حکومت کسی کی بھی بنے، تحریک انصاف وزارت عظمیٰ کی کرسی تک رسائی حاصل نہیں کر سکے گی

حکومت کسی کی بھی بنے، تحریک انصاف وزارت عظمیٰ کی کرسی تک رسائی حاصل نہیں کر سکے گی
عام انتخابات کے انعقاد میں قریب ایک ماہ باقی بچا ہے اور جوں جوں عام انتخابات قریب آ رہے ہیں زمینی صورتحال بڑی تیزی سے تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں شاید پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ طاقت کی بساط کو سجانے اور اسے قابو میں رکھنے والی قوتوں کے خلاف ایک انتہائی مضبوط بیانیہ قائم ہو چکا ہے۔ تحریک انصاف پس پشت قوتوں کی تمام تر مدد کے باوجود انتخابی معرکے میں کسی مضبوط پوزیشن پر دکھائی نہیں دیتی ہے۔

مسلم لیگ نواز نے اب تک اپنے آپ کو بکھرنے سے کامیابی سے بچایا ہے۔ محترم چیف جسٹس ثاقب نثار کی بھرپور پھرتیوں، احتساب عدالت کی تیز ترین کارروائی کے باوجود اور مذہبی کارڈ کے استعمال کے باوجود پنجاب میں مسلم لیگ نواز کو کمزور نہیں کیا جا سکا اور نہ ہی اس کے نتیجے میں تحریک انصاف کو پنجاب میں کوئی خاص فائدہ پہنچایا جا سکا ہے۔

لاہور سے کشمیر تک ہر طرف مسلم لیگ کی آواز ہے

آپ لاہور سے سفر کا آغاز کیجئے اور کشمیر تک چلے جائیے آپ کو عوام کی اکثریت سے یہی سننے کو ملے گا کہ نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور پس پشت قوتوں نے عمران خان کو استعمال کرتے ہوئے مسلم لیگ نواز کی حکومت کو پانچ برس تک نان ایشوز میں الجھائے رکھا۔ بڑی بڑی پڑھی لکھی فیملیز جنہوں نے پچھلے انتخابات میں تحریک انصاف کو ووٹ دیا، اب اس جماعت سے سخت نالاں نظر آتی ہیں۔ کاروباری طبقہ اور درمیانے درجے کا تاجر مسلم لیگ نواز کو ووٹ ڈالنے پر آمادہ نظر آتا ہے۔ لیکن جو نئی چیز اس بار وسطی اور شمالی پنجاب میں دیکھنے کو مل رہی ہے وہ پڑھے لکھی نوکری پیشہ مڈل کلاس کی مسلم لیگ نواز کے ساتھ ہمدردی ہے۔ مین سٹریم میڈیا پر عائد سینسر شپ کے باوجود اس وقت عام آدمی حقائق اور حالات و واقعات سے مکمل طور پر آگاہ نظر آتا ہے۔ پس پشت قوتوں کی سیاست میں مداخلت کے خلاف اب گلی محلوں میں بحث ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ عدلیہ کے کردار پر عام آدمی سوالات اٹھاتے ہیں اور جناب چیف جسٹس کے فیصلوں اور ان کی حکومتی معاملات میں مداخلت کو انتہائی ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔



حنیف عباسی کے مقابلے میں شیخ رشید ضمانت بھی ضبط کروا بیٹھیں گے

صورتحال اس قدر دگرگوں ہے کہ شیخ رشید جو کہ پنڈی والوں کی بدولت عدلیہ سے تازہ تازہ صادق اور امین ہونے کی سند لے کر آیا ہے اور مذہبی کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے انتخابات میں حصہ لے رہا ہے، خود اس کی جیت کے آثار معدوم ہیں۔ حنیف عباسی کے مقابلے میں شیخ رشید صاحب شاید ضمانت بھی ضبط کروا بیٹھیں گے جبکہ دوسرے حلقے سے شکیل اعوان کے مقابلے میں اگر کسی گیٹ سے کوئی غیبی امداد نہ آئی تو شیخ صاحب کو وہاں سے بھی شکست ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ عمران خان کی اسلام آباد اور راولپنڈی کینٹ کی نشستیں مسلم لیگ نواز باآسانی جیتنے کی پوزیشن میں ہے جبکہ لاہور سے عمران خان نے اپنے آپ پر خود کش حملہ کرتے ہوئے سعد رفیق کے خلاف انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا ہے اور سعد رفیق لاہور شہر سے مسلم لیگ نواز کے سب سے مضبوط امیدوار ہیں۔

خواجہ آصف کی موجودگی بھی تقریباً کلین سویپ کا باعث بنتی دکھائی دیتی ہے

گوجرانوالہ ڈویژن سے خرم دستگیر خان کی کاوشوں اور ان کے والد غلام دستگیر خان کے اثر و رسوخ کے باعث مسلم لیگ نواز کلین سویپ کرتی دکھائی دیتی ہے۔ جبکہ سیالکوٹ ڈویژن سے خواجہ آصف کی موجودگی بھی تقریباً کلین سویپ کا باعث بنتی دکھائی دیتی ہے۔ سرگودھا ڈویژن اور فیصل آباد ڈویژن بھی باآسانی مسلم لیگ نواز کے پاس جاتا دکھائی دیتا ہے۔ جنوبی پنجاب سے شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کی لڑائی کا فائدہ آزاد امیدواروں کو ہو گا لیکن بہرحال الیکٹیبلز کی مدد سے تحریک انصاف جنوبی پنجاب سے اچھی تعداد میں نشتیں نکال لے گی۔ جبکہ لاہور سے شاید تحریک انصاف اس بار قومی اسمبلی کی ایک نشست بھی نہیں نکال پائے گی۔

