حال ہی میں ایک معتبر دوست سے ملاقات ہوئی جو کہ بلوچوں کے حالات اور مزاحمتی تحریکوں کے حوالے سے کافی ریسرچ رکھتے ہیں اور چونکہ خود بھی جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں اور الگ صوبے کو لے کر وہاں کے خدشات اور وہاں کی عوام میں پلنے والے لاوے کا ذکر کرتے رہتے ہیں ۔اس بار وہ ملے تو انہوں نے دو اہم باتوں کا تفصیلی طور پر ذکر کیا کہ جن کو شاید مکمل تو میں کچھ سنسرشب اور سکیورٹی معاملات کی بنا پر بیاں نا کر سکوں مگر مناسب الفاظ میں تمہید کے طور پر بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ
'میری اطلاعات کے مطابق ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ پاکستان کی حدود سے باہر جا چکا ہے کیونکہ شاید اس وقت حالات ان کے نزدیک مزید تنگ ہونے جا رہے تھے' حال ہی میں لادی گینگ کے سربراہ ایک بلوچ کو بھی سی ٹی ڈی نے اسی اثناء میں خصوصی احکامات پر کاروائی کر کے ہلاک کیا ہے۔ دوسری بات جو افغان پاکستان معاملات کے پیش نظر اہم تھی وہ یہ کہ پاکستان کی حکومت نے طالبان سے بیک ڈور رابطے اس سلسلے میں کئے ہیں کہ بعض بارڈر حدود میں پاکستان میں امن اور دیگر معاملات کی خاطر طالبان کو پاکستان 'جگا ٹیکس' دینے کو تیار ہے۔
مگر یہ وہ باتیں ہیں جن پر آنکھ بند کر کے یقین نہیں کیا جا سکتا کہ واقع پاکستان کی جانب سے ایسے اقدامات ہوئے ہیں یا نہیں یہ ایک ذاتی تجزیہ بھی ہو سکتا ہے مگر طالبان سے پاکستان کی پڑنے والی پینگوں سے ہم آنکھ نہیں چڑا سکتے جو کہ افغان جنگ میں دخل اندازی کے وقت بھی موجود تھیں اور آج بھی جب امریکی فوج کے انخلاء کا معاملہ ہوا ہے تو پاکستان میں براہ راست نا صرف عوام جو کہ کوئٹہ پشاور میں طالبان کے جھنڈے اور لاشوں ،جنازوں میں ان کی سوچ کی حامی نظر آتی ہے بلکہ ہماری حکومت اور وزراء کے بیانات بھی اس میں واضح کردار ادا کر رہے ہیں کہ عالمی دنیا واضح طور پر ہمارے انداز محبت کا اندازہ لگا لے۔
پاکستان کے سربراہان نے ڈالروں کے عوض نا صرف کئی پاکستانیوں کو امریکہ کے ہاتھ دیا بلکہ افغان سفیر تک پاکستان سے 2008 میں اغواء ہو چکے ہیں ۔ سابق صدر جنرل ر مشرف اپنی کتاب میں واضح اس بات کا تذکرہ کر کے مان چکے ہیں کہ عافیہ صدیقی سے لے کر دیگر کئی درجن افراد کو پیسے کی خاطر بیچا گیا؎
سب کچھہ ہے اپنے دیس میں روٹی نہیں تو کیا
وعدہ لپیٹ لو جو لنگوٹی نہیں تو کیا
دنیا کے اور دیسوں کو دھن پہ غرور ہے
فن گداگری پہ ہمیں بھی عبور ہے
پچھلے 15 روز سے پاکستان کے تمام بڑے چھوٹے ٹی وی چینلز کے ٹاپ ٹاک شوز میں طالبان کے نمائندے گھنٹوں بکواس کر کے جاتے رہے کوئی قومی سلامتی خطرے میں نہیں آئی!مگر اسی ٹاک شو میں یا میڈیا یہاں تک کہ پارلیمنٹ سیشن کے دوران بھی پاکستانیوں کے جمہوری آئینی قانونی اخلاقی حق اور ووٹ کے نمائندے محسن داوڑ، علی وزیر بول رہے ہوں تو چینلز کو خصوصی احکامات ہوتے ہیں کہ فوراً پارلیمنٹ سیشن کاٹ کر کوئی دلربا ، یا دلنشین شربت کا اشتہار چلا دو۔ محسن داوڑ ، علی وزیر ، نواز شریف ، منظور پشتین سمیت ہر اس شخص پر جس نے طالبان کی حاکمیت اور جمہوری اور آئینی حقوق کا تقاضا کیا اسے خصوصی احکامات کے تحت سنسر شپ میں ڈال دیا گیا اور دنیا کے پلیٹ فارمز پر یہ دہائیوں دے دے کر بین بجایا گیا کہ ہم نے 70 ہزار جانیں دیں ہیں۔ افغان جنگ میں ہمارے سپاہی اور شہری شہید ہوئے ہیں ہم بھلا کیونکہ طالبان کے حامی ہو سکتے ہیں! دنیا کو یہ باور کروایا گیا ہم طالبان کے خلاف ہیں ہم امریکہ کے شانہ بشانہ طالبان کے خلاف لڑے ہیں مگر حقیقت جو پس پردہ تھی وہ روز روشن کی طرح یوں عیاں ہو گئی کہ ڈالرز کا مفاد جہاں ملا پالیسی وہ بن گئی!
