Get Alerts

جڑانوالہ واقعے کے پیچھے کون سی سیاسی جماعت تھی؟ تحقیقاتی رپورٹ

رضوی صاحب بتاتے ہیں بات ہمارے عقیدے کی ہو تو یہ بستی کو دو جہانوں کی بھی پروا نہیں، مگر حکومت کہتی ہے کہ اس واقعے میں غیر ملکی ایجنسیوں کی سازش ہے تو موصوف بتائیں گے دو جہانوں کو آ گے لگانے کے بعد اگر پتا لگا کہ TLP سازش کے تحت پھنسا لیا گیا ہے اور جڑانوالہ میں بھی توہین نہیں بلکہ سازش ہوئی ہے تو جو مسیحیوں کے گھروں کو آگ لگائی گئی ہے اس کا کیا جواز ہے؟ دوسرے مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ ریاست اسلامی، ریاست کا مذہب اسلام تو ایسے میں اے سی کیسے غیر مسلم ہو سکتا ہے؟

jaranwala-incident-another-month-another-blasphemy-mob
کیپشن: jaranwala-incident-another-month-another-blasphemy-mob

16 اگست کی صبح 5 بجے چکی والی گلی میں توہینِ مذہب کا مبینہ واقعہ سامنے آیا جس کے بعد دو خواتین جن میں ایک بزرگہ ہاتھ میں تسبیح تھامے ہمراہ ایک لڑکی رانی (جو کہ راجہ عمیر کی بہن کی کلاس فیلو تھی) اور لڑکا عمر، سلیم مسیح کے گھر خبر لے کر پہنچے۔ جس وقت عمر عرف روکی ایک مقامی فیکٹری میں صبح کی شفٹ کے لئے گھر سے نکل چکا تھا۔ جب کہ عمیر سلیم باہر گلی میں اپنی چارپائی پر سویا تھا۔ خواتین نے مطالبہ کیا کہ آپ کے بیٹوں نے کچھ مقدس صفحات پھینک دیے ہیں، باقی کتاب ہمیں واپس کر دیں۔ اس پر راجہ عمیر کی بہن نے ان خواتین کو اپنی صفائی میں کہا کہ ہمارا بھائی تو گھر کے باہر گلی میں سویا ہے اور دوسرا کام پر چلا گیا ہے وہ کیسے یہ سب کر سکتے ہیں۔ ہم پر جھوٹا الزام ہے۔ ہمارا اس واقعے  سے کوئی تعلق نہیں۔ مہربانی سے ہمیں اس الزام سے معاف کریں (یہ بات کرتے ہوئے عمیر سلیم کی بہن ان کے قدموں میں گر کر اپنی صفائی دینے لگی)۔ جس کے بعد وہ خواتین راجہ عمیر کے گھر سے چلی گئیں اور اس دوران یہ خبر مسجد میں اعلان ہونے کے بعد ساری تحصیل میں پھیل گئی۔

سلیم مسیح درجہ چہارم کا ملازم ہے اور ساتھ ایک چرچ کا ایلڈر ہے۔ سلیم مسیح کے 6 بچے ہیں جن میں 4 بیٹیاں، 2 بیٹے شامل ہیں۔ 2 مرلے کا گھر ہے جس کے نیچے والے حصے میں سلیم مسیح کا خاندان اور اوپر سلیم مسیح کے بھائی کا خاندان رہائش پذیر ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ہمیں پہلی اطلاع صبح ساڑے 6 بجے ملی جس پر 7 بجے مقامی ایس ایچ او ہمراہ تین سپاہیوں کے سنیما بستی پہنچا اور مقامی لوگوں کو قائل کرنے لگا کہ ہمیں راجہ عمیر اور عمر سلیم کی مذکورہ الزام کے تحت گرفتاری مطلوب ہے۔ جس پر مقامی لوگوں نے یقین دلایا کہ وہ گھر چھوڑ کر چلے گئے ہیں لہٰذا ہم مذکورہ عمل کی شدید مذمت کرتے ہیں، اگر وہ گنہگار ہیں تو انہیں ضرور سزا دیں۔

