اعتبار ساجد نے کہا تھا؛
؎صفِ ماتم نہ اٹھاؤ اے مرے نوحہ گرو
موسمِ مرگِ مسلسل ابھی گزرا تو نہیں ہے
ابھی امجد اسلام امجد صاحب کی موت کا دکھ تازہ تھا کہ ضیاء محی الدین صاحب بھی چھوڑ کر چلے گئے۔ فروری کا مہینہ تو بہت ہی ستم گر ثابت ہوا ہے۔ کچھ پیاروں کے جانے کا غم جب تک سانس ہے ہر سال اس ماہ مناتے رہیں گے۔ ضیاء محی الدین کیا شخصیت تھے۔ اردو زبان کو ایسا لب و لہجہ دے گئے کہ ان کی آواز تا قیامت کانوں میں گونجتی رہے گی۔
امجد اسلام امجد صاحب وہ ڈرامہ نگار تھے جو پاکستان ٹیلی ویژن کے بانی ڈرامہ نگاروں میں سے ایک تھے۔ 'وراث' کو کون بھول سکتا ہے؟ چودھری حشمت کا ایسا کردار تخلیق کیا کہ اداکار مجبوب عالم ساری زندگی اس کردار کے سحر سے باہر نہ نکل سکے۔ ان کے کامیاب ڈراموں میں وارث کے علاوہ دہلیز، سمندر، رات، وقت اور ہم لوگ شامل ہیں۔ وہ کافی عرصے سے ڈرامہ نہیں لکھ رہے تھے۔ کہتے تھے کہ جس قدر لکھا ہے یادگار رہے گا اور اس میں کوئی شک بھی نہیں۔ ان کی شاعری کی کتابوں میں بارش کی آواز، شام سرائے، اتنے خواب کہاں رکھوں، نزدیک، ساتواں در، یہیں کہیں، فشار، سحر آثار، برزخ، اس پار شامل ہیں۔ طویل عرصے تک اردو کالم نگاری بھی کرتے رہے۔
اگر کبھی میری یاد آئے
تو چاند راتوں کی نرم دلگیر روشنی میں
کسی ستارے کو دیکھ لینا
اگر وہ نخل فلک سے اڑ کر تمہارے قدموں میں آ گرے تو
یہ جان لینا وہ استعارہ تھا میرے دل کا۔۔
آہ۔۔۔ امجد اسلام امجد کے بعد ضیاء محی الدین صاحب آپ بھی چلے گئے۔ آواز کے لازوال جادوگر، عالمی شہرت یافتہ ہدایت کار، معروف صدا کار، بہترین اداکار اور لاجواب میزبان ضیاء محی الدین کراچی میں 91 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ طبیعت کی ناسازی کے باعث وہ کراچی کے نجی اسپتال میں زیرِ علاج تھے۔ انہیں اسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں رکھا گیا تھا جہاں پیر کی صبح وہ دورانِ علاج انتقال کر گئے۔
ضیاء محی الدین 20 جون 1931 کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔ ضیاء محی الدین کے والد کو پاکستان کی پہلی فلم 'تیری یاد' کے مصنف اور مکالمہ نگار ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ضیاء محی الدین نے 1950 کی دہائی میں لندن کی رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹ سے اداکاری کی باقاعدہ تربیت حاصل کی۔ 1962 میں انہوں نے مشہور فلم 'لارنس آف عریبیہ' میں یادگار کردار ادا کیا۔ ضیاء محی الدین نے ریڈیو آسٹریلیا سے صداکاری سے کام کا آغاز کیا۔ بہت عرصے تک برطانیہ کے تھئیٹر کے لیے بھی کام کیا۔ برطانوی سنیما اور ہالی ووڈ میں بھی فن کے جوہر دکھائے۔ وہ براڈ وے کی زینت بننے والے جنوبی ایشیا کے پہلے اداکار تھے۔
1970 کی دہائی میں انہوں نے پی ٹی وی سے ضیاء محی الدین شو کے نام سے منفرد پروگرام شروع کیا۔ ضیاء محی الدین 1973 میں پی آئی اے آرٹس اکیڈمی کے ڈائریکٹر مقرر کر دیے گئے۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد وہ واپس برطانیہ چلے گئے۔ 1990 کی دہائی میں انہوں نے مستقل پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ ضیاء محی الدین نے انگریزی اخبار 'دی نیوز' میں کالم بھی لکھے۔ ان کی کتاب ‘A carrot is a carrot’ ایک مکمل ادبی شہ پارہ ہے۔ حکومت کی جانب سے ضیاء محی الدین کو ان کی خدمات کے اعتراف میں 2003 میں ستارۂ امتیاز اور 2012 میں ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا۔ 2004 میں ضیاء محی الدین نے کراچی میں نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کی بنیاد رکھی اور زندگی کے آخری لمحات تک اس ادارے کے سربراہ رہے۔
نیا سال فروری میں اردو زبان و ادب پر بہت بھاری ثابت ہوا۔ امجد اسلام امجد اور ضیاء محی الدین جیسے ہیرے اس جہاں سے چلے گئے۔
حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