جیل بھیجا تو پچھلی بار سے بھی زیادہ ووٹ ملیں گے نواز لیگ کو

یہ زمینی حقائق الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی سکرینوں سے پرے آپ کو پنجاب کے دیہاتوں، قصبوں اور شہری علاقوں میں دکھائی دیں گے۔ اب ان زمینی حقائق کی موجودگی میں نواز شریف اور مریم نواز کو احتساب عدالت کی جانب سے سزا سنا کر جیل بھیج دیا جاتا ہے تو پھر ہمدردی کی جو لہر پنجاب بھر سے اٹھے گی اس کے نتیجے میں مسلم لیگ نواز کو ملنے والا ووٹ پچھلے انتخابات سے بڑھ بھی سکتا ہے۔ یعنی اس وقت تک کی صورتحال کے مطابق ملکی تاریخ میں پہلی بار ملا، ملٹری اور عدلیہ کے گٹھ جوڑ کی شکست کے آثار پیدا ہونے شروع ہو چکے ہیں اور اس کا کریڈٹ عوام کے اس حصے کو جاتا ہے جو فرسودہ بیانیوں کو چیلنج کرتے ہوئے اب ملاؤں کے مذہب پر تسلط کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ جو اداروں کو ان کی آئینی حدود میں رہ کر کام کرتے دیکھنا چاہتا ہے، اور جو جمہوریت پر یقین رکھتے ہوئے پس پشت قوتوں کے حب الوطنی، 'ملک خطرے میں ہے' اور احتساب کے چورن کو خریدنے سے انکار کرتا ہے۔

نواز شریف اور مریم کا کمال بس یہ ہے کہ

نواز شریف اور مریم نواز کا اس میں صرف اتنا سا کریڈٹ ہے کہ انہوں نے وطن عزیز کے بدلتے ہوئے سماجی اور سیاسی حقائق کو بھانپتے ہوئے نئے سیاسی اور سماجی بیانئے کا علم تھام لیا جبکہ اس کے برعکس تحریک انصاف نے سٹیٹس کو کے بیانئے کو اپناتے ہوئے نوے کی دہائی کی سیاست کے انداز کو اپنایا۔

چلے ہوئے کارتوس جنگوں میں فتح کا نہیں بلکہ ہزیمت کا باعث بنا کرتے ہیں

حیران کن طور پر تحریک انصاف جو نوجوانوں کی اچھی خاصی تعداد کو اپنی جانب راغب کرنے میں کامیاب ہوئی، اس جماعت نے سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے روایتی سیاست کا وہ انداز اپنایا جو آج کے دور میں تقریباً ناقابل قبول ہو چکا ہے۔ جن لوٹوں کے دم پر یہ جماعت انتخابات کا معرکہ سر کرنے کا خواب سجائے بیٹھی ہے ان کی اکثریت چلے ہوئے کارتوسوں کی مانند ہے اور چلے ہوئے کارتوس جنگوں میں فتح کا نہیں بلکہ ہزیمت کا باعث بنا کرتے ہیں۔



مسلم لیگ نواز پنجاب سے ستر سے اسی نشستیں باآسانی جیت جائے گی

آپ وسطی پنجاب سے بذریعہ سڑک سفر کا آغاز کریں اور اٹک یا مری تک تمام شہروں اور قصبوں کا دورہ کریں تو آپ کو یہ زمیبی حقائق باآسانی نظر آ جائیں گے۔ شاید ہی پنجاب میں آپ کو کوئی شہر یا قصبہ ایسا دکھائی دے جہاں مسلم لیگ نواز کے ترقیاتی کام آپ کو دکھائی نہ دیں اور جہاں نواز شریف کی نااہلی اور مسلم لیگ نواز کو احتساب کے نام پر انتقام کا نشانہ بنائے جانے کے خلاف لوگوں میں غم و غصہ موجود نہ ہو۔ اگر مسلم لیگ نواز انتخابات تک اس ووٹ بنک کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہی تو پس پشت قوتوں کی قبل از انتخابات دھاندلی اور پولنگ ڈے پر ممکنہ طور پر بیلٹ باکسوں میں ردو بدل کے باوجود مسلم لیگ نواز پنجاب سے ستر سے اسی نشستیں باآسانی جیت جائے گی۔ تحریک انصاف شاید ملک بھر سے چالیس سے پینتالیس نشستوں سے زائد حاصل نہیں کر پائے گی جبکہ پیپلز پارٹی ساٹھ کے لگ بھگ نشستیں حاصل کرتی دکھائی دیتی ہے۔

تحریک انصاف وزارت عظمیٰ کی کرسی تک رسائی حاصل نہیں کر سکے گی

آئندہ بننے والی متوقع حکومت یا تو مسلم لیگ نواز سادہ اکثریت سے بنائے گی یا پھر پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور آزاد امیدوارں پر مشتمل ایک مخلوط حکومت تشکیل پائے گی۔ دونوں ہی صورتوں میں تحریک انصاف وزارت عظمیٰ کی کرسی تک رسائی حاصل نہیں کر سکے گی۔ طاقت کی بساط پر اصل جنگ مسلم لیگ نواز اور پس پشت قوتوں کی ہے جس میں عمران خان صاحب محض ایک ایسا مہرہ ہیں جسے مسلم لیگ نواز کے جیت کے مارجن کو کم کرنے کے لئے میدان میں اتارا گیا ہے۔ شطرنج کھیلنے والے جانتے ہوں گے کہ مہرے بادشاہ کو شکار کرنے میں مدد تو فراہم کر سکتے ہیں لیکن بذات خود کبھی بادشاہ نہیں بنا کرتے۔

کالم نگار

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