یوں تو پاکستان میں بسنے والی کم و بیش تمام ہی اقلیتی برادریوں کو مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تاہم احمدی برادری کی حالت کچھ زیادہ ہی دگرگوں ہے۔ پاکستان کی ریاست، حکومتیں، نصاب، عدم برداشت اور سوشل میڈیا سمیت کئی محرکات ہیں جنہوں نے اس برادری کے خلاف نفرت انگیز فضا کی تخلیق میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پچھلے کچھ عرصے میں پاکستان میں احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد پر حملوں اور ان کی عبادت گاہوں کو نقصان پہچانے کے واقعات میں خاصا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ احمدی کمیونٹی کے قبرستانوں پر حملے کر کے ان کی قبروں کی بے حرمتی کی بھی اطلاعات آ رہی ہیں۔ بعض واقعات میں توڑ پھوڑ اور بے حرمتی کی یہ کارروائی پولیس کی موجودگی میں سرانجام پاتی ہے۔ اس قسم کے اکثر و بیش تر واقعات پر ریاست خاموش رہتی ہے اور مجرموں کو کسی قسم کی سزا نہیں دی جاتی۔
احمدی برادری کے ساتھ پاکستان میں جس طرح کا سلوک کیا جاتا ہے اس کے محرکات جاننے کے لئے تاریخ میں جھانکنا پڑے گا۔
1953 کے احمدی مخالف فسادات
1953 میں مجلس احرار کی جانب سے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی تحریک شروع ہوئی اور لاہور سمیت مختلف شہروں میں بڑے پیمانے پر دنگے پھوٹ پڑے۔ ان فسادات کے حوالے سے بننے والے تحقیقاتی کمیشن کے سامنے روزنامہ زمیندار کے مدیر اور تحریک ختم نبوت کے اہم رہنما مولانا اختر علی خان نے بیان ریکارڈ کروایا تھا کہ فسادات وزیراعلیٰ ممتاز دولتانہ کے کہنے پہ شروع ہوئے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وزیراعلیٰ پنجاب چاہتے تھے کہ فسادات کا رخ پنجاب کی صوبائی حکومت کے بجائے کراچی کی مرکزی حکومت کی جانب ہونا چاہئیے اور یہ بھی کہ انہوں نے یہ فسادات پاکستان کے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان کو وزارت کے منصب سے ہٹوانے کے لئے شروع کروائے تھے۔ سر ظفر اللہ خان کا تعلق احمدی برادری سے تھا۔
ممتاز دولتانہ کی حکومت نے اردو پریس خاص طور پر روزنامہ زمیندار کو احمدیوں کے خلاف خبریں چھاپنے اور نفرت انگیز فضا ہموار کرنے کے لئے بھرپور انداز میں استعمال کیا۔
احمدی غیر مسلم قرار
30 جون 1974 کو مولانا مفتی محمود نے قومی اسمبلی میں ایک بل پیش کیا جس کے بعد مولانا مفتی محمود کو قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیے جانے والی کمیٹی کا سربراہ بنا دیا گیا۔ قومی اسمبلی میں اس نوعیت کے چھ بل پیش ہوئے اور دو ماہ کی بحث و تمحیص کے بعد 6 ستمبر 1974 کو دوسری آئینی ترمیم کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اسے پیپلز پارٹی حکومت کا عظیم کارنامہ قرار دیا۔
جنرل ضیاء الحق کا امتناع قادیانیت آرڈیننس
جنرل ضیاء الحق نے احمدی برادری سے متعلق مزید سخت قوانین متعارف کروائے۔ انہوں نے 26 اپریل 1984 کو امتناع قادیانیت آرڈیننس نافذ کیا جس کے تحت قادیانیوں کو مسلمانوں سے مختلف شناخت اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 278 سی اور 298 بی کے تحت اب جماعت احمدیہ کا کوئی رکن خود کو مسلمان ظاہر کرے، اپنی عبادت گاہوں کے لیے کوئی اسلامی اصطلاح استعمال کرے، السلام علیکم کہے یا بسم اللہ پڑھے، اپنی عبادت گاہ کو مسجد کہے یا اذان دے تو اسے تین برس قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
