ڈینیئل پرل قتل کیس جیل سے دہشتگردوں کیساتھ روابط ہونا سندھ حکومت کی ناکامی ہے، ایڈووکیٹ جنرل کا سپریم کورٹ میں اعتراف 

ڈینیئل پرل قتل کیس جیل سے دہشتگردوں کیساتھ روابط ہونا سندھ حکومت کی ناکامی ہے، ایڈووکیٹ جنرل کا سپریم کورٹ میں اعتراف 

سپریم کورٹ میں ڈینیئل پرل قتل  کیس کے ملزمان کی رہائی کے باوجود حراست سے متعلق کیس  کی سماعت کرتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کے سامنے موقف اپنایا کہ احمد عمر شیخ سے جیل میں سات مشکوک موبائل سم برآمد ہوئی اور ان کے دہشتگردوں کے ساتھ روابط ہے  جس پر سپریم کورٹ کے جسٹس جسٹس سجاد علی شاہ نے موقف اپنایا کہ جیل میں موبائل استعمال کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے موقف اپنایا کہ جیل سے دہشتگردوں کیساتھ روابط ہونا سندھ حکومت کی ناکامی ہے۔


کیس کہ سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی. ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کے سامنے موقف اپنایا کہ برآمد ہونے والی سموں میں سے دو برطانیہ کی تھیں اور احمد عمر شیخ کی جیل سے کی گئی کالز مشکوک افراد کو تھیں. انھوں نے مزید کہا کہ احمد عمر شیخ کی رہائی کیلئے جیل توڑنے کی کوشش میں 97 افراد گرفتار ہوئے اور ملزم  ملک دشمنوں کا ایجنٹ ہے.


ایڈوکیٹ جنرل کے اس اعتراف پر جسٹس منیب اختر نے موقف اپنایا کہ  احمد عمر کو حراست میں رکھنے کے حکمنامے میں دشمن ایجنٹ ہونے کا ذکر ہی نہیں اور سندھ حکومت چاہتی ہے احمد عمر کو ملک دشمن وہ نہیں عدالت قرار دے۔

سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کی اپیل پر اٹارنی جنرل، تمام ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کر دیے. سپریم کورٹ نے احمد عمر شیخ اور دیگر ملزمان کی رہائی سے متعلق ہائی کورٹ کا حکم معطل کرنے کی استدعا مسترد کردی۔


سپریم کورٹ نے ڈینیئل پرل قتل کیس کی سماعت کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ ملزمان کی تحویل کے تین حکمنامے اپنی مدت پوری کر چکے اور ملزمان کو حراست میں رکھنے کا کوئی حکم موجود نہیں تو حکم امتناع کس بات پر دیں کیونکہ کسی کو تاحیات حراست میں نہیں رکھا جا سکتا. 


سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ سندھ حکومت کے پاس معلومات ہیں تو کیس کیوں نہیں بنایا جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے موقف اپنایا کہ انٹیلیجنس مواد ہے لیکن عدالت میں کیس ثابت نہیں کر سکیں گے. عدالت نے کیس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کردی۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