مینار کے ڈیزائن پر مسلمانوں کی اجارہ داری نہیں، احمدیہ عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانا خلاف قانون ہے؛ لاہور ہائی کورٹ

'میری رائے میں 1984 میں نافذ ہونے والے توہین مذہب سے متعلق صدارتی آرڈی ننس سے قبل تعمیر ہونے والی احمدیہ عبادت گاہوں پر اس آرڈی ننس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اس بنیاد پر احمدیہ برادری کی 1984 سے قبل تعمیر کی گئی عبادت گاہیں مسمار کی جا سکتی ہیں اور نا ہی ان کے مینار توڑے جا سکتے ہیں'۔

مینار کے ڈیزائن پر مسلمانوں کی اجارہ داری نہیں، احمدیہ عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانا خلاف قانون ہے؛ لاہور ہائی کورٹ

احمدیہ عبادت گاہوں کے طرز تعمیر کے باعث ان کی مساجد کے ساتھ مشابہت پر اعتراض کے ایک مقدمے کے فیصلے میں لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق سلیم شیخ نے قرار دیا ہے کہ مینار ایک تعمیراتی خصوصیت ہے جسے محض مسلمانوں کے ساتھ مخصوص نہیں کیا جا سکتا، مسلمانوں نے بذات خود مینار کا تصور یونان اور بابل کی تہذیب سے مستعار لیا۔ اسی طرح احمدیہ کمیونٹی کی جو عبادت گاہیں توہین مذہب آرڈی ننس کے نفاذ سے قبل تعمیر کی گئی تھیں ان کے طرز تعمیر پر توہین مذہب آرڈی ننس کا اطلاق نہیں ہوتا لہٰذا انہیں مسمار کرنا یا ان کے مینار توڑنا خلاف قانون ہے جس کی کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی۔

لاہور ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ صوبہ پنجاب کے شہر وزیر آباد کے ایک شہری عرفان الیاس کی جانب سے دائر مقدمے میں سنایا گیا ہے۔ شہری عرفان الیاس نے 11 نومبر 2022 کو تھانہ سٹی وزیر آباد میں ایف آئی آر درج کروائی تھی جس میں شکایت کی گئی تھی کہ وزیر آباد شہر کے موتی بازار میں حکیم بیکرز کے نواح میں موجود جماعت احمدیہ کی عبادت گاہ پر ایسے مینار بنائے گئے ہیں جیسے مسلمانوں کی مساجد پر تعمیر کیے جاتے ہیں۔ اس مشابہت سے مذکورہ عبادت گاہ پر مسلمانوں کی مسجد ہونے کا گمان ہوتا ہے اور اس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ اس شکایت پر تھانہ سٹی میں عبادت گاہ کے منتظمین کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 بی اور 298 سی کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ ملزمان نے مذکورہ مقدمے میں ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کر رکھی تھی۔

اسی مقدمے کے تفصیلی فیصلے میں لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق سلیم شیخ نے تحریر کیا ہے کہ یہ سچ ہے کہ مینار مسلمانوں کے لئے مذہبی علامت بن چکے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مینار ایک تعمیراتی خصوصیت ہیں۔ اسلام کے اولین دور میں تعمیر ہونے والی مساجد میناروں کے بغیر بنائی گئی تھیں۔ نبی کریمﷺ کے دور میں مسجد کے قریب موجود سب سے اونچی چھت پر کھڑے ہو کر اذان دی جاتی تھی۔

انہوں نے لکھا کہ میناروں کی تاریخ سے متعلق متعدد نظریات ملتے ہیں۔ بعض محققین کے مطابق مسلمانوں نے مینار تعمیر کرنے کا خیال یونانی طرز تعمیر سے مستعار لیا۔ ان محققین کا ماننا ہے کہ موجودہ طرز کے مینار بنانے سے قبل مسلمان نگرانی کی غرض سے بنائے گئے یونانی میناروں پر چڑھ کر اذان دیا کرتے تھے۔ جبکہ بعض دیگر تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ مینار بنانے کا آئیڈیا مسلمانوں نے بابل کی تہذیب کے دوران بنائے گئے اونچے ٹاورز سے لیا تھا۔

