جڑانوالہ واقعہ جنرل ضیاء کی برسی پر انہیں انتہاپسندوں کا تحفہ ہے

پاکستانیو! خدارا جنرل ضیاء الحق کے پاکستان سے نکلو اور جناح کے پاکستان کی طرف قدم بڑھاؤ جہاں اقلیتیں خود کو محفوظ سمجھیں، جہاں بچے اکیلے باہر نکلیں تو زیادتی کا شکار نہ ہوں، جہاں بچیاں محفوظ ہوں، جہاں عورتوں کی عزتیں پامال نہ کی جائیں۔ اس دیس کو مزید مت جلنے دو۔

جڑانوالہ واقعہ جنرل ضیاء کی برسی پر انہیں انتہاپسندوں کا تحفہ ہے

خبر ہے کہ جڑانوالہ میں توہینِ مذہب کا ایک واقعہ پیش آیا جس کے بعد مشتعل افراد نے کئی گرجا گھر، مسیحی برادری کے درجنوں مکان، گاڑیاں اور مال و اسباب جلا دیے۔ دوسری خبر یہ ہے کہ کل یعنی 17 اگست کو جنرل ضیاء الحق کی برسی تھی۔ جی وہی جنرل ضیاء جو دہشت گردی کا نشانہ بنے تھے۔ کل جڑانوالہ میں ہونے والی انتہا پسندی کی مذمتیں اور ضیاء الحق کی برسی کی دعائیں ایک ساتھ کی جا رہی تھیں۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنے مارشل لاء میں پاکستان کو اسلامائزیشن کی طرف لے جانے کی بھرپور کوشش کی لیکن افسوس وہ اس میں ناکام رہے اور کوششیں گلے پڑ گئیں۔

پاکستان میں اسلامی انقلاب تو نہ آ سکا البتہ دہشت گردی نے ڈیرے ڈال لیے جس سے آج تک ہم پیچھا نہ چھڑا سکے۔ معاشرے میں مذہب کے نام پر انتہا پسندی نے جنم لے لیا۔ آزاد اور امن پسند معاشرہ گھٹن زدہ ہو کر رہ گیا۔ اس وقت کیے گئے فیصلوں کے بھیانک نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ میرے خیال میں ان کی برسی کے موقع پر جڑانوالہ کا واقعہ ان کو تحفے میں ملا ہے۔ کیونکہ انتہا پسندی کا یہ بیج انہی کا بویا ہوا ہے جو آج تنا آور درخت بن چکا ہے۔ یقیناً جنرل صاحب اوپر بیٹھ کر جڑانوالہ کے مناظر دیکھ کر سمجھ ضرور گئے ہوں گے کہ کیسے ایک شخص کے فیصلے قوموں کو تباہ کر دیتے ہیں۔

انہیں جڑانوالہ کی مسیحی برادری کو کھلے آسمان تلے رات گزارتے دیکھ کر مذہب کے استعمال کی غلطی کا احساس ضرور ہوا ہو گا۔ عبادت گاہیں ہر مذہب کی مقدس ہوتی ہیں، ان کی حفاظت ہر انسان کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ جڑانوالہ میں کسی ایک کے جرم کی سزا ساری کمیونٹی کو کیوں دی گئی؟ وہ بھی جب آپ کے پاس سزا دینے کا حق ہے ہی نہیں۔ سزا آپ نے سنانی ہے تو پھر عدالتیں کس لیے ہیں؟

ہمارا دین تو غیر مسلموں کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح خیبر کے بعد وہاں کے غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو برقرار رکھا اور ان کی عبادت گاہوں کو مسمار نہیں فرمایا۔ بعد ازاں جب دیگر علاقے سلطنت اسلامی میں شامل ہوئے تو خلفائے راشدینؓ اور صحابہ کرامؓ نے بھی اِتباعِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کرتے ہوئے ان ملکوں میں موجود غیر مسلموں کی کسی عبادت گاہ کو مسمار نہیں کیا۔ اہل نجران کی درخواست پر نبی اکرمﷺ نے جو انہیں صلح نامہ لکھ کر دیا تھا، اس کے الفاظ یہ تھے؛ 'نجران کے عیسائیوں اور ان کے ہمسایوں کے لئے پناہ اللہ کی اور محمدﷺ کا عہد ہے۔ ان کی جان، مذہب، زمین، اموال، حاضر وغائب، قاصد و ںاور ان کے مذہبی نشانات، سب کے لئے جس حالت پر وہ اب تک ہیں، اسی پر بحال رہیں گے۔ ان کے حقوق میں سے کوئی حق اور نشانات میں سے کوئی نشان نہ بدلا جائے گا'، (فتوح البلدان ص 73)۔

ریاست پر فرض ہے کہ توہین مذہب میں قرآن پاک کی بے حرمتی کرنے والے دو مسیحی لڑکوں کے ساتھ ساتھ گرجا گھر جلانے والوں کو بھی سزا دی جائے تا کہ ترازو کے پلڑے برابر ہو سکیں اور اس ملک سے مذہب کے نام پر کی جانے والی اشتعال پسندی بند ہو۔ اس ملک کو مذہب کے نام پر جہنم مت بنائیں۔ یہ ملک جتنا مسلمانوں کا ہے اتنا ہی کسی ہندو، عیسائی، سکھ کا بھی ہے۔ یہاں اسلام کو کوئی خطرہ نہیں۔ قوانین بھی موجود ہیں اور اسلام کے پیروکار بھی بڑی تعداد میں ہیں۔ اسلام امن ہے اور اس کے ماننے والے امن پسند۔

پاکستانیو! خدارا جنرل ضیاء الحق کے پاکستان سے نکلو اور جناح کے پاکستان کی طرف قدم بڑھاؤ جہاں اقلیتیں خود کو محفوظ سمجھیں، جہاں بچے اکیلے باہر نکلیں تو زیادتی کا شکار نہ ہوں، جہاں بچیاں محفوظ ہوں، جہاں عورتوں کی عزتیں پامال نہ کی جائیں۔ اس دیس کو مزید مت جلنے دو۔

بلاگر شعبہ صحافت سے منسلک ہیں اور ان دنوں اسلام آباد میں ایک نجی چینل کے ساتھ وابستہ ہیں۔