سپریم کورٹ نے این اے 75 ڈسکہ میں 10 اپریل کو دوبارہ الیکشن ملتوی کردیا۔ سپریم کورٹ میں ڈسکہ الیکشن سے متعلق کیس کی سماعت جس میں مسلم لیگ (ن) کی امیدوار نوشین افتخار کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیئے تھے۔
اس فیصلے کے بعد ٹویٹر پر عدالتی فیصلہ دینے والے سپریم کورٹ کے جج عمر عطا بندیال کے خلاف ایک اخلاق باختہ ٹرینڈ جاری ہے جو کہ اس وقت پاکستان ٹویٹر پر پہلا ٹرینڈ بن چکا ہے۔ اس ٹرینڈ #عطابندیال_حرامخور کے تحت اب تک پانچ ہزار سے زائد ٹویٹس کی جا چکی ہیں۔ ان میں سے بیشتر بظاہر ن لیگ سے تعلق رکھنے والے اکاؤنٹس ہیں۔
https://twitter.com/sohailabbasi70/status/1375092726681776136
https://twitter.com/SadamrajaRaja/status/1375069423686586373
اس حوالے سے سوشل میڈیا پر کئی صارفین نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ ٹرینڈ چلانے والے در اصل ن لیگ کے کارکن ہیں۔
یاد رہے کہ سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ ڈسکہ شہر میں 76 پولنگ اسٹیشنز ہیں، شہر کے76 میں سے 34 پولنگ اسٹیشنز سے شکایات آئیں، الیکشن کمیشن نے34 پولنگ اسٹیشنزکی نشاندہی کی اور 20 پریزائیڈنگ افسربھی غائب ہوئے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ10 پولنگ اسٹیشنز پرپولنگ کافی دیرمعطل رہی، سوال یہ ہے کہ پولنگ کے دن کون اور کیوں یہ مسائل پیدا کرتا رہا؟ کیا ایک امیدوار طاقتور تھا اس لیے دوسرے نے یہ حرکتیں کروائیں؟
عدالت نے سلمان اکرم راجہ کے دلائل کے بعد این اے 75 ڈسکہ میں 10 اپریل کو ہونے والی پولنگ ملتوی کرنے کا حکم دے دیا۔
عدالت نے کہاکہ موجودہ کیس کے فیصلے میں وقت درکار ہے، سلمان اکرم راجہ کے دلائل ابھی جاری ہیں جب کہ نوشین افتخار کے علاوہ باقی فریقین کو بھی سننا ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا پولنگ کا فیصلہ برقرار ہے، فی الحال 10 اپریل کا فیصلہ ملتوی کررہے ہیں۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔
تاہم اب مسلم لیگ ن کے اپنے ہی وکیل سلمان اکرم راجہ نے وضاحت دی ہے کہ معزز جج پر یہ الزام کہ انہوں نے ڈسکہ الیکشن میں خرابی کا الزام ن لیگ کے ورکرز پر عائد کیا سراسر غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ جج صاحب نے کہا تھا کہ خرابی تو پی ٹی آئی یا ن لیگ کسی کے کارکنان بھی پیدا کرنا شروع کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرا موقف یہ تھا کہ قطع نظر اس کے ووٹر کو ووٹ ڈالنےسےروکا گیا۔
واضح رہے کہ ڈسکہ کے ضمنی الیکشن میں بدنظمی اور 2 افراد کی ہلاکت کے بعد الیکشن کمیشن نے حلقے میں الیکشن کالعدم قرار دیا ہے جس پر پی ٹی آئی امیدوار نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی جسے عدالت مسترد کرچکی ہے۔