نجانے کبھی کبھار مجھے کیوں یہ لگتا ہے کہ ہم مر گئے ہیں اور یہ جو اس جہاں میں ہماری شبیہ لے کر گھوم رہا ہے یہ ہم نہیں ہماری چلتی پھرتی زندہ لاش ہے جس کے ساتھ ظلم روا رکھا جاتا ہے اور وہ اسے خاموشی کے ساتھ برداشت کرتی جاتی ہے، اُف تک نہیں کرتی۔ یہ سوچ مجھے ہر وقت ہی گھیرے رکھتی ہے کہ واقعی میں ہم سب موت کی وادی میں پہنچ چکے ہیں۔ یہ احساس کیونکر سر اٹھاتا ہے، اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اگر ہم میں سے ہر شخص صبح سے لے کر شام تک اپنی زندگی پر نظر دوڑائے تو یہ شک یقین میں بدل جائے گا کہ واقعی میں جس جانب میں اشارہ کر رہا ہوں اس میں 100 فی صد سچائی ہے۔ شاید سب میری اس بات سے اتفاق نہ کریں، وہ خود کو زندوں میں شمار کریں اور اس بات کے حق میں اُن کے پاس مدلل دلائل بھی ہوں گے اور وہ شاید حق بجانب بھی ہوں۔
میں اگر اپنی اس بات کو ایک عام سے شخص جو کہ تھوڑا بہت کھاتا پیتا ہے اور معاشرے میں ایک مقام رکھتا ہے، کی روزانہ کی روٹین سے ثابت کروں تو شاید آپ کو بھی یقین آ جائے۔ صبح سویرے اذان کی آواز گاؤں کی تمام مساجد سے بلند ہوتی ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ نماز نیند سے بہتر ہے، نماز نیند سے بہتر ہے اور وہ اس وقت اوندھے منہ لیٹا ہوتا ہے کیونکہ دن کو دنیا کے اتنے جھمیلوں میں مصروف ہو جاتا ہے کہ رات کی ہر صبح بہت ہی دیر سے ہوتی ہے یا جب صبح ہوتی ہے تو نماز کا وقت فوت ہو چکا ہوتا ہے۔
اُس کے بعد ناشتے میں انواع و اقسام کی چیزیں موجود ہوتی ہیں کیونکہ کسی کو پراٹھے پسند ہوتے ہیں اور کوئی ڈبل روٹی کا شوقین ہے جبکہ ساتھ میں پڑوس میں رات کی روٹی کے لئے کوئی نہ کوئی ترس رہا ہوتا ہے۔ انہیں رات کا کھانا نہیں ملتا تو صبح کے ناشتے کی کیا تُک بنتی ہے۔ پھر گھر سے نکلتے ہوئے اس سے کتنے لوگ ملتے ہیں جن کی اپنی اپنی دنیا ہوتی ہے۔ وہ غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر کسی چوراہے پر اللہ کا سہارا لے کر مانگتے ہیں اور یہ اسے دھتکارتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ دل میں یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ اتنا ہٹا کٹا ہو کر بھی بھیک مانگ رہا ہے اس کو شرم نہیں آتی۔
جب گاڑی کسی چوک پر رکتی ہے تو بچے ہاتھوں میں پانی کی بوتلیں اٹھا کر ونڈ سکرین صاف کرنے لگتے ہیں تو انہیں ایک غصیلی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور وہ بچے سہم کر گاڑی چھوڑ دیتے ہیں۔ یہاں بھی بچوں کے والدین کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے آفس پہنچ جاتے ہیں جہاں آفس بوائے کو کسی نا کسی بات پر جھاڑ پلا دیتے ہیں۔ سائلین کی فائلیں میز پر منہ چڑا رہی ہوں گی مگر سوشل میڈیا اکاؤنٹس میں گم ہو کر اپنوں تک کو یاد نہیں رکھتے۔ گھر کے اپنوں سے مہنیوں بات نہیں کی ہو گی اور باہر دنیا جن سے ملاقات نہ ہوئی ہوتی ہے اور نہ ہی ہونے کا کوئی چانس ہوگا ان سے وقت گزاری کی جا رہی ہو گی۔
باہر کسی کی امید کسی کی آس ایک دستخط سے جاگ سکتی ہے مگر جب تک اشارہ نہیں ملتا کہ بندے نے پیسے دیے ہیں تو دستخط بھی نہیں ہوتے۔ اگر وہ پیسے دینے میں تردد کرے گا تو اسے دھتکارا جائے گا اور پھر اپنے باس کے پاس جانے کے بہانے ڈھونڈے جائیں گے جہاں اس کی خوشامد اور دوسروں کی غیبت کی جائے گی تا کہ باس خوش رہے اور اس کا کام چلتا رہے۔ باس کے غلط کاموں پر پردہ پوشی کی جائے گی جس میں اسے بھی فائدہ ملے گا۔ حالانکہ اگر خواہش ہوتی تو کرپشن رک بھی سکتی تھی مگر اس میں برابر کی شراکت داری ہوگی اور یوں آفس کا وقت ختم ہوتے ہی واپسی ہو گی تو بہت سے کاموں کو غلط ہوتا ہوا دیکھتے ہوئے گزر جاتے ہوں گے۔ رات کو کسی ہوٹل میں حرام کی کمائی سے کھانا زہر مار کیا جائے گا اور ایسے ایسے کاموں میں شراکت ہو گی کہ بندہ نہ چاہتے ہوئے بھی سوچنے پر مجبور