سپریم کورٹ کا 2014 کا تاریخی فیصلہ
سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2014 میں ازخود نوٹس لینے کے بعد ایک تاریخی فیصلہ دیا جس میں احمدی برادری کی عبادت گاہوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے ایک ٹاسک فورس بنانے کی ہدایت کی گئی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ ان عبادت گاہوں کی مسماری کو سنگین جرم قرار دیا گیا تھا مگر اس حکمنامے کے باوجود احمدی کمیونٹی کی عبادت گاہوں کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
احمدی قربانی نہیں کر سکتے
27 جولائی 2020 کو لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے پنجاب حکومت کے محکمہ داخلہ کو ایک خط لکھا اور گزارش کی کہ قربانی چونکہ سنتِ ابراہیمیؑ اور سنتِ محمدیؐ ہے جو کہ خاتم النبیینؐ ہیں لہٰذا قربانی کی رسم انہی شعائرِ اسلامی میں آتی ہے جن کو اپنانے کا آئین کے تحت احمدیوں کو حق حاصل نہیں ہے۔ اس لئے احمدیوں کو قربانی کی سنت ادا کرنے سے منع کیا جائے۔
احمدیہ عبادت گاہوں اور قبرستانوں پر ہونے والے حملے
ضیاء الحق کے امتناع قادیانیت آرڈیننس کے بعد معاشرتی سطح پر احمدی برادری کے خلاف عمومی نفرت بڑھی اور ان کے خلاف مقدمات میں اضافہ ہونے لگا۔ اس کے بعد سے معاشرتی سطح پر احمدیوں کے خلاف غم و غصے کا اظہار کئی شکلوں میں سامنے آتا رہا ہے۔ بعض اوقات انفرادی طور پر احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کو حملہ کر کے ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ کبھی ان کے گھروں پر حملہ ہوتا ہے۔ احمدی عبادت گاہوں پر تو تواتر کے ساتھ حملے ہوتے رہتے ہیں جبکہ بے شمار واقعات میں ان کی قبروں کی بے حرمتی بھی کی جاتی رہی ہے۔
جماعت احمدیہ کے ترجمان سلیم الدین بتاتے ہیں کہ یکم مئی 1984 کے بعد سے اب تک 280 احمدیوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے 170 ایسے ہیں جو صرف پچھلے دس سالوں میں ہلاک ہوئے ہیں۔ 69 فیصد ہلاکتیں صرف صوبہ پنجاب میں ہوئی ہیں۔ اس عرصے کے دوران احمدیوں پر 379 حملے ہوئے جبکہ 27 عبادت گاہوں کو تباہ اور 33 کو بند کیا گیا۔
احمدیہ عبادت گاہوں پر سب سے خوفناک حملہ لاہور میں ہوا۔ 28 مئی 2010 کو یوم تکبیر کے موقع پر لاہور کے علاقوں ماڈل ٹاؤن اور گڑھی شاہو میں احمدیہ برادری کی دو عبادت گاہوں پر منظم حملے کیے گئے جن کے نتیجے میں 87 کے قریب احمدی ہلاک جبکہ 100 سے زیادہ زخمی ہو گئے اور عبادت گاہوں کو شدید نقصان پہنچا۔ پاکستان کی تاریخ میں احمدی عبادت گاہوں پر یہ سب سے بڑے حملے تھے۔
2019 میں سیالکوٹ کے چھتی بازار میں احمدیہ کمیونٹی کی عبادت گاہ کو تحریک لبیک اور دیگر مذہبی تنظیموں کے کارکنان نے مل کر مسمار کر دیا تھا۔
جولائی 2020 میں تاری گری گوجرانوالہ کے احمدی قبرستان میں پولیس نے 60 سے زائد قبروں پر لگے کتبے توڑ دیے تھے۔
دسمبر 2020 میں شیخوپورہ کے شاہ مسکین احمدی قبرستان میں 40 کے قریب قبروں کے منارے توڑے گئے اور قبروں کو نقصان پہنچایا گیا۔
جنوری 2021 میں ننکانہ صاحب کے علاقے کوٹ دیالداس میں ایک مقامی شخص کی درخواست پر احمدی عبادت گاہ پر تعمیر کردہ میناروں کے خلاف پولیس نے کارروائی کی اور پوری عبادت گاہ کو مسمار کر دیا۔
