لوگ بغاوت کیوں نہیں کرتے؟ مزدوراٹھ کھڑے کیوں نہیں ہوتے؟ کیوں انقلاب یا انقلابیوں کا ساتھ نہیں دیتے؟ باوجود غربت، جبر اور استحصال کے؟ تبدیلی کیوں نہیں آتی؟ کیوں ایک ہی طبقے اور ایک ہی طرح کے لوگ بار بار ہم پر مسلط ہو جاتے ہیں؟ اور کیوں ہم میں سے اکثر فرسودہ نظریات اور خیالات کی جگالی کرتے رہتے ہیں؟ کیوں انسانیت مخالف، غیر مساوی ڈھانچہ ایک عرصے سے قائم دائم ہے؟ یہ جمود، یہ گھٹن، یہ ٹھہراؤ آخر کب تک؟
مارکسی دانشور انتونیّو گرامچی (1891 - 1937) کے نزدیک بالائی طبقہ، اشرافیہ یا حکمران گروہ صرف وسائل اور ذرائع پیداوار پر اپنی اجارہ داری برقرار رکھنے سے ہی اقتدار اور مراتب پر فائض نہیں رہتے بلکہ "غالب نظریہ" یہ پیچیدہ کام سر انجام دیتا ہے۔ گذشتہ و پیوّستہ صدی کی آمرانہ و تحکمانہ حاکموں اور حکومتوں کو چھوڑیے اور سابقہ نوآبادیاتی اور غاصبانہ ادوار کا تو ذکر ہی کیا، آج کل کے اچھے برے جمہوری دور میں بھی یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں رہی کہ گھوم پھر کر صرف سرمایہ دار اور کار مختار طبقہ ہی اقتدار میں رہتا ہے اور واضح رہے کہ یہاں اقتدار سے مراد صرف سیاسی اقتدار نہیں ہے بلکہ ثقافتی، سماجی اور معاشی تسلط بھی اس میں شامل ہے۔ اپنے منصب کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ طبقہ حکمران نظریے کی مزید سے مزید ترویج و اشاعت جاری رکھتا ہے۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ مفلس اور نچلے طبقے کے لوگوں کے علاوہ کئی ایک بظاہر معاملہ فہم، روشن خیال اور ترقی پسند لوگ بھی اسی پسماندہ نظر، جمود پسند اور استحصالی نظریے کے سکے جھنجھناتے ہوئے نظر آتے ہیں جسے سربر آوردہ کمیّون اپنی مطلب کوشی کے لئے ان کے خلاف استعمال کرتا ہے۔
ہرچند کہ دونوں کا انداز و اسلوب اور الفاظ و اظہار فرق ہو سکتے ہیں مگر پوشیدہ معانی اور مقاصد ایک ہی رہتے ہیں۔ یہی وہ نظریاتی مقام ہے جہاں جابر اور مجبور، ظالم اور مظلوم، حاکم اور محکوم دونوں ایک ہی چادر کا سوت کات رہے ہوتے ہیں، چاہے دھاگوں کا رنگ اور دھاری الگ الگ ہی نظر آتے ہوں۔ ایسی صورت میں طبقاتی جدو جہد اور جدلیاتی کشمکش کیسے جنم لے سکتی ہے؟ تاریخ کا دھارا کیسے موڑا جا سکتا ہے؟ اور نیا معاشی اور سماجی ڈھانچہ کیسے تشکیل پا سکتا ہے؟ گرامچی کے نزدیک طبقاتی جدوجہد، جدلیاتی مادیت کا لابدی اور فطری نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے شعوری منصوبہ بندی اور کوشش لازمی ہے۔
