ضلع اوکاڑہ کے شہر دیپالپور میں ایک احمدی شہری کے ڈیرے پر واقع احمدی عبادت گاہ کے مینار توڑ دیے اور عبادت گاہ پر لکھے مقدس کلمات مٹا دیے۔
تفصیلات کے مطابق 10 ستمبر 2024 کو پولیس نے غیر قانونی کارروائی کرتے ہوئے سبحان شاہ دیپالپور میں واقع ایک احمدی شہری کے ڈیرے پر تعمیر شدہ احمدی عبادت گاہ کے مینار توڑ دیے اور عبادت گاہ پر لکھے ہوئے مقدس کلمات بھی مٹا دیے۔
منگل کی شام ڈی ایس پی کی سربراہی میں تھانہ دیپالپور سے پولیس کی دو گاڑیاں ڈیرے پر آئیں جن میں 12 سے 14 پولیس اہلکار سوار تھے۔ پولیس اہلکاروں نے ڈیرے کے گردونواح کو سیل کر کے احمدی عبادت گاہ پر بنے مینار توڑ دیے اور پھر سیمنٹ کی مدد سے مقدس کلمات بھی مٹا دیے۔ یہ احمدی عبادت گاہ 1984 سے پہلے تعمیر کی گئی تھی۔
واضح رہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے معزز جج جسٹس طارق سلیم شیخ نے فوجداری متفرق نمبر 5151/B/2023 عمران حمید بنام سرکار کے فیصلہ میں پیرا نمبر 16 میں قرار دیا تھا کہ میری رائے میں یہ دفعات اس بات کی اجازت نہیں دیتیں کہ آرڈیننس 20 مجریہ 1984 جس کے ذریعے یہ دفعات وجود میں آئی تھیں، کے نفاذ سے پہلے کی عمارات بھی منہدم کی جائیں یا ان میں کوئی تبدیلی کی جائے۔
پاکستان خصوصاً پنجاب میں احمدی عبادت گاہوں کو مذہبی انتہاپسند مسلسل نقصان پہنچا رہے ہیں۔ یہ صورت حال لمحہ فکریہ ہے کیونکہ احمدیوں کے خلاف اس طرح کے غیر قانونی اقدامات سے وطن عزیز کا نام عالمی برادری میں گہنا رہا ہے۔ پاکستان کے تمام شہری بلا لحاظ عقیدہ مساوی شہری ہیں۔ ایسے میں ایک مذہبی گروہ کی عبادت گاہوں کو مسلسل نشانہ بنا کر مذہبی انتہاپسند پاکستان کا نام بدنام کر رہے ہیں۔
عموماً دیکھا گیا ہے کہ احمدی عبادت گاہوں پر ہونے والے حملوں میں مقامی شہری ملوث ہوتے ہیں جبکہ بعض واقعات میں انہیں مقامی پولیس کی بھی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ اکثر حملوں کے دوران پولیس موقع پر موجود تھی مگر انہوں نے حملہ آوروں کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔
پولیس ریاست پاکستان کی نمائندگی کرتی ہے اور ریاست کی جانب سے مذہبی اقلیتوں کو تحفظ دیا گیا ہے تاہم یہ رجحان تشویش ناک ہے جس میں پولیس خود احمدی عبادت گاہوں کے مینار توڑ رہی ہے۔ معروف قانون دان یاسر لطیف ہمدانی کہتے ہیں کہ پولیس کا یہ اقدام ناصرف خلاف قانون ہے بلکہ خلاف آئین بھی ہے کیونکہ لاہور ہائی کورٹ اس ضمن میں واضح طور پر قرار دے چکی ہے کہ 1984 سے قبل تعمیر ہونے والی احمدی عبادت گاہوں پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ یوں پولیس لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے بھی روگردانی کی مرتکب ہو رہی ہے۔