جنوری 2021 میں تھانہ شرقپور شریف کی حدود میں احمدی قبروں کی بے حرمتی کے خلاف درخواست جمع کرائی گئی۔ قبروں کی بے حرمتی پر کارروائی کرنے کے بجائے پولیس نے الٹا احمدی کمیونٹی کے درجنوں افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔
اپریل 2022 میں مظفر گڑھ کے علاقے چوک سرور میں مشتعل ہجوم نے پولیس کی موجودگی میں احمدی عبادت گاہ کے مینار اور محراب مسمار کر دیے۔
4 جون 2022 کو جہلم میں پنڈ دادن خان کے مقام پر احمدی عبادت گاہ کے مینار توڑے گئے۔
20 نومبر 2022 کو ضلع فیصل آباد کے چک نمبر 89 ج ب رتن میں احمدیوں کی قبروں کی بے حرمتی کی گئی۔ پولیس نے مذکورہ واقعے کی ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کر دیا۔
7 اور 8 دسمبر 2022 کی درمیانی رات کو گوجرانوالہ کے علاقے باغبانپورہ میں پولیس کی جانب سے احمدی عبادت گاہ کے دو مینار مسمار کر دیے گئے۔ پولیس نے رات کی تاریکی میں گلی کی لائٹیں بند کرکے یہ آپریشن مکمل کیا۔
10 اور 11 جنوری 2023 کی رات کو وزیر آباد شہر کے موتی بازار میں 108 سال پرانی احمدی عبادت گاہ کے میناروں کو پولیس نے مسمار کر دیا۔
18 جنوری 2023 کو دن دیہاڑے چند شرپسند افراد مارٹن روڈ کراچی پر واقع جماعت احمدیہ کی عبادت گاہ میں سیڑھی لگا کر داخل ہو گئے اور دو میناروں کو نقصان پہنچایا۔ پولیس کے آنے پر حملہ آور سیڑھی اور ہتھوڑا چھوڑ کر بھاگ گئے۔
21 جنوری 2023 کو ضلع سیالکوٹ کے چک پیرو میں ایک 75 سالہ احمدی خاتون وفات پا گئیں تو مقامی مشترکہ قبرستان میں ان کی تدفین کی اجازت نہ دی گئی۔ اس واقعے میں بھی پولیس نے حسب روایت احمدیوں کو مجبور کیا کہ میت کہیں اور لے جا کر دفن کر دیں۔ جس پر اس خاتون کی تدفین 250 کلومیٹر دور واقع ربوہ کے قبرستان میں لے جا کر کرنا پڑی۔
22 جنوری 2023 کی آدھی رات کو کچھ نامعلوم شرپسندوں نے ضلع فیصل آباد کے چک نمبر 89 ج ب رتن میں احمدیوں کی قبروں کی بے حرمتی کی۔ شر پسند عناصر خاردار تاریں کاٹ کر احمدی قبرستان میں داخل ہوئے اور قبروں کی توڑ پھوڑ کی۔ اس کے بعد انہوں نے تابوتوں اور کچھ دیگر اشیا کو بھی آگ لگانے کی کوشش کی۔
2 فروری 2023 کو سہ پہر کے وقت کراچی کے علاقے صدر میں احمدیہ ہال کے مینار شر پسند عناصر نے مسمار کر دیے۔ اگرچہ احمدیہ ہال کے میناروں سے متعلق مقدمہ عدالت میں زیرسماعت ہے مگر اس روز پانچ سے دس شرپسند آئے جن میں سے چار افراد دیوار کے اوپر چڑھ گئے اور ہتھوڑوں سے مینار توڑ دیے۔ نیچے کھڑے دیگر شرپسندوں نے جماعت احمدیہ کے خلاف نعرے لگائے۔ ان حملہ آوروں کا تعلق تحریک لبیک پاکستان سے بتایا گیا ہے۔
3 فروری 2023 کی رات کو چند افراد میر پور خاص کے علاقے گوٹھ غازی خان مرانی میں قائم احمدی عبادت گاہ میں دیوار پھلانگ کر داخل ہو گئے اور عبادت گاہ کے مینار توڑ دیے۔ اس کے بعد انہوں نے برآمدے میں آگ لگا دی۔
3 فروری ہی کی رات کو ضلع عمر کوٹ کے علاقے نورنگر میں احمدیوں کی عبادت گاہ بیت الذکر پر پٹرول چھڑک کر نذر آتش کر دیا گیا جس سے عبادت گاہ کے ہال میں موجود تمام صفیں اور کرسیاں وغیرہ جل گئیں۔
4 فروری 2023 کی رات کو میر پور خاص شہر میں سیٹلائٹ ٹاؤن کے علاقے میں نامعلوم افراد نے احمدیہ عبادت گاہ پر فائرنگ کر دی۔ فائرنگ کے وقت مقامی صدر اور کمیونٹی کے دیگر افراد عبادت گاہ میں موجود تھے تاہم وہ فائرنگ سے محفوظ رہے۔
1998 کے بعد سے احمدیوں کی آبادی میں 35 فیصد کمی