حالیہ جمہوری طرز حکمرانی میں بھی (چاہے وہ ترقی یافتہ جمہوریہ ہو یا ترقی پذیر)، حزب اقتدار اور حزب اختلاف اپنے ظاہری اختلاف کے باوجود ایک ہی نظریے اور ایک ہی نظام یا نطام علم و تحکم کی سند، تسلط اور ادارہ سازی یا قانون بافی سے عوام پر مسلط رہتے ہیں، جسے گرامچی "ھیجیمونی" یعنی "ثقافتی یا نظریاتی جبر" قرار دیتا ہے۔ پاکستان کی حالیہ صورت حال اس کی بہترین عکاس ہے جس میں تینوں چاروں بڑی پارٹیاں، سینکڑوں نام نہاد دانشور، ادیب، شاعر، اور مبصر و محقق اور اینکر پرسن ایک ہی نظریے کے پرچار، تقویّت اور انجزاب میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔
سیاسی لحاظ سے محض اکا دکا کو چھوڑ کر، تمام پارٹیاں اور کم و بیش تمام لیڈرز شب و روز یہ ثابت کرنے میں جتے رہتے ہیں کہ اس نظریے کے اصل امین، علمبردار اور ادارہ ساز وہی یا ان کی پارٹی اور ان کے ہمنوا ہیں۔ اور ملک کے اندر وہی اس نظریے کا بہترین احترام، اہتمام اور اطلاق بھی کر سکتے ہیں۔ گرامچی کے خیال میں یہ جبر کسی طرح کے عملی یا جسمانی جبر سے ہٹ کر ہوتا ہے، کیونکہ یہ عوام کا مستقل فطری، قلبی اور ذہنی مزاج اور رجحان بن چکا ہوتا ہے اور لوگوں کو اس کے بغیر چیزیں اور معاملات لایعنی اور لاحاصل نظر آتے ہیں۔ در اصل کوئی بھی گروہ یا طبقہ اس کو ایجاد یا اختیار نہیں کرتا بلکہ یہ صدیوں سے موجود ہونے کی وجہ سے تعمیر و تشکیل پاتا رہتا ہے اور یکے بعد دیگرے تہ در تہ، دبیز سے دبیز تر اور گہرے سے گہرا تر ہوتا چلا جاتا ہے اور لوگوں کے اپنے اور بالخصوص اشرافیہ کے مکرر استعمال، اشتمال اور افکار و اظہار سے سالہا سال کا تقدس، استحکام، تزئین اور تیقن سمیٹ کر بدیہی اور آفاقی بنتا چلا جاتا ہے۔ اور پھر اگر کوئی فرد، ادارہ یا پارٹی اس نظریے کے خلاف بات کرے تو اسے فوراً کم عقل اور دیوانہ قرار دے دیا جاتا ہے یہاں تک کہ اس پر کوئی استدلال، کوئی مکالمہ ممکن نہیں رہتا اور اس فکر بندی میں عام عوام بھی شامل ہوتے ہیں جن کے خلاف یہ نظریہ ہمہ وقت بر سر پیکار رہتا ہے!
بعد میں فرانسیسی فلسفی 'مشل فوکو' نے 'غالب اور استحصالی نظریے' کی نئی پرتوں کا کھوج لگاتے ہوئے یہاں تک بھی کہہ ڈالا کہ ہر زمانے اور خاص خاص خطوں کے غالب نظریے کا اپنا ایک 'علمی دور' ہوتا ہے، یہ دور بہت طویل بھی ہو سکتا ہے اور کسی حد تک مختصر بھی۔ لوگوں کی بڑی تعداد اسی غالب و جابر علمی و نظریاتی حقیقت میں زندہ ہوتی ہے، اور اسی عدسے سے سماجی، سیاسی اور معاشی حقائق کو دیکھتی ہے اور اس علم کا غلبہ بغیر کسی بھونچال کے صدیوں بلکہ ہزاروں سالوں تک بھی قائم رہ سکتا ہے۔ کچھ دوسرے معنوں یا تاریخی پس منطر میں وہ اسے 'جینیالوجی آف نالج' یا علم کا شجرہ اور حسب نسب بھی قرار دیتا ہے۔ عام لفظوں میں تو وہ اسے "علم" ہی کا نام دیتا ہے لیکن یہ علم سائنس، سماجی سائنس اور منظق سے ماورا محض اقدار، خیالات، رسوم و رواج اور اعتقادات کا مجموعہ بھی ہو سکتا ہے۔ عمومی جبر کے علاوہ اس نظریے کے اندر ایک نوع کی اپنی تخلیقی اور تعمیری کشش اور صلاحیت بھی موجود ہوتی ہے۔
