پی آئی اے پاکستان کی قومی ایئرلائن ہے اور بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ تقسیم ہند سے پہلے ہی 1946 میں قائداعظم محمد علی جناح کے کہنے پر کچھ مسلمان کاروباری شخصیات نے کلکتہ میں اورینٹ ایئرویز کی بنیاد رکھی، جسے 1955 میں پاکستانی حکومت نے ضم کرتے ہوئے پی آئی اے کی بنیاد رکھی۔ اور اسی سال پی آئی اے نے پاکستان سے باہر لندن میں پرواز کا آغاز کیا۔
عروج کامیابیاں:
قومی ایئرلائن پی آئی اپنے ابتدائی دور میں دنیا کی بہترین ائیرلائنز میں سے تھی۔ 1960 سے 1980 تک پی آئی اے نے دنیا پر راج کیا۔ 1959 میں ایئرمارشل نور خان نے پی آئی اے کی قیادت سنبھالی اور اسے دنیا بھر میں باکمال لوگ اور لاجواب سروس کے طور پر منایا۔ 1961 میں پی آئی نے نیویارک میں پرواز کا آغاز کیا اور 1964 میں بیجنگ کی فضاؤں میں بھی قومی پرچم کی حامل پی آئی اے کی پروازوں کا آغاز ہوا۔ پی آئی آئی اے کی کامیابیاں اس حد تک تھیں کہ 1965 کی جنگ میں پی آئی اے نے آرمی کو لاجسٹک مدد بھی فراہم کی جو ایک تاریخی کارنامہ تھا۔ لیکن 1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پی آئی اے کو کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس میں پی آئی اے کچھ اثاثوں سے محروم ہو گیا۔ اور اس مشکل دور میں ایک بار پھر ایئر مارشل نور خان کو پی آئی اے کی قیادت سنبھالنے کا کہا گیا۔ 1976 میں پی آئی اے کا ریوینیو 134 ملین ڈالر تھا۔
قومی ایئرلائن نے 1985 میں امارات ایئرلائن کو طیارے لیز پر دیے جو پی آئی اے کا دنیا کی بہترین ایئرلائن ہونے کا واضع ثبوت ہے۔ مشکلات آتی رہیں لیکن پی آئی اے ساتھ میں ترقی کی منازل بھی طے کرتی رہی، 1981 میں پی آئی اے کو پہلا مالی پیکیج دیا گیا لیکن 90 کی دہائی تک پی آئی خسارے سے پاک تھا۔
خسارہ اور زوال:
پی آئی اے میں مالی مشکلات کی کہانی 1990 کی دہائی میں شروع ہوتی ہے، قومی ایئرلائن کے معاملات میں سیاسی مداخلت، پائلٹس کی ہڑتال اور ملازمین کی ضرورت سے زیادہ تعداد نے پی آئی اے کو بلندیوں سے آہستہ آہستہ نیچے کی جانب لانا شروع کیا، 90 کی دہائی سے پی آئی اے منافع کی بجائے نقصان میں جانا شروع ہوا اور محض آپریشنل نقصانات پورا کرنے تک محدود رہ گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اوپن اسکائی پالیسی نے بھی پی آئی اے کے آپریشنز کو متاثر کیا جس کی وجہ سے دوسری پرائیویٹ ائیرلائنز نے پاکستانی ایئرپورٹس پر آپریشن شروع کر دیے اور یوں پی آئی اے کی جگہ آہستہ آہستہ دوسری ایئرلائنز بھی مضبوط ہوتی گئیں۔ 2000 کی دہائی میں پی آئی اے کا خسارہ بڑھتا گیا اور 2008 میں پی آئی اے کا نقصان 36 بلین تک پہنچ گیا۔ اور پھر اس کے بعد پی آئی اے کا خسارہ بڑھتا ہی گیا جو اب 434 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔
فروری 2020 میں ایوی ایشن ڈویژن کے قومی اسمبلی میں جمع کرائے گئے تحریری جواب کے مطابق 2009 سے 2019 میں 3 کھرب 71 ارب 14 کروڑ روپے کا نقصان ہوا، قومی ائیرلائن کا سال 2009 میں خسارہ 12 ارب تھا جب کہ سال 2013 میں پی آئی اے کو 44 ارب اور 2014 میں 29 ارب کا نقصان ہوا۔ 2019 میں پی آئی اے کا فی منٹ نقصان 1 لاکھ سے زائد رہا۔
ان حالات میں جب ملک کی معاشی صورتحال اور شرح نمو منفی میں جا رہی ہے حکومت کے لیے قومی ایئرلائن کے اس بوجھ کو برداشت کرنا مشکل ہو جائے گا۔
ملازمین کی تعداد کا دیگر ایئرلائنز سے موازنہ:
پی آئی میں سیاسی مداخلت، کرپشن اور لوٹ مار مالی خسارے کی ایک بڑی وجہ ہے لیکن ملازمین کی زیادہ تعداد بھی پی آئی اے کو خسارے کی جانب دھکیل رہی ہے۔ پی آئی اے کے پاس قابل پرواز 28 جہاز ہیں جبکہ 2019 تک پی آئی اے میں ملازمین کی کل تعداد 13 ہزار 1 سو 38 تھی جس میں ہائیر لیول کے 1388 ملازمین موجود ہیں جن کی تنخواہوں پر سالانہ 8 ارب 33 کروڑ روپے لگ جاتے ہیں۔ مڈل اور لوئیر لیول اسٹاف کی تعداد 9950 ہے جن کو سالانہ 6 ارب 38 کروڑ ادا کیے جاتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہائیر لیول کے صرف 1388 ملازمین کو کی جانے والی سالانہ ادائیگیاں مڈل اور لوئیر کلاس کے ملازمین سے زیادہ ہیں۔ پی آئی اے میں ڈیلی ویجرز کی تعداد 18 سو ہے جن کو سالانہ 32 کروڑ ادائیگیاں کی جاتی ہیں۔ تمام ملازمین کے سالانہ میڈیکل اخراجات 2 ارب 16 کروڑ ہیں۔ اگر ہم ملازمین کی تعداد کا دیگر ایئرلائنز کے ساتھ موازنہ کریں تو پی آئی اے ملازمین کی فی طیارہ شرح 470 ہے جبکہ ایئر انڈیا کے ملازمین کی فی طیارہ شرح تقریبا 165، ترکش ایئرلائن کے ملازمین کی فی طیارہ شرح تقریبا 116، امارات ایئرلائن کی فی طیارہ شرح 119 ہے۔
وفاقی وزیر کی جانب سے جعلی یا مشتبہ پائلٹس کے بیان کے بعد کی صورتحال:
وفاقی وزیر غلام سرور خان کی جانب سے قومی اسمبلی کے فلور پر مشتبہ لائسنس کے پائلٹس کے انکشاف کے بعد دنیا بھر میں پاکستانی پائلٹس کو گراؤنڈ کیا جا رہا ہے، یورپی یونین نے بھی پی آئی اے پر پابندی عائد کر دی ہے، امریکہ نے بھی پابندی عائد کر دی ہے جس کے بعد اب پی آئی اے کا خسارہ مزید بڑھتا جائے گا اور حکومت کے لیے قومی ایئرلائن کو چلانا بھی مشکل تر ہوجائے گا اور پھر نجکاری کے سوا کوئی آپشن نہیں رہے گا۔
اگر ہم جون کے مہینے میں اسلام آباد اور لاہور ایئرپورٹ سے یورپ اور برطانیہ کے مختلف ایئرپورٹس پر پی آئی اے کی فلائٹس کو دیکھیں تو جون 2020 میں لاہور سے یورپ اور برطانیہ 9 فلائٹس گئیں جس میں 2770 مسافروں نے سفر کیا۔ فی مسافر کرایہ (یکطرفہ کرایہ) اگر 1 لاکھ 15 ہزار لگایا جائے تو یہ کل رقم 31 کروڑ 85 لاکھ بنتی ہے اور واپسی پر بھی اگر فلائٹس مسافروں کو لے کر آتی ہے تو کل رقم ڈبل ہو جاتی ہے۔ لیکن یورپی یونین کی جانب سے پابندی عائد کرنے کے بعد اب پی آئی اے کے ریوینیو میں واضع کمی ہو گی جس سے خسارہ مزید بڑھے گا۔
جون 2020 میں اسلام آباد ائیرپورٹ سے 10 ہزار 588 مسافر یورپ گئے اگر فی مسافر کرایہ 1 لاکھ 40 ہزار لگایا جائے یہ رقم 1 ارب 48 کروڑ سے زائد بنتی ہے جو اب حاصل نہیں ہو پائے گی جس سے پی آئی اے کے لیے سانسیں بحال رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ اوپر سے سول ایوی ایشن کی جناب سے عمان ایوی ایشن کو جاری کردہ وضاحت نے مزید سوالات کھڑے کر دیے ہیں، وضاحت میں کہا گیا ہے کہ سول ایوی ایشن کی جانب سے جاری کردہ تمام لائسنس حقیقی ہیں اور درست طریقہ سے جاری کیے گئے ہیں۔ سول ایوی ایشن کی جانب سح جاری کیے گئے تمام لائسنس درست اور صحیح طریقے سے جارے کیے گئے ہیں اور کوئی بھی لائسنس جعلی نہیں ہے اور یہ معاملہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر غلط انداز سے اٹھایا گیا۔ حالانکہ وزیر ہوا بازی کے بیان سے پہلے نہ میڈیا اور نہ سوشل میڈیا پر جعلی یا مشتبہ لائسنس کی بات کی گئی لیکن کیا کریں ماضی کی حکومتوں کو قصوروار ٹھہرانے کے لیے اور ان کو نیچا دکھانے کے لیے حکومت نے اپنے ہی ادارے کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی کے لیے کامیاب ترین بیان داغ دیا اور وزیراعظم بھی وزیر ہوا بازی کی حامیت میں قومی اسمبلی میں کھڑے رہے۔
2013 میں لیگی حکومت کی جانب سے جب قومی ایئرلائن کی نجکاری کا فیصلہ کیا گیا تو اپوزیشن جماعتوں اور بالخصوص تحریک انصاف نے اس کی شدید مخالفت کی اور اب وفاقی وزیر کے بیان کے بعد اور بین الاقوامی طور پر شرمندگی اور پابندیوں کے بعد قومی ائیر لائن کو اب وہاں تک پہنچا دیا گیا جہاں اس کی نجکاری کے علاوہ حکومت وقت کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