عدم تحفظ کے احساس نے بڑے پیمانے پر احمدیوں کو پاکستان چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 1998 سے 2017 کے دوران ملک میں احمدیوں کی آبادی میں 35 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ 1998 کی مردم شماری کے مطابق ملک میں احمدیوں کی تعداد 2 لاکھ 91 ہزار 1 سو 75 افراد پر مشتمل تھی جبکہ 2017 کی مردم شماری کے مطابق یہ تعداد 1 لاکھ 91 ہزار 7 سو 37 افراد رہ گئی ہے۔ بعض بین الاقوامی اداروں کے مطابق پاکستان میں احمدیوں کی تعداد اس سے قدرے زیادہ ہے کیونکہ بعض احمدی خوف کی وجہ سے اپنا اندراج کروانے سے گھبراتے ہیں۔ جماعت احمدیہ کے ترجمان بتاتے ہیں کہ فی الحال پاکستان میں احمدی برادری کی آبادی 4 سے 5 لاکھ کے بیچ ہے۔
احمدی کمیونٹی نشانے پر کیوں رہتی ہے؟
احمدی کمیونٹی پر بلاروک ٹوک جاری حملوں کی مختلف وجوہات ہیں۔
حکومتی رویہ
احمدی برادری کے بارے میں پائی جانے والی نفرت اور ان کے خلاف بڑھتے ہوئے حملوں کی سب سے بڑی وجہ حکومتی رویہ ہے۔ احمدی برادری پر جب کوئی حملہ کیا جاتا ہے تو ریاست کی جانب سے اس حملے کی کھل کر مذمت نہیں کی جاتی۔ بعض حکومتی نمائندے اس معاملے میں مکمل طور پر بے بس نظر آتے ہیں جبکہ بعض دیگر اس نفرت کو بڑھاوا دینے میں پیش پیش رہتے ہیں۔
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ریاض حسن پیرزادہ پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر اپنی بے بسی کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دن دیہاڑے احمدیوں پر حملے کر کے انہیں قتل کیا جا رہا ہے، ان کی عبادت گاہوں پر حملے کیے جا رہے ہیں اور انہیں کوئی روکنے والا نہیں۔ ہمارے ملک میں عدم برداشت کا ماحول بنانے میں ہمارے ادارے اور محافظ ملوث ہیں۔
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہیٰ ایک میڈیا ٹاک میں کہتے ہیں کہ وہ عنقریب بہت بڑی مسجد بنا رہے ہیں جس کے باہر لکھا ہوگا کہ قادیانیوں کا داخلہ منع ہے۔ مارچ 2022 میں پاکستان تحریک انصاف کی پنجاب حکومت نے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی سربراہی میں نکاح نامے میں ایک شق شامل کرنے کی منظوری دی جس کے تحت نکاح نامے کے ساتھ ختم نبوت پر ایمان رکھنے کا حلف نامہ بھی جمع کروانا ضروری قرار دیا گیا۔
پاکستان کا قانون، پارلیمنٹ کے آرڈی ننس اور عدلیہ کے فیصلوں کا مجموعی جائزہ لیا جائے تو وہ احمدیوں کے خلاف موجودہ رویے کو بڑھاوا دینے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ احمدیوں کو بلاسفیمر اور غدار قرار دیا جاتا ہے اور ان کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کو سماجی سطح پر خاصی پذیرائی ملتی ہے۔ پاکستان میں تحریک لبیک کی پیدائش اور مختصر عرصے میں معاشرے میں اس کی نفوذ پذیری اس رویے کا ایک اہم مظہر ہے۔
تحریک لبیک کا جن
ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی پر بلاسفیمی کا الزام لگا اور گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے ان سے ملاقات کی۔ ملاقات میں انہوں نے بلاسفیمی سے متعلق قوانین کا ازسرنو جائزہ لینے کی بات کہی۔ اس تجویز کو یہ رنگ دیا گیا کہ سلمان تاثیر توہین کے قوانین کو ختم کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ سلمان تاثیر کے خلاف نفرت پر مبنی بھرپور مہم چلی اور اسی نفرت انگیز ماحول میں ایک روز ان کے ذاتی سکیورٹی گارڈ ممتاز قادری نے انہیں قتل کر دیا۔ لاہور میں ایک مدرسے سے جڑے مذہبی رہنما علامہ خادم رضوی نے سلمان تاثیر کو گستاخ قرار دیا اور ممتاز قادری کو غازی قرار دیتے ہوئے ان کی حمایت میں سڑکوں پر آ گئے۔ خادم رضوی کے مؤقف اور انداز بیان کو خوب پذیرائی ملی۔ انہوں نے اس تحریک کو 2015 میں تحریک لبیک کا نام دیا اور اسے سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹرڈ کروا لیا۔