مشل فوکو کے نزدیک علم، یعنی وہ علم جسے سماج میں علم سمجھا جائے، چاہے وہ سائنسی یا فلسفیانہ بنیادوں پر قائم ہو یا نہ ہو۔ لکھنے پڑھنے، بات چیت کرنے، یا بحث مباحثے کے ذریعے کسی بھی معاشرے میں ایک فرد سے دوسرے فرد، ایک نسل سے دوسری نسل اور ایک دور سے دوسرے دور میں منتقل ہوتا ہے۔ اور وہ علم جسے عمومی طور پر علم سمجھا جاتا ہے، اکثر اوقات جدید علمیات کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا مگر اس علم کے ریشے زبان، تاریخ، روز مرہ معاملات، سیاست اور طاقت کے ساتھ اس طرح پیوست ہوتے ہیں کہ انہیں جدا نہیں کیا جا سکتا۔ اس سارے مظہر کو وہ 'ڈسکورس' قرار دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ڈسکورس ہی کسی معاشرے کا دنیا کے بارے میں ادراک و تصور یا "ورلڈ ویو" تخلیق کرتا ہے۔ اور ڈسکورس ہی معاشرے میں اونچ، نیچ، عدم مساوات یا طاقت کا عدم توازن جنم دیتا ہے۔ اور ڈسکورس ہی مقبول ترین سماجی رویّے تراشتا ہے اور ڈسکورس پر ہی طاقت اور اقتدار کے اہرام اٹھائے جاتے ہیں۔
دراصل ڈسکورس کے اندر کوئی ایک بیان، اظہار یا پریکٹس نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک طرح سے جیون کے رنگ و آب کی بوقلمونیت ہے جو سماج میں صدیوں تک رواں دواں رہتی ہے۔ مگر اپنے پس منظر میں وہ ایک ہی نظریے یا اعتقاد کے فلکرم پر گھوم رہا ہوتا ہے – یہی وجہ ہے کہ ڈسکورس ہی سیاسی آئیڈیالوجی اور سیاسی اور سماجی اداروں کی تزئین و تعمیر اور معنویّت کی تشکیل کرتا ہے جس کے بغیر لوگوں کو اس معاشرے میں بہت سی چیزیں سمجھنے میں دقت ہوتی ہے – گویا ڈسکورس کے بغیر گرد و نواح کی کوئی چیز، کوئی تصور، کوئی مظہر وجود نہیں رکھتا، یعنی یہ سب کچھ موجود تو ہو سکتا ہے جیسا کہ "گائے، کبوتر، مکان، خالد، پھول، کتاب، ماضی، حال یا اقبال کی شاعری" اور آپ انہیں دیکھ یا چھو سکتے ہیں لیکن یہ سب کسی بھی ذی شعور شخص کے ذہن میں ڈسکورس کی بدولت ہی کوئی نام اور معانی رکھتے ہیں ورنہ شاید ان کا کوئی وجود نہ ہو۔ ڈسکورس ہی اشیا اور معاملات کو عدم اور وجود عطا کرتا ہے جو کہ زبان، عادات اور افعال و اقوال کے ساتھ سلے ہوئے ہوتے ہیں۔ ڈسکورس ایک طرح کی زبان ہے اور بقول مشل فوکو "معاشرے اپنی اپنی زبان میں چلتے بھرتے یا زندہ رہتے ہیں اور کوئی بھی شخص زبان سے باہر قدم نہیں رکھ سکتا، کیونکہ وہ اس ان دیکھی قید میں قید ہے"۔
