جماعت اسلامی کی ڈائریکٹر امور خارجہ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی سے ایک ملاقات

جماعت اسلامی کی ڈائریکٹر امور خارجہ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی سے ایک ملاقات
جنگ میڈیا کی طرف سے سروے میں تمام شعبوں میں کامیاب ترین خواتین میں شامل انٹرنیشنل یونین آف مسلم اسکالرز کی رکن ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کا شمار پاکستان کی 50 بااثر خواتین میں ہوتا ہے۔ وہ سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کی صاحبزادی ہیں۔ وہ اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کی واحد خاتون رکن اور سابق رکن قومی اسمبلی ہیں۔

ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی (ڈائریکٹر امور خارجہ جماعت اسلامی حلقہ خواتین، انٹرنیشنل ویمن یونین کی صدر، سابق ممبر قومی اسمبلی، سابق ممبر اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان ہیں۔ خیال رہے کہ انٹرنیشنل مسلم ویمن یونین ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جو مسلمان عورتوں کی بڑی عالمی تنظیموں میں سے ایک ہے جو مختلف ممالک میں ان کی فلاح وبہبود کیلئے کام کرتی ہے۔ اس کو اقوام متحدہ کی اکنامک اینڈ سوشل کونسل کا سٹیٹس حاصل ہے۔

ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی ملک اور دنیا بھر میں خواتین کی خدمت کے لیے مختلف اقدامات اور تنظیموں میں کام کرتی ہیں۔ بین الاقوامی سفیر الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان، اور بورڈ آف ٹرسٹیز " خواتین ٹرسٹ" کی ممبر ہیں جو خواتین کے لیے مائیکرو کریڈٹ سکیم فراہم کرتا ہے۔

اس کے علاوہ وہ گلوبل ایسوسی ایشن آف مسلم ویمن کی ٹرسٹی، ڈائریکٹر خارجہ امور ( جماعت اسلامی خواتین ونگ) ہیں ۔ حال ہی میں ان سے بات کرنے کا موقع ملا اور اس ملاقات کا حال آپ کے گوش گزار کرتے ہیں ۔

انہوں نے اپنے بارے میں بتاتے ہوئے خود کو منی پاکستان کہا کیونکہ وہ پیدا خیبر پختونخوا کے شہر نوشہرہ میں ہوئیں اور ابتدائی تعلیم پشاور میں حاصل کی ۔ اسکے بعد گریجویشن انہوں نے لاہور کالج یونیورسٹی لاہور سے کی اور سٹوڈنٹ یونین کی آخری جنرل سیکرٹری منتخب ہوئیں اور پھر شادی کرکے وہ کوئٹہ منتقل ہو گئیں۔ ماسٹرز بلوچستان یونیورسٹی سے کیا۔ ان کے شوہر کا تعلق بلوچستان سے تھا تاہم ان کی ملازمت کراچی میں تھی۔
اس طرح چار شہروں سے ان کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ پھر خاندان کے ادارے کو درپیش چیلنجز پر مقالہ لکھ کر انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کالج سے ہی سیاست میں دلچسپی رکھتی تھیں، انہوں نے اپنی سیاسی جماعت میں عورت کے حقوق پر بہت کام کیا اور اسلامی نظریاتی کونسل کی واحد خاتون ممبر رہیں۔

وہ انٹرنیشل مسلم ویمن یونین کی صدر بھی ہیں جبکہ ویمن ٹرسٹ ( این جی او) کی ٹرسٹی ہیں۔ یہ این جی او خواتین کے لئے خاص طور پر جیلوں میں موجود خواتین کیلئے کام کرتی ہے اور انہیں قانونی مدد کے ساتھ ساتھ آگاہی اور شعور فراہم کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے جیلوں میں بھی بہت کام کیا اور خواتین کی مدد کی۔ دختران پاکستان انہی کا ایک کامیاب پروجیکٹ ہے اور آج کل وہ مختلف یونیورسٹیز میں ٹریننگ بھی دیتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں فیشن ڈیزائننگ میں کافی دلچسپی ہے اور ان کا ایک آؤٹ لیٹ بھی ہے جہاں وہ مختلف مستحق خواتین کو ایک پلیٹ فارم فراہم کرتی ہے تاکہ وہ اپنا کام بھی دکھا سکیں اور ان خواتین کو مالی مدد بھی فراہم کی جاتی ہے۔

گھر کے ماحول کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ میرے آباء واجداد کا تعلق سلجوق قبیلے سے تھا جو ترکستان میں آباد تھا اور وہاں سے ہجرت کرکے پاکستان آیا۔ میرے تایا مکہ مکرمہ کی ام القریٰ یونیورسٹی کی لائبریری کے بانی تھے۔ میرے والد نے ہماری تربیت کیلئے بچوں کے ساتھ رسالے لگوا رکھے تھے اور اس کی وجہ سے میں گھر میں راجہ اندر کی طرح پھرتی تھی۔

