'طالبان ہمارے رکھوالے': پاکستان میں طالبان کی حمایت میں ٹویٹر ٹاپ ٹرینڈ

'طالبان ہمارے رکھوالے': پاکستان میں طالبان کی حمایت میں ٹویٹر ٹاپ ٹرینڈ
پاکستان میں اس وقت سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ فیٹف نے پاکستان کو بھی گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ اس نے پاکستان کی بہت سی کوششوں کو سراہا بھی ہے۔ پاکستان میں حکومتی اور سیاسی و صحافتی حلقوں میں اس وقت اس پیش رفت کا تجزیہ کیا جا رہا ہے۔ حکومتی اراکین یہ بتا رہے ہیں کہ کس طریقے سے پاکستان نے بہت اچھا کیا اور اسے فیٹف کی گرے لسٹ سے باہر کرنا چاہیے تھا۔ جبکہ حکومت اپوزیشن پر تاک تاک کر نشانہ لگا رہی ہے۔ اس ساری صورتحال میں پریشان کن یہ ہے ہے کہ پاکستان کے ٹاپ ٹرینڈ میں اس وقت طالبان کی حمایت میں ٹویٹر ٹرینڈ جاری ہے۔ #Talibanourgardian یعنی طالبان ہمارے حفاظت کار کے نام سے یہ ٹرینڈ اس وقت ہزاروں ٹویٹ کے ساتھ ٹاپ پر ہے۔ یہ ٹرینڈ بنانے والوں میں کون لوگ شامل ہیں۔ اس حوالے سے ٹوئٹر پر کی جانے والی ٹویٹس میں مشاہدہ یہ ہے کہ اس میں میں وہ آئی ڈیز بھی شامل ہیں ہیں جو کہ کہ حکمران جماعت تحریک انصاف سے اپنی وابستگی یا اس کے لیے حمایت کا اظہار کرتے ہیں اور ان میں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی سے اپنی وابستگی کا اظہار شاور اس کے لیے حمایت کا اظہار کرنے والے اکاؤنٹس بھی شامل ہیں۔

https://twitter.com/husainhaqqani/status/1408400817363771396?s=08

تاہم اس حوالے سے معروف پاکستانی دانشور حسین حقانی کی ایک ٹویٹ مدنظر ہے۔ جس میں وہ وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے طالبان سے متعلق حمایتی بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کے سپورٹرز وزیراعظم عمران خان خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو صحیح ثابت کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اسامہ بن لادن کو اسمبلی کے فلور پر شہید قرار دیا تھا جب کہ وہ طالبان کو ظلم و بربریت کے حوالے سے سے کوئی الزام دینے کو تیار نہیں ہوتے اور اور افغانستان، طالبان کے مسئلے کو امریکی درندازی کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے جب ایک انٹرویو میں جو کہ وہ بین الاقوامی نشریاتی ادارے کو دے رہے تھے سوال پوچھا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان اسامہ بن لادن کو شہید قرار دیتے ہیں کیا آپ بھی ان سے اتفاق کرتے ہیں یا آپ اسے شہید نہیں مانتے۔ اس سوال پر پاکستانی وزیر خارجہ نے طویل توقف لے کر جواب دینے سے معذرت کرلی تھی۔یاد رہے کہ افغانستان میں امریکی افواج کا انخلاء جاری ہے جس کے بعد افغانستان میں میں طاقت حاصل کرنے کی کشمکش شدت اختیار کر چکی ہے۔ ماضی کی طرح اس بار بھی ابھی ایک جانب طالبان ہیں۔ دوسری جانب مغربی دنیا کی آشیرباد سے سے قائم افغان حکومت جبکہ علاقائی طاقتوں میں پاکستان بھارت ایران چین امریکہ روس اپنی اپنی گیم کھیل رہے ہیں اور ان سب کا ایک محور مرکز ہے کہ افغانستان میں امریکی خلا کے بعد خاطر خواہ اثر و رسوخ حاصل کیا جائے اور کابل میں بیٹھنے والے کسی بھی حکمران کو اپنے حوالے سے رام کیا جا سکے۔ افغانستان میں اس وقت بھی قتل و غارت گری میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے جس کی بنیاد سیاسی ہے۔ جبکہ تازہ ترین خبر میں امریکی انٹیلی جنس نے صدر بائڈن کو اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ افغان حکومت امریکی انخلاء کے بعد چھے ماہ سے زائد عرصے تک طالبان کے آگے نہیں کھڑی ہو سکے گی۔