مذہبی اعتقادات، محبت یا تعصب، اپنائیت یا فرقہ واریت، انسانیت یا تشدد، مساوی سلوک یا امتیازی رویے، تنگ نظری یا وسیع القلبی، ترقی یا تنزلی سب کچھ ڈسکورس کے ذریعے ہی متحرک رہتا ہے۔ سیاسی جماعتوں مثلاً پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی، یا دوسری مذہبی یا سیکولر پارٹیوں کے حق میں یا خلاف ہم ڈسکورس کے ذریعے ہی رائے قائم کرتے ہیں۔ نمایاں سیاسی اور غیر سیاسی شخصیات، اشیا اور معاملات کے بارے میں بھی لوگ ڈسکورس کے دائرۂ کار کے اندر ہی رائے قائم کرتے ہیں اور کسی بیانیے کو سراہتے یا رد کرتے ہیں، گویا معاملات، معمولات یا معلومات کی معنویت اور حقیقت ڈسکورس کے ذریعے ہی طے ہوتی ہے اس لئے برخلاف مارکسی تھیوری کے اور کسی حد تک گرامچی کے نقطۂ نظر سے ہٹ کر بھی، صرف طاقتور طبقہ اور حکمران اشرافیہ ہی طاقت اور استحصال کا نظام تشکیل نہیں دیتے بلکہ اس میں دوسرے سماجی ادارے مثلاً غربت اور امارت اور قوت اور زد پذیری کے بارے میں سماجی اور مذہبی تصورات، جمہوریت یا آمریت، صنفی تعلقات، قومیت اور قومیتی حقوق کا سوال اور اقلیتی، اکثریتی تعلقات بھی شریک عمل رہتے ہیں۔
مراد یہ ہے کہ راہنما یا دانشور نظریہ تخلیق نہیں کرتے بلکہ نظریہ راہنما اور دانشور تخلیق کرتا ہے اور یہ کی علم طاقت نہیں ہے بلکہ طاقت علم ہے اور ڈسکورس علم اور طاقت کا سمبندھ بنا کر سوسائٹی کو جمود سے دو چار کرتے ہیں۔
ایسا علم یا ایسے اعتقادات کی پکڑ اور جکڑ اس قدر مضبوط اور توانا مگر غیر محسوس ہوتی ہے کہ مشل فوکو لوگوں کو ثقافتی یا نظریاتی غلام یا فکری اسیر قرار دیتا ہے۔ ایک ایسی اسیری جو محکوم طبقہ، عوام، غریب لوگ اور بالخصوص مڈل کلاس اپنی خوشی اور آزادی سے اختیار کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایک ایسا جوا جسے لوگوں نے آپ ہی آپ زیب گلو کیا ہوتا ہے۔ اور انہیں اس میں کوئی جبر، سکیم یا مجبوری نظر نہیں آتی بلکہ اس کی پیروکاری میں انہیں غربت، پس ماندگی اور معاشی تنگی سے ریلیف اور تسکین محسوس ہوتی ہے جو عمومی یقین بلکہ مارکس اور گرامچی کے تصوۤر سے ماوارا اسں نظریے کا "سبب نہیں بلکہ نتیجہ" ہوتی ہے۔ مگر انتونیو گرامچی اور مشل فوکو کے نزدیک مذکورہ بالا غالب نظریاتی دائرہ کار میں زبان، روایات، رسوم و رواج، ذات پات، عقائد، طبقاتی اونچ نیچ، عورتوں کا روایتی منصب اورسب سے بڑھ کر سوشل آرڈر اور مذہب سب کچھ شامل ہوتا ہے۔
اشرافیہ اور حکمران طبقہ بار بار گرامچی کے لفظوں میں "نظریاتی غلبے" اور فوکو کے لفظوں میں "ڈسکورس" کی نظریہ فشانی، تشریح و تفسیر اور معجز بیانی میں شاعری، ادب، تاریخ، سیاست اور معروف اقوال یا واقعات کا سہارا لیتے ہیں اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ حکمران اشرافیہ کے اپنے قول و فعل میں تضاد نہایت واضح ہو یا ان کا اپنا یقین بھی متزلزل ہو مگر وہ لوگوں کو ڈسکورس کی غلام گردشوں سے باہر نہیں نکلنے دیتے کیونکہ یہی نظریہ ان کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔
مگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو ماضی کے سادہ ترین معاشروں کے مقابلے میں آج کے جدید مشرقی اور مغربی معاشروں میں بھی ایک ہی ڈسکورس اور ایک ہی غالب نظریے کی بجائے چھوٹی اور بڑی سطح پر ایک سے زیادہ ڈسکورسز اور ایک سے زیادہ نظریات ایک طرح کی کشاکش یا جدلیاتی رشتے میں بندھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ غالب نظریہ اور غالب ڈسکورس تو دور کی بات ہے کسی ایک سائنسی یا سماجی شعبے یا عملی زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی کمیونیٹیز کے عمومی نظریے یا تصورات زمان و مکان بھی ایک دوسرے سے فرق نظر آتے ہیں – تاہم یہ ضرور ممکن ہے کہ وہ ایک ہی زبان، یا قومیت یا عقیدے کے تار و پود کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوں – باوجود اپنی کم یا زیادہ، چھوٹی یا بڑی سطح، عارضی یا مستقل باہمی جدلیات یا کشمکش کے۔ مگر بیک وقت یہ بھی ممکن ہے کہ معاشرے، بالخصوص ترقی پذیر یا روایتی معاشرے میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہو – اور اگر ایسی صورت حال ہو تو کیا کیا جا سکتا ہے؟
پیچیدہ، مشکل اور دقت طلب ہی سہی مگر برازیلین معلم پاؤلو فرائرے (1921-1997) ہمیں "ڈسکورس" یا "غالب نظریے" سے یا بعض صورتوں میں ان کی عمومی نہیں تو متشدد کشمکش سے آزادی کا ایک قابل اعتماد اور آزمودہ راستہ ضرور سجھاتا ہے۔ اپنی معروف کتاب "مظلوموں کا نصاب (1968)" میں وہ اپنے نظریے کو "تنقیدی شعور" اور "تنقیدی نصاب" کا نام دیتے ہوئے کافی گہرائی اور گیرائی سے وضاحت کرتا ہے کہ اس کے نزدیک موجودہ عدم مساوی استحصالی سماجی ڈھانچہ اونٹولیجیکل یا فطری نہیں ہے بلکہ تاریخی ثقافتی عمل سے تشکیل دیا گیا ہے بلکہ ایک طرح کا تاریخی پراڈکٹ ہے جس میں کچھ نظریات کو ہیچ قرار دیا گیا ہے اور کچھ کو اعلیٰ و ارفع یا بدیہی جو نئی فکر اور خیالات کی نئی جہتیں متعارف کروانے میں رکاوٹ بنتے ہیں – کچھ کمیونیٹیز یا نچلے طبقات کو ڈی ہیومانائز یا انسانیت سے کم درجے کا بتانا بھی تاریخی پراسس اور تاریخی پراڈکٹ ہیں۔ ہر لمحہ اور ہر حوالے سے غیر منصفانہ مگر طاقتور سماجی قوتیں اس کو تشکیل دے کر مضبوط سے مضبوط کرتی رہتی ہیں اور آزادی فکرو اظہار کے راستے میں سد راہ ثابت ہوتی ہیں۔
فرائرے کی رائے میں اس نظریاتی جبر سے آزادی ممکن ہے اور نیا نظریہ یا نئے نظریات تشکیل دیے جا سکتے ہیں؟ اور کچھ نہیں تو کم از کم غالب نظریے کے استحصالی پہلوؤں کو محدود ضرور کیا جا سکتا ہے۔ اور اگر ایسا ہے تو کس طرح؟ کس طرح آزادی بخش، مساوات پسندانہ، منصفانہ اور خوشحالی عطا کرنے والے نظریے کااجرا، آغاز اور پھیلاؤ ممکن بنایا جا سکتا ہے؟ اس کا حل بھی پاولے فرائرے خود ہی تجویز کرتا ہے۔