مقامی شہری سنیل ٹامس نے بتایا کہ مقامی لوگوں سے بات کر کے ساڑھے 7 بجے پولیس واپس چلی گئی اور مقامی مساجد میں اعلانات کے بعد مسجد مہتاب کے باہر مقامی لوگوں کی تعداد جمع ہونا شروع ہو گئی۔ اس موقع پر تحریک لبیک پاکستان کی مقامی قیادت لوگوں کی قیادت کرتے ہوئے اپنے مقاصد کو لوگوں کے سامنے بیان کر کے اشتعال دلانا شروع کر چکی تھی۔ قیادت نے زور دیا کہ مقامی اے سی کی پشت پناہی سے ملزمان نے یہ گھناؤنا عمل کیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ بستی کے ساتھ ساتھ اے سی کے آفس اور گھر پر بھی حملے ہوئے۔ قریب 10 بجے مقامی ایس پی بلال سلہری نے حملہ آوروں سے مخاطب ہوتے ہوئے اعلان کیا کہ مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور اے سی صاحب کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔ جس کا اظہار TLP کے لیڈر نے اپنے کیمپ میں اپنے ووٹرز کے سامنے ان الفاظ میں کیا کہ چوھڑے اے سی کو معطل کر دیا گیا ہے اور انہوں نے اپنی جماعت کے نعرے لگانے شروع کر دیے۔ 

پولیس کے مطابق 10 بجے تک تحصیل میں 7 ایس ایچ او سمیت 500 پولیس والوں کی نفری تھی جو کہ مظاہرین کو روکنے کے لئے ناکافی تھی۔ اس دوران ایس پی بلال سلہری مقامی بین المذاہب کمیٹی اور مسیحیوں کی قیادت کے ساتھ امن ڈائیلاگ میں مصروف تھا اور ایس پی نے اپنے ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان کو 'صورتحال کنٹرول میں ہے' کا پیغام دیا۔ سنیما بستی کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ پولیس کے لوگوں سمیت مظاہرین نے ہمیں گھر چھوڑ کے بھاگ جانے کا پیغام دینا شروع کر دیا۔

ایک طرف پولیس امن ڈائیلاگ میں مصروف تھی جب کہ دوسری جانب سنیما بستی میں مظاہرین نے عمیر سلیم کے گھر سے شروع کر کے چرچ سمیت پوری بستی کو آگ لگا دی ماسوائے ان گھروں کے جن کو مقامی لوگوں نے مسلمانوں کے گھر بتا کر بچایا۔ مال غنیمت کی لوٹ مار، توڑ پھوڑ اور آگ لگانے کے عمل میں مظاہرین نے پولیس کی مداخلت کے باوجود تقریباً 2 گھنٹے کا وقت استعمال کیا۔ جس سے شک گزرتا ہے کہ مظاہرین تمام تر واردات کے لئے پہلے سے تیار تھے۔

ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان کے مطابق ہماری پہلی ترجیح لوگوں کی جان بچانا تھا اور نفری کم ہونے کی وجہ سے ہم مظاہرین کو روکنے میں ناکام رہے۔ گلیاں تنگ ہونے کی وجہ سے ہم آنسو گیس نہ چلا سکے، ان حالات میں صرف ایک ہی آپشن تھا کہ ہم مظاہرین پر فائرنگ کر دیتے مگر سینیئرز کے حکم کے بغیر فائرنگ کے نتائج کے خوف سے ہم وہ عمل بھی نہ کر سکے۔ گلیاں تنگ ہونے کی وجہ سے فائر بریگیڈ کو بھی متاثرہ گھروں تک رسائی نہ مل سکی۔

مظاہرین  کے عمل سے دو چیزیں واضح تھیں کہ ایک تو تمام جلوس بغیر کسی قیادت کے عمل کر رہا تھا۔ دوسرا مظاہرین کے عمل سے شہریوں کی مسیحیوں سے نفرت بھی جھلک رہی تھی۔ ایسا اس طرح واضح ہے کہ کہ ما ضی میں تقریباً 20 کے قریب بین المذاہب تصادم کی درخواستیں رپورٹ ہوئی ہیں۔