خادم رضوی کی تحریک لبیک نے آسیہ بی بی اور سلمان تاثیر کو ملعون قرار دیتے ہوئے بیانیہ بنایا کہ ملک میں بلاسفیمی کے قوانین کو مزید سخت کیا جانا چاہئیے۔ پچھلے چند سالوں میں احمدی برادری، ان کی عبادت گاہوں اور قبرستانوں پر ہونے والے حملوں میں جو واضح طور پر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے تحریک لبیک کا وجود میں آنا بھی اس کی اہم وجہ ہے۔
2017 میں نواز شریف حکومت کے دور میں جب تحریک لبیک نے فیض آباد کے مقام پر دھرنا دیا تھا تو اس وقت کے اپوزیشن لیڈر عمران خان نے کہا تھا کہ ان کا دل چاہتا ہے وہ خود اس دھرنے میں شریک ہوں۔ شیخ رشید نے بھی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ تحریک لبیک کے مطالبات کو مانیں۔ بعد میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں کام کرنے والے تحقیقاتی کمیشن نے اس دھرنے کے پیچھے اہم فوجی اہلکاروں کے کارفرما ہونے کی بھی نشان دہی کی تھی۔
اس کے بعد قرآن مجید کی بے حرمتی پر فرانس کے سفیر کو دربدر کرنے کے مطالبے پر 2021 کے شروع میں تحریک لبیک نے ملک گیر احتجاج شروع کر دیا۔ اس دوران پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تصادم کے کئی واقعات بھی پیش آئے جن میں کئی پولیس اہلکار جاں بحق ہو گئے۔ احتجاج کے دوران بڑے پیمانے پر عوامی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ ایک غیر معمولی واقعے میں تحریک لبیک کے حامیوں نے لاہور کے ایک پولیس سٹیشن پر حملہ کر کے پولیس عملے کو یرغمال بنا لیا اور انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔
ماضی میں تحریک لبیک کی حمایت کرنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف اور ان کے سربراہ عمران خان اب بہت بری طرح پھنس کے رہ گئے۔ ایک جانب وہ تحریک لبیک کے رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کر رہے تھے اور دوسری جانب ان کے ساتھ سختی سے پیش آنے کے کھوکھلے دعوے کر رہے تھے۔ جب تحریک لبیک کسی طرح قابو میں آتی نظر نہ آئی تو 14 اپریل 2021 کو وزیر داخلہ شیخ رشید نے تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی عائد کر دی۔ اس پابندی کے باوجود حکومت نے مزاکرات میں کالعدم تنظیم کے کم و بیش تمام مطالبات مان لیے جن کے تحت تحریک کے تمام گرفتار کارکنوں کو فوری طور پر رہا کر دیا گیا۔ اس طرح پی ٹی آئی حکومت نے تحریک لبیک کے ہاتھوں بلیک میل ہونے کی بدترین مثال قائم کی۔
اسی تحریک لبیک کے حامیوں نے دسمبر 2021 میں توہین مذہب کا الزام لگا کر سیالکوٹ میں ایک سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کو دن دیہاڑے بے دردی سے ہلاک کر دیا اور ان کی لاش کو نذر آتش کر دیا گیا۔
ریاست اور حکومتیں تحریک لبیک جیسی جماعتوں کے سامنے آج بھی اسی طرح بے بس نظر آتی ہیں جیسے 1953 میں تھیں۔ ریاست اور حکومتوں کا یہی معذرت خواہانہ رویہ ایسی تحریکوں کے پھلنے پھولنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ریاستی بے بسی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ حاضر سروس آرمی چیف کے بارے میں جب یہ مشہور کر دیا جاتا ہے کہ وہ احمدی ہیں تو انہیں بھی عدم تحفظ کا احساس گھیرے میں لے لیتا ہے اور انہیں اپنے گھر پر محفل میلاد منعقد کروا کر یقین دلانا پڑتا ہے کہ وہ ختم نبوتﷺ پر ایمان رکھتے ہیں۔
