روپیہ حلقے میں تقسیم کیا گیا جس کے نتیجے میں ووٹ باہر نکلا۔ اگر پی ٹی آئی میدان میں اترتی تو ن لیگ بھی پیسے ڈال دیتی۔ پیپلز پارٹی کے مقابلے میں انہوں نے یہ کام کرنا مناسب ہی نہیں سمجھا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ہم گھر بیٹھ کر ہی یہ انتخاب جیت چکے ہیں۔

پی ڈی ایم کے مارچ کے معاملے پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سب اس ماحول کو بنتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ کراچی میں ایم کیو ایم اور ن لیگ کے رہنما اکھٹے بیٹھ کر پریس کانفرنسز کر رہے ہوتے ہیں۔ پنجاب میں چودھری برادران جبکہ جی ڈی اے بھی ناراض بیٹھی ہے۔

مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ مجھے لگتا ہے پی ڈی ایم والوں نے استعفوں کا معاملہ بھی ٹال دیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ مارچ 2022ء تک کچھ ہونے کا اشارہ ہے، انھیں کسی نے امید دلوائی ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ اگر حکومت کو ہٹانا یا اس کیخلاف احتجاج کرنا ہے تو اس کیلئے مارچ کا انتظار کرنے کی ضرورت کیا ہے؟