مارکس کے اپنے خیال کے برعکس گرامچی کی رائے میں بھی یہ جنگ طبقاتی کشکمش کی نہیں، جدلیاتی مادیت کی بھی نہیں اور نہ ہی تاریخی جبریت اور انقلاب کے لازمی امکان کی جنگ ہے جو کسی ایک یا دوسری ریاست میں کسی ایک یا دوسرے میدان یا گلی محلوں میں لڑی جا سکتی ہے بلکہ یہ جنگ نظریاتی جنگ ہے اور میدان کارزار میں نہیں بلکہ لوگوں کے قلب و اذہان میں لڑی جانی چاہیے – اس جنگ کا اہم ترین مقصد سماجی اور معاشی ڈھانچوں کو بدلنا ہو۔ اس کے نزدیک یہ کام دو سطحوں پر کرنے کی ضرورت ہے یعنی اوپر سے انقلابی سیاست کے ذریعے یہ حجری ڈھانچہ بدلا جا سکتا ہے جب کہ نیچے سے پچھڑے ہوئے طبقات کا نظریاتی شعور بلند کر کے۔ جب کہ پاولوفرائرے کے نزدیک یہ ناگزیر تبدیلی صرف اور صرف رسمی اور غیر رسمی تعلیم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ کیونکہ تعلیم ہی اس تاریخی جمود و انجماد کا موثر ترین ہتھیار رہا ہے۔ اس لئے انقلابی تعلیم ہی کے ذریعے غیر مساوی اور مستحصل نظام کو منہدم کر کے نیا سماج تشکیل دیا جا سکتا ہے۔
گرامچی کی طرح ہیگل، مارکس اور انگلز پر تنقید کرتے ہوئے فرائرے نے مظلوموں کا نصاب (1968) تشکیل دیا۔ اس کے نزدیک تعلیم اور جبر کا آپس میں تاریخی اور سیاسی تعلق رہا ہے اور ترقی پسندی کا مطلب انسانی قوتوں کو آزاد کرنا ہے۔ استحصالی سماجی ڈھانچوں کو بدلنے کے لئے سماجی شعور کا ہونا اور انسانی پوٹینشل کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ جب مقتدر طبقہ نچلے طبقے کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے تو وہ ایک طرح سے انسانی پوٹینشل کے خلاف تشدد کرتا ہے جو بیگانگیت کی ایک قسم ہے۔ یہ قبضہ اور تصرف ایک طرح کا ملکیتی رویہ ہے گویا انسان ہونا بھی ایک طرح کی ملکیت میں ڈھل جانا ہے۔ یعنی 'میں وہی ہوں جو کچھ کہ میرے پاس ہے یعنی میری ملکیت ہی مجھے ڈیفائن کرتی ہے'۔ اور ہر انسان یہ سوچنے لگتا ہے کہ 'مجھے زیادہ سے زیادہ جمع کرنا چاہیے حتیٰ کہ مجھے انسانوں کو بھی رکھنا، جمع کرنا اور ان کا مالک ہونا چاہیے کیونکہ اسی طرح میں اپنے آپ کو بہتر ڈیفائن کر سکتا ہوں'۔ دراصل انسانوں کو چیز سمجھنا اپنی موضوعیت کو ضائع کر دینے کے مترادف ہے۔ چونکہ ملکیت کسی بھی وقت ضائع ہو سکتی ہے اور اگر ملکیت ضائع ہو جائے تو کیا انسانیت باقی رہ جائے گی؟ اس مساوات کے مطابق 'نہیں'۔ مسرت جاتی رہے گی یعنی "میں اور میرا وجود" جاتا رہے گا کیونکہ میرے پاس کوئی ملکیت نہیں ہے۔ مگر عمومی سماجی زندگی میں ملکیت پر ہی امرا اور حکمران طبقے کی اجارہ داری ہے۔