نوبیل انعام یافتہ سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام
ریاستی کمزوری کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ عقیدے کے باعث ایک نوبیل انعام یافتہ سائنس دان کا نام تک لینا پاکستان میں برا سمجھتا جاتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام پہلے پاکستانی ہیں جنہیں نظریاتی فزکس کے میدان میں نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔ ڈاکٹر عبدالسلام کا تعلق احمدی برادری سے ہے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو عملی جامہ پہنانے میں انہوں نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ تعصب کا یہ عالم ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام کی کاوشوں کو پاکستان میں کسی فورم پر قابل ذکر نہیں گردانا جاتا اور انہیں مکمل بلیک آؤٹ کا سامنا ہے۔
پاکستان سے متعلق ڈاکٹر عبدالسلام نے کہا تھا؛
'ہمیں ایک گھر ورثے میں ملا ہے جس میں کھڑکیاں نہیں ہیں اور اس کی دیواریں بہت اونچی ہیں۔ ہمیں کبھی کبھی یہ پتہ نہیں چلتا کہ وہ گھر ہے یا جیل۔'
1965 اور 1971 کی جنگوں کے احمدی ہیرو
ایک وقت تھا جب درسی کتابوں میں بھی 1965 اور 1971 کی جنگوں میں حصہ لینے والے احمدی ہیروز کا ذکر تصویروں کے ساتھ شامل تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ان تمام ہیروز کے نام تاریخ کی کتابوں سے غائب کر دیے گئے۔ میجر جنرل افتخار جنجوعہ، لیفٹیننٹ جنرل اختر حسین ملک، ایئر مارشل ظفر چودھری، لیفٹیننٹ جنرل عبدالعلی ملک، میجر افضال محمود شہید، سکواڈرن لیڈر خلیفہ منیر الدین احمد شہید اور دیگر متعدد افسر اور جوان ایسے ہیں جنہوں نے ان جنگوں میں فیصلہ کن معرکے سرانجام دیے مگر اب ان کا ذکر کہیں سننے کو نہیں ملتا۔
سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مباحثے
سوشل میڈیا کافی حد تک ہماری مجموعی معاشرتی سوچ کا عکاس بن چکا ہے اور ہمارے سوشل میڈیا پر پچھلے چند سالوں سے احمدی برادری کے خلاف نفرت انگیز مواد اور بحث مباحثوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر 53 فیصد نفرت انگیز گفتگو احمدی کمیونٹی کے خلاف کی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا پر فتوے بھی جاری کیے جاتے ہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ احمدیوں کا وجود بذات خود توہین آمیز ہے۔ اس طرح کے دعوؤں اور اعلانات سے بہت سے دیکھنے سننے والوں کو شہہ ملتی ہے اور وہ احمدی افراد، ان کی عبادت گاہوں اور ان کے قبرستانوں پر حملے کرنے کو چڑھ دوڑتے ہیں۔
ٹیگز: 1953 کے فسادات, آسیہ بی بی, احمدی برادری, احمدی غیر مسلم, امتناع قادیانیت آرڈیننس, پاکستان کا ایٹمی پروگرام, پاکستان میں اقلیتیں, تحریک لبیک پاکستان, جنرل ضیاء الحق, ختم نبوتﷺ, ذوالفقار علی بھٹو, ڈاکٹر عبدالسلام, علامہ خادم حسین رضوی, فیض آباد دھرنا, گورنر پنجاب سلمان تاثیر, لبیک یا رسول اللہﷺ, ممتاز قادری
خضر حیات فلسفے کے طالب علم ہیں۔ وہ عالمی ادب، بین الاقوامی سنیما اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