نہوں نے بتایا کہ ہمارے گھر میں بیٹیوں کو بڑی پذیرائی حاصل ہے۔ ان کے خاندان میں بیٹیوں کی تعلیم پر بڑا زور دیا جاتا ہے۔ اسی لئے ان کے خاندان کی خواتین ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے ایک تایا فیڈرل شریعت کورٹ کے پہلے جج اور پشاور یونیورسٹی کے اسلامی سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ بھی رہ چکے ہیں۔ ان کے ایک اور تایا جان خیبر پختونخوا  کے پہلے ریڈیولوجسٹ تھے۔ اس طرح ان کا تعلق ایک بہترین تعلیم یافتہ گھرانے سے ہے ۔

اپنے بچپن کی بری یاد بارے بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایک دفعہ بیگم نصرت بھٹو نے ان کے سکول آنا تھا اور انہیں خوش آمدید کرتے ہوئے پھولوں کا گلدستہ انہوں نے پیش کرنا تھا مگر اس دوران ہنگامے پھوٹ پڑے تھے۔ میرے والد متحدہ اپوزیشن کے پشاور میں رہنما تھے۔ اپوزیشن نے انھیں منع کر دیا تھا کہ آپ کے بچے افتتاحی تقریب میں شرکت نہ کریں۔ مجھے ایسا کرنے سے منع کرنا اچھا نہیں لگا تھا کیونکہ ہمارے گھر کا ماحول ایسا تھا جہاں ہمیں بچپن سے ہی دوسروں اور اپنے سے بڑوں کا احترام کرنا سکھایا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ان کے شوہر اس دنیا سے رخصت ہوئے وہ وقت ان کیلئے بہت مشکل تھا ۔ تب انکی بیٹی سات سال کی اور بیٹا گیارہ سال کا تھا۔ ان کی انیس سال کی عمر میں شادی ہوگئی تھی۔ ان کے شوہر چائلڈ سپیشلسٹ تھے اور بہت ہی قابل ، رحم دل اور محبت کرنے والے انسان تھے۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے شادی کے بعد ہی اپنے شوہر کے زیر سایہ اپنی تعلیم مکمل کی تھی اور انہی کی سپورٹ سے وہ سیاسی سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیتی تھیں مگر ان کے وفات پانے کے بعد وقت یک لخت بدل گیا پھر وہ اپنے والد کے زیر سایہ آگئیں۔

اپنے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ہمیشہ سے مختلف سوچ رکھنے والی تھیں اس وجہ سے انہوں نے اکثر بہت مشکلات کا سامنا بھی کیا۔ وہ ہمیشہ سے ایک باغی سوچ کی مالک تھیں۔ مگر ان کی والدہ نے ہمیشہ انہیں سپورٹ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی والدہ کو صحیح معنوں میں ویمن ایکٹوسٹ سمجھتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اللہ نے ہمیں برابر بنایا ہے اور جنس کی برابری کا اسلام سب سے بڑا علمبردار ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ آج کی عورت کیلئے ایک آئیڈیل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وہ اپنے معاشرے کی روایت شکن عورت تھیں جبکہ حضرت خدیجہ ایک بزنس آئیکون تھیں۔ یہ سب عورتیں آج کی عورت کیلئے ایک مثال ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب وہ کسی بھی ہین الاقوامی پلیٹ فارم پر جاتی ہیں اور جب جب وہاں پر میری وجہ سے پاکستان کا ذکر ہوتا ہے اور میری وجہ سے پاکستان کا جھنڈا لہرایا جاتا ہے تو وہ لمحے میرے لئے بہت فخر کا باعث ہوتے ہیں۔ انہیں یو این میں پاکستان کی نمائندگی کا موقع بھی ملا جو ان کے لئے فخر کا باعث تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر انہیں اقتدار دیا جائے تو وہ سب سے پہلے کرپشن کا خاتمہ کرکے میرٹ پر ہر چیز لائیں گی کیونکہ اس باغ وبہار ملک کو کرپشن نے بہت نقصان پہنچایا۔ انہوں نے کہا کہ ہر کام میرٹ پر ہونا چاہیے تاکہ حقدار کو اس کا حق ملےاور قابل لوگ آگے آئیں جبکہ جرم کرنے والے کو سزا مل سکے۔

زندگی پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کے نزدیک زندگی اللہ تعالی کی امانت ہے۔ زندگی کو ایسے ہی گزرانا چاہیے جیسا اس کا حق ہے اور زندگی کو اللہ کے احکام پر عمل کرتے ہوئے گزارنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ زندگی یہی ہے کہ بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی میں دے دینا۔

نوجوان نسل کو پیغام دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کسی کے جو بھی نظریات، آدرش، یا سوچ ہو اس کا احترام کریں۔ نظریات اور سوچ سے اختلاف ضرور کریں مگر مخالفت نہ کریں۔ اختلاف زندگی کا حسن ہے جبکہ مخالفت زندگی کی بدصورتی ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ باہمی تعاون سے زندگی کو خوبصورت بنائیں۔

مصنفہ سے ٹوئٹر پر AqsaYounasRana@ کے ذریعے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