مجبور اور مظلوم اور پچھڑے ہوئے لوگ اپنی مظلومیت کو اپنی ذہن و قلب میں مرتسم کر لیتے ہیں اور طاقتور طبقہ اس کو باقاعدہ ادارتی شکل اور تسلسل فراہم کرتا رہتا ہے - اور پچھڑا ہوا طبقہ اپنا 'انسانی شعور' گنوا دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ظالم اشرافیہ انہیں بھی اپنی اور اپنے نظریے کی ضمنیات میں شامل کر لیتے ہیں اور انہیں اپنے اور اپنی ہی کلاس کے خلاف برسر پیکار کر دیتے ہیں۔ اپنا انسانی شعور گنوا کر وہ بذات خود ایک 'چیز' بن جاتے ہیں اور یہ تسلیم کرنے لگتے ہیں کہ "وہ خود کچھ نہیں ہیں" بلکہ ذریعہ ہیں کسی دوسرے کی تسکین و مسرت اور طاقت اور اختیار کو تقویت دینے کا۔ اس طرح غیر محسوس انداز میں طاقتور طبقے کا نظریہ ہی عام طبقے کا نظریہ بن جاتا ہے۔ اور ایسا نظریہ فقط اوۤل الذکر کے مفادات کو ہی تقویت دیتا ہے۔ انتہائی چالاکی سے "ایلیٹ" اپنے نظریے کو معاشرے کے "متفقہ نظریے" کے طور پر پیش کرتی اور اس کی آبیاری اور ثقافت گری کرتی ہے – نتیجتاً سیاسی، سماجی اور معاشی ادارے صرف بالائی طبقے کے مفادات کے لئے کام کر رہے ہوتے ہیں اور ایک بار پھر ان اداروں کا بہترین آلہ کار بھی تعلیم ہی ثابت ہوتی ہے۔
زکوٰۃ، خیرات، وظائف کی تقسیم، یتیم خانے اور لنگر خانے وغیرہ کھولنا اور اس جیسے دوسرے مالی، مادی یا غذائی پروگرام چلانا بھی ایک طرح سے طبقاتی تفریق کو برقرار رکھنے کا عمل ہوتا ہے جن کے ذریعے اشرافیہ اپنے وقار اور جابرانہ رویے کو غیر محسوس طریقے سے بڑھاوا دیتے اور محترم و مکرم قرار دیتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جبر بذات خود انسانیت مخالف رویہ ہے۔ جب کہ ان نظریات کو عام آدمی کے مفادات کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور وہ در پردہ عام آدمی کے خلاف ہی کام کر رہا ہوتے ہیں اور ان نظریات کے فروغ اور انجذاب میں تعلیم ہی مرکزی کرادار ادا کر تی ہے، جسے فرائرے بنکنگ یعنی جمع تفریق جیسا یا خالی کنٹینر میں کچھ بھرنے انڈیلنے کے مترادف نظام تعلیم قرار دیتا ہے جس میں استاد ایک کنٹینر سے دوسرے کنٹینر میں اشیا یا چیزیں یا علم انڈلیتا ہے یا جمع کرتا ہے جسے بعد میں نکال نکال کر شاگرد، عام آدمی یعنی سوسائٹی استعمال کرتی رہتی ہے اور افراد کی حیثیت محض آبجیکٹ یا ڈبے یا باکس سے زیادہ نہیں ہوتی – ایسا ڈبہ جس میں (خود مخالف استحصالی) خیالات جمع کیے جاتے ہیں۔ اس میں استاد (اور ارباب اختیار) تمام طاقت کے حامل اور شاگرد (عام لوگ یا زد پذیر نچلا طبقہ) کمزور، کم عقل، بے اختیار اور فقط طاقتور لوگوں کا ایندھن یا خام مال کے طور پر ہی کام کرتے ہیں۔ روایتی تعلیم یا فرائرے کے لفظوں میں بنکنگ نما تعلیم ایک نئی طرح کی طبقاتی تفریق پیدا کرتے ہیں۔ اور تعلیم ایک ایسے میکانکی یا صنعتی عمل کی مثال بن کر رہ جاتی ہے جس میں طالب علم کی حیثیت فیکٹری سے بنی ہوئی کسی پراڈکٹ سے زیادہ نہیں رہ جاتی۔ اس عمل میں طالب علم کا ذہن اور رویے کی حیثیت استعمال کیے جانے والے مواد کی طرح ہوتی ہے جس کو استاد (اور اعلیٰ طبقہ) سماجی مارکیٹ میں بکنے (گھومنے پھرنے) اور قبول کی جانے والی ایک شے بنا چھوڑتا ہے۔ ایسے نظام میں طالب علم اور عام افراد "دنیا میں" ہوتے ہیں مگر "دنیا کے ساتھ" نہیں ہوتے۔