ایک ایٹمی ملک کا سربراہ اپنے ملک سے سب سے بڑے ادارے سب سے معتبر جگہ پارلیمنٹ میں کھڑا ہو کر کہتا ہے کہ اسامہ بن لادن شہید تھے! اسی ایٹمی ملک کا وزیر داخلہ کہتا ہے کہ طالبان اب بدل چکے وہ انتہائی سمجھدار لوگ ہیں اسی ایٹمی ملک کا وزیر خارجہ کہتا ہے کہ طالبان سادہ لباس میں نہایت عقلمند لوگ ہیں!
سوال یہ ہے کہ ان سادہ اور سمجھدار لوگوں کے خلاف کئی دہائیوں تک پاکستان جنگ کیوں لڑتا رہا؟ پاکستان اگر ان کو شہید سمجھتا ہے تو ان کے ہاتھوں مارے جانے والے 70 ہزار سپاہیوں اور سویلنز کو کیا سمجھتا ہے؟
پاکستان کی سویت یونین کے خلاف جن جتھے کو تعاون کی یقین دہانی والی پالیسی کئی دہائیوں پہلے تھے کیا آج بھی اسی پر کاربند ہے؟ طالبان کا افغان سرزمین پر قابض ہونے کے بعد کے ماحول کا زمہ دار کون ہو گا؟ طالبان ابھی سے خواتین سے متعلق جو حکم نامے جاری کر رہے ہیں ان کے اثرات پاکستان سے ملحقہ بارڈرز پر کیا پڑیں گے؟ کیا اشرف غنی کی بجائے افغان پاک ڈپلومیسی کے لئے پاکستان طالبان سے مذاکرات کرے گا؟
ایک سوال جو پاکستان میں پچھلے 13 سالوں سے جب سے سول حکومتیں ملک پر مسلط ہیں اپنا وجود رکھتا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی آج بھی مقبوضہ کیوں نظر آتی ہے؟ قومی سلامتی کے نام پر دباؤ اور کاروائیاں صرف پاکستان کے اندر موجود سیاستدانوں اور سویلنز ہی کی وراثت ہیں؟ سٹیٹ کی اپنی پالیسی کیا ہے؟ افغان جنگ میں شمولیت کو کئی بار پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر ملک کے سربراہان نے تاریخی غلطی کی ہے! پاکستان میں حالات خراب ہونے کا ذمہ دار طالبان اور افغان بارڈر کو کہا ہے! گڈ طالبان اور بیڈ طالبان سے لے کر آل طالبان آر بیڈ کا نظریہ بیان کیا ہے، لیکن حقائق آج بھی نا صرف اسی تاریخی غلطی کی ڈگڑ پر کھڑے ہیں بلکہ مزید خطرات کا اشارہ دیتے ہیں.
عظیم بٹ لگ بھگ 8 برسوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ بطور سماجی کارکن ملکی و غیر ملکی میڈیا فورمز اور ٹیلی وژن چینلز پر پاکستان کا مؤقف پیش کرتے ہیں۔ سردست وہ سماء ٹی وی کے ساتھ بطور ریسرچر اور پروڈیوسر وابستہ ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل یہ ہے؛ Azeembutt_@