تحریری فیصلے کے پیراگراف 16 میں جسٹس طارق سلیم شیخ لکھتے ہیں کہ زیر نظر مقدمے میں ہم یہ تو نہیں طے کر سکتے کہ تعزیرات پاکستان کی دفعات 298 بی اور 298 سی قادیانیوں کو مساجد سے مشابہت رکھنے والی عبادت گاہیں تعمیر کرنے سے منع کرتی ہیں یا ایسا کرنے پر انہیں قصوروار ٹھہراتی ہیں یا نہیں تاہم میری رائے میں 1984 میں نافذ ہونے والے توہین مذہب سے متعلق صدارتی آرڈی ننس سے قبل تعمیر ہونے والی احمدیہ عبادت گاہوں پر اس آرڈی ننس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اس بنیاد پر احمدیہ برادری کی 1984 سے قبل تعمیر کی گئی عبادت گاہیں مسمار کی جا سکتی ہیں اور نا ہی ان کے مینار توڑے جا سکتے ہیں۔

پیراگراف 17 میں لکھا ہے کہ مذکورہ مقدمے میں بھی جس عبادت گاہ کے میناروں پر اعتراض اٹھایا گیا ہے وہ 1922 میں تعمیر کی گئی تھی اور اس کے صدر دروازے پر واضح انداز میں مسجد کے بجائے بیت الذکر لکھا ہوا ہے۔ زیر نظر مقدمے میں نامزد ملزمان کے ذمے محض اس عبادت گاہ کی دیکھ بھال کرنے کا فریضہ ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ آج سے 100 سال قبل بنائی جانے والی اس عبادت گاہ کے طرز تعمیر کا قصوروار انہیں ٹھہرا کر سزا دی جا سکتی ہے۔ جبکہ یہ بھی واضح ہے کہ ملزمان اس عبادت گاہ کو مسجد قرار نہیں دیتے یا ایسی کوئی بھی مشابہت اختیار نہیں کرتے جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہونے کا امکان پیدا ہوتا ہو۔

انہوں نے یہ بھی لکھا کہ درخواست گزار عدالت کو یہ بتانے میں بھی ناکام رہے کہ 1984 میں توہین مذہب آرڈی ننس کے نفاذ کے بعد 38 سال تک وہ مذکورہ احمدیہ عبادت گاہ کی مسلمانوں کی مسجد سے مشابہت کے حوالے سے کیوں خاموش رہے اور وہ کیا محرکات تھے جنہوں نے اب انہیں مقدمہ درج کروانے کی ترغیب دی ہے۔ جبکہ نامزد ملزمان کا ماننا ہے کہ درخواست گزار نے محض سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے اب یہ مقدمہ دائر کیا ہے۔

پیراگراف 18 کے مطابق درخواست گزار کی شکایت اس صورت میں جائز قرار دی جا سکتی تھی اگر مذکورہ عبادت گاہ ان کی آنکھوں کے سامنے بنائی جاتی اور اس پر مینار تعمیر کیے جاتے۔ احمدیہ برادری سے تعلق رکھنے والے شہریوں نے جب یہ عبادت گاہ تعمیر کی تھی تب اس کے طرز تعمیر سے رائج کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوتی تھی۔ اس لئے اس عبادت گاہ کے مینار گرانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

گذشتہ چند سالوں کے دوران ایسے متعدد واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں پولیس بذات خود احمدیوں کی عبادت گاہوں کے مینار توڑنے میں مصروف عمل نظر آتی رہی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں پولیس کو بھی پابند کیا ہے کہ وہ احمدی برادری کی عبادت گاہوں کے تحفظ کو یقینی بنائے اور ایسی کسی کارروائی کا حصہ نہ بنے۔

یاد رہے پچھلے چند سالوں سے احمدیہ کمیونٹی کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ محض رواں سال کے دوران اب تک 22 ایسے واقعات سامنے آ چکے ہیں جہاں ان عبادت گاہوں کو مسمار کیا گیا ہے یا ان کے مینار توڑے گئے ہیں۔ اگرچہ یہ واقعات پاکستان کے تمام علاقوں میں رونما ہو رہے ہیں تاہم صوبہ پنجاب میں واضح طور پر ان واقعات کی تعداد باقی صوبوں سے زیادہ ہے۔

متعدد دانش ور اور سماجی ماہرین پنجاب میں مسلم اور غیر مسلم اقلیتوں کے خلاف بڑھتی نفرت کے ڈانڈے ایک مخصوص مذہبی سیاسی جماعت کے ساتھ ملاتے ہیں جس نے گذشتہ 6 سے 7 سالوں کے دوران پنجاب میں خاصی مقبولیت حاصل کی ہے۔ بعض تحقیقاتی رپورٹس میں یہ باتیں بھی سامنے آئی ہیں کہ اگست کے پہلے ہفتے میں جڑانوالہ میں مسیحی عبادت گاہوں کی توڑ پھوڑ اور مسیحی بستی کو نذر آتش کرنے میں بھی اسی مذہبی سیاسی جماعت کے کارکنان ملوث تھے۔