اسی لئے معاشرے میں جابرانہ، استحصالی، منجمد اور غالب نظریے کو بدلنے کے لئے رسمی اور غیر رسمی تعلیم کو بدلنا، نصاب میں انقلابی تبدیلی لانا، اور طریقہ تعلیم کو بدلنا انتہائی ضروری ہے۔ تعلیم کا اصل مقصد جمہوری طریقہ کار اختیار کرنا، مکالمہ کرنا اور انسانیت کی تشکیل اور انسانیت کا فروغ ہے، آزادئ فکر و اظہار فراہم کرنا ہے اور انہی اصولوں پر تعلیم کو استوار کرنا نہایت ضروری ہے۔ جابرانہ سماجی ڈھانچوں کو ٹرانسفارم یا تبدیل کرنا فقط نئی اور اصل تعلیم کے ذریعے ہی ممکن ہے جو کہ تنقیدی شعور اور تنقیدی ریفلیکشن اور انٹریکشن ہی کا دوسرا نام ہے۔ ایسی تعلیم جو بحث مباحثہ سکھائے، غور و فکر پر اکسائے، مسائل کے حل کی طرف توجہ دے نہ کہ ان کو بڑھائے یا برقرار رکھے۔ تارخی حقائق کو منکشف اور عام سماجی اور معاشی حقائق کو کھول کر بیان کرے نہ کہ انہیں طاقتور طبقے کے 'آلے' کے طور پر استعمال کرے – تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ معاشرے میں کس طرح طاقت کا نظام مستقل، ہر جگہ اور ہر دائرہ کار میں اثر انداز رہتا ہے۔ اس کو سمجھ میں آئے کہ کس طرح سماج کی شرح اور بست و کشاد عام آدمی کے حق میں کرنی ہے، کس طرح لوگوں کو یہ سمجھانا ہے کہ حقائق متغیّر اور متبدل ہیں۔ ساکت اور قائم نہیں ہیں۔ جامد اور منجمد نہیں۔
حیرت انگیز انکشافات کرتے ہوئے وہ ثابت کرتا ہے کہ جبر اور ملکیت کے اس عمل میں اشرافیہ نہ صرف مظلوموں کی بلکہ اپنی انسانیت کو بھی گنوا دیتی ہے اور وہ خود بھی ایک ہی طرح کا رویہ اختیار کر کے آبجیکٹ یا چیز ہی بن کر رہ جاتی ہے۔ اپنے آپ کو محض ملکیت سے 'ڈیفائن' کرنا شروع کر دیتی ہے۔ جب کہ طبقاتی تفریق ختم کر کے وہ ناصرف پسے ہوئے طبقے کو آزاد کر سکتی ہے بلکہ اپنے آپ کو بھی آزاد کر سکتے ہیں۔ گویا غیر منصفانہ سماج کو صرف تنقیدی شعور سے ہی بدلا جا سکتا ہے جو کہ ظالم اور مظلوم دونوں کی شعوری کوشش سے ہی ممکن ہے۔
مطلب یہ ہے کہ جابر کو بھی طاقت پر مبنی رشتوں کو سمجھنا چاہیے۔ اور ٹرانسفارم کرنے میں تعاون کرنا چاہیے اور ایک بار پھر یہ بھی انسانیت ساز نصاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ تعلیم ہی ہر سطح پر اور ہر طبقے میں انسانیت، مساوات، جمہوریت اور آزادی کی تشکیل کر سکتی ہے۔ چونکہ غیر جمہوری، غیر انسانی، غیر مساوی اور غیر منصفانہ سماج کی تشکیل میں نصاب ہی اہم ترین کردار ادا کرتا ہے اسی لئے مساوی، جمہوریت پسند اور انسانی نصاب ہی اسکو بدلنے کی طاقت رکھتا ہے۔