اگرچہ رات 8 بجے رینجرز فورسز جڑانوالہ میں آ چکی تھیں پھر بھی دو چرچ رینجرز کے آنے کے بعد بھی تقریباً رات 9 بجے جلائے گئے ہیں۔ اس طرح کل ملا کر 21 چرچ، 40 سے زائد گھر اور ایک قبرستان کو جلایا گیا اور نقصان پہنچایا گیا ہے۔ پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے مظاہرین کے خلاف 5 ایف آئی آر کاٹیں جن میں دہشت گردی کی دفعات شامل ہیں۔

اتنی تعداد میں چرچز کی تباہی کے سوال کو سمجھنے کے لئے ہمیں PP-100 کی حلقہ بندی کو دیکھنا ہوگا۔ بادی النظر میں لگتا ہے کہ مخصوص سیاسی جماعت نے پورے انتخابی حلقے میں اپنی موجودگی اور اثر بڑھانے کے غرض سے اس حد تک مذہبی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچایا۔ مذکورہ حلقے سے 2018 میں مبینہ سیاسی جماعت رزلٹ ٹیبل پر پہلے پانچ نمبروں میں تھی۔ اس کے علاوہ 17 جون 2023 کو پی ڈی ایم حکومت نے بذریعہ وزیر داخلہ رانا ثنااللہ اور سردار صادق ایاز صادق اس سیاسی جماعت کے عہدیداران سے معاہدہ کیا۔ جس کا عنوان معاہدہ مابین فریقین ہے مگر معاہدے کی تحریر پڑھیں تو نظر آتا ہے کہ تمام تر شرائط ایک فریق کی مرضی پر مبنی ہیں، بلکہ TLP کے سیاسی منشور کی جھلک ہے جس کو حکومت نے منظوری دی۔

ان سب میں فائدہ اٹھانے والے ارکان کا جائزہ لیں تو نمبر ایک تو جڑانوالہ کی تاجر برادری، دوسرے ناجائز قابضین، تیسرے مقامی ایم این اے اور چوتھے نمبر پر مذہبی قیادت ہے جس کو اے سی شوکت مسیح سندھو سے مسئلہ تھا۔ رانا ثنا سے معاہدے کے بعد سیاسی جماعت کی قیادت کو بڑا سیاسی شو کرنا تھا اور سویڈن کے واقعے پر اپنا ردعمل دینا تھا۔ جس کا اشارہ آپ کو مبینہ دستاویزات کی تحریر سے بھی ملتا ہے۔ تیسرا مخصوص سیاسی جماعت کے مقامی قائد نے باقاعدہ کیمپ لگا کر اپنے ووٹرز کے ساتھ اسسٹنٹ کمشنر کی مبینہ معطلی اور تبدیلی کا جشن منایا اور اپنے نعرے لگائے۔

ممکنہ مقاصد اس وقوعے سے نظر آ رہے ہیں ان کی تفصیل کچھ یوں ہے:

1۔ اے سی کو وہاں سے معطل یا ٹرانسفر کروانا جو کہ مقامی ایم این اے سمیت تاجر برادی، ناجائز قابضین اور صحافی برادری کا مطالبہ تھا۔

2۔ تحریک لبیک کی مقامی قیادت کا حلقے میں رسائی حاصل کرنا اور مرکزی قیادت کا سویڈن واقعہ کے بعد اپنا ایجنڈا زندہ رکھنا اور عوام میں اپنے ایجنڈے کی ترویج کرنا۔

3۔ سنیما بستی (کرسچن کالونی) شہر کی مرکزی زمین پر آباد ہے۔ قبضہ مافیا کا مقامی مسیحیوں کو خوف کے ذریعے یہاں سے ہجرت پر مجبور کرنا۔

4۔ ایک سیاسی گروپ کے قائدین کو نشانہ بنا کر آئندہ الیکشن میں کمزور کرنا۔

5۔ ڈاکٹر قبلہ ایاز کی (مالک کے شو میں ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ اگر طے کرے تو جڑانوالہ کا واقع آخری واقعہ ہو سکتا ہے) بات مانیں تو حکومتی اور اسٹیبلشمنٹ کے مفادات بھی اس میں پوشیدہ ہیں۔

راجہ عمیر سلیم کے خاندان کا تعلق سمجھنے کے لئے ہمیں 11 اگست کو TMA ہال جڑانوالہ میں یوم اقلیت کا پروگرام منعقد ہوا جس میں راجہ عامر کے بھائی کو PMLN کے اقلیتی ونگ کے عہدیدار کا نوٹیفکیشن دیا گیا تھا اور عمر عرف روکی اور شوکت مسیح، خلیل سندھو اور طلال چوہدری صاحب اس پروگرام کے مہمان خصوصی تھے۔

راجہ عامر کا والد سلیم مسیح چرچ ایلڈر تھا، روکی سیاسی جماعت میں شامل ہو گیا۔ 6 ماہ پہلے عمیر نے سکول میں درجہ چہارم کی نوکری حاصل کی جس میں عموماً سیاسی جماعتوں کے ورکرز کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔ وقوعہ صبح 5 بجے چکی والی گلی میں وقوع پذیر ہوا۔ وقوعہ سے رابرٹ چارلس کا سی سی ٹی وی کی فوٹیج کے ذریعے پکڑا جانا اس کڑی کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

18 اگست 2023 کو امیر TLP سعد رضوی اور ایک دوسرے اہلسنت مولوی صاحب نے خطاب کیا۔ سعد رضوی صاحب نے واضح کیا کہ اقلیت چھوڑ کوئی کلمہ گو بھی گستاخی کا مرتکب ہوگا تو وہ بھی اسی سزا کا مستحق ٹھہرے گا۔ مگر دیکھنے میں آیا ہے کہ بستیاں صرف اقلیتوں اور زیادہ تر مسیحیوں کی جلی ہیں۔ رضوی صاحب بتاتے ہیں بات ہمارے عقیدے کی ہو تو یہ بستی کو دو جہانوں کی بھی پروا نہیں، مگر حکومت کہتی ہے کہ اس واقعے میں غیر ملکی ایجنسیوں کی سازش ہے تو موصوف بتائیں گے دو جہانوں کو آ گے لگانے کے بعد اگر پتا لگا کہ TLP سازش کے تحت پھنسا لیا گیا ہے اور جڑانوالہ میں بھی توہین نہیں بلکہ سازش ہوئی ہے تو جو مسیحیوں کے گھروں کو آگ لگائی گئی ہے اس کا کیا جواز ہے؟ دوسرے مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ ریاست اسلامی، ریاست کا مذہب اسلام تو ایسے میں اے سی کیسے غیر مسلم ہو سکتا ہے؟

پہلے دن شام ہونے تک کسی بھی سیاسی و حکومتی عہدیدار کا ردعمل نہ آیا۔ مگر پھر نگران وزیر اعظم نے بشپ آزاد مارشل کے ٹویٹ کو ری ٹویٹ کر کے اپنا ردعمل دیا۔ جس کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین نے بھرپور ٹویٹ کیے۔ 20 اگست کو پیپلز پارٹی کے وفد نے شیری رحمان صاحبہ کی قیادت میں جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور لوگوں سے اظہار ہمدردی کیا۔ اس کے علاوہ طلال چوہدری صاحب کا انتخابی حلقہ 100 انہوں نے بھی وزٹ کیا۔ مگر اہم بات یہ کہ مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر رانا ثنااللہ خان نے اپریل 2023 میں پنجاب کے اسی حلقے سے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے اور صدر پنجاب ہونے کے باوجود موصوف نے اپنے حلقہ انتخاب کا دورہ نہ کیا۔ جون 2023 ٹی ایل پی سے معاہدہ جس ٹی ایل پی کی سیاست میں واپسی ہوئی اس دوران سویڈن میں ایک انتہائی دلخراش واقعہ ہوا مگر ٹی ایل پی کو اپنا پاور شو کرنے کا موقع نہ ملا۔ اب جب اگست میں ٹی ایل پی نے اپنے خوب سیاسی مقصد حاصل کیے اور پی ایم ایل کے صوبائی صدر اور حلقہ PP-100 کا امیدوار ہونے کے باوجود رانا ثنااللہ کا اپنے ووٹرز سے نہ ملنا، بقول رانا ثنااللہ پچھلی حکومت نے دہشت گردوں سے مذاکرات کیے اور اب کی بار رانا ثنا نے معاہدہ کر کے موقع فراہم کیا۔ جس کے بعد مشکوک سوالوں کا جنم قدرتی بن جاتا ہے۔