1984: مخالف سے کٹھ پتلی بننے تک کی کہانی

1984: مخالف سے کٹھ پتلی بننے تک کی کہانی
جارج اورویل کے دو شاہکار ناول ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے۔ ادب سے جس کا بھی تعلق ہے اس نے یہ ناول ضرور پڑھا ہوگا۔ ظاہر ہے، یہ ناول ہے ہی اتنا زبان زدِ عام۔ باقی لکھاریوں کی طرح انہوں نے کہانی کو بے جا طویل نہیں کیا، جتنی اس کی طوالت بنتی تھی اتنی ہی بنائی ہے۔ جس دور میں وہ لکھ رہے تھے اس دور کے باقی لکھاری، زیادہ تر، کہانی کو کھینچتے تھے، مگر انہوں نے ایسا ہرگز نہیں کیا۔

پورے ناول میں لکھاری نے عوام پر حکمران کی جبریت کی منظر کشی کی ہے۔ کہ طاقتور، جو حکمران ہیں، وہ کس طرح محکوم سے اس کے سوچنے، سمجھنے، محسوس کرنے کی حس چھین لیتے ہیں۔ ان کے احساسات پر اس طرح قابض ہو جاتے ہیں کہ جو وہ چاہتے ہیں وہی وہ سوچتے ہیں۔ اس کے علاوہ اور کیا جبر ہو گا جو کوئی کر سکتا ہے۔



اگر کارل مارکس کے نظریے سے دیکھا جائے تو جس کے پاس پیسہ ہے وہ حاکم ہے اور جو اس سے محروم ہے، وہ محکوم۔ یعنی پیسوں کی جانبدار تقسیم کی بابت یہ ہوا اور پھر اسی کی وجہ سے امیروں نے غریبوں پر حکومت کی۔ مگر یہ کوئی زیادہ پختہ نہیں لگتا۔ کیونکہ اس میں نظریہ نہیں ہے۔ پیسے اکٹھے کرنا تو کوئی پختہ نظریہ نہیں، بلکہ نظریہ تو وہ ہوگا کہ پیسوں سے کیا خریدنا ہے۔ اور اگر پیسوں سے جنت خریدی جائے تو اور کیا چاہیے! یہ ہی اصل میں ہوا۔ John Calvin نے تقدیر کا نظریہ دے دیا اور یہ دعویٰ کیا کہ جو جنتی ہے اور جو دوزخی وہ پہلے سے ہی طے ہے۔ لیکن یہ پتا کیسے چلے گا کہ کون جنتی اور کون دوزخی؟ اس کا جواب اس دنیا میں ڈھونڈو، جس پر خدا کی رحمت وہ جنتی اور جس پر نہیں وہ دوزخی۔ سو جو امیر وہ جنتی اور جو نہیں وہ دوزخی اور اس کے دوزخی ہونے کی وجہ بھی وہ خود ہی ہے۔ بس پھر اس حقیر پر جس کو خدا نے پیدائش سے ہی جہمنی بنا دیا ہے اس پر ہم کیوں مہربانی کریں؟ سو اب کوئی مہربانی نہیں کرتا، ظلم ہی کرتے ہیں۔

اس ناول میں جو بھی حکمران عوام کے ساتھ کر رہے ہیں اس کا پسِ منظر ہے۔ مگر صرف پیسہ ہی نہیں جو طاقت لاتا ہے۔ طاقت خود طاقت لا سکتی ہے۔ یعنی اس معاشرے میں ضروری نہیں کہ جو امیر ہو اس کے ہاتھ میں اداروں کی رگ ہو۔ ایسا نہیں۔ ایک عام پولیس والا جس کی تنخواہ اتنی نہیں ہے وہ بھی اپنے عہدے کے مطابق طاقت رکھتا ہے۔ اور وزیر اعظم کی بھی کوئی دس بیس لاکھ تنخواہ نہیں ہوتی لیکن اس کے ہاتھوں میں پورا ملک ہوتا ہے۔ ایسا ہی اس ناول میں بھی ہے۔ صرف ہاتھوں کی رسائی جن جگہوں پر ہوتی ہے، اور حکومت کی ہر جگہ پر ہوتی ہے، سو وہ ہر زاویے سے ہر شے کو قابو میں کر لیتی ہے۔



George Orwell کا گویا یہ محب موضوع ہے۔ انہی کے ایک مضمون “How the Poor Die” میں انہوں نے امیروں کے لئے مختص نظام اور غریبوں کے لئے نظامِ ہسپتال میں جتنا تضاد ہے اس کو متاثر کُن انداز میں بیان کیا ہے۔ وہ رحم کریں بھی کیوں؟

جس طرح غلام عباس کے افسانے "کتبہ" میں بیان کیا گیا ہے کہ عام لوگوں کی عام سی خواہشات ہوتی ہیں اور ان کو عام لوگ ہی پورا کر سکتے ہیں مگر وہ عام لوگ عام لوگوں سے امید لگاتے ہی نہیں۔ ان کی امیدیں جس طرح شریف حسین نے اپنے باس سے لگا لی تھیں کہ اس کی ترقی ہو جائے گی لیکن ایسا نہ ہوا۔ اس کے باس کے ہاتھ میں پورا کنٹرول تھا، اور شریف حسین کی محنت کے باوجود بھی اس نے اس کی ترقی نہیں کی اور شریف حسین نے جو کتبہ اپنے مکان میں لگوانا تھا، آخر اس کی لحد پر لگ گیا۔ ایسا ہی اس ناول میں بھی لکھاری نے بتایا ہے۔

کہانی کا جو بنیادی کردار ہے وہ غور و فکر کرتا ہے مگر یہ بات کسی طرح حاکموں تک پہنچ جاتی ہے اور اُس کا بھی یہی حال ہوتا جو باقیوں کا تھا۔ وہ اُن کے ہاتھ کی کٹھ پتلی بن جاتا ہے۔ صحیح معنی میں برین واش جسے کہتے ہیں وہ کیسے ہوتا ہے، اِس ناول میں بخوبی بیان ہوا ہے۔ برین واش ہونے سے پہلے کی سوچ بھی اور بعد کی بھی، جو سوچ اپنی نہیں رہی۔

یہ ہر عام آدمی کو ضرور پڑھنا چاہیے، تاکہ اسے علم ہو کہ اسے اتنی باتوں کا کیوں علم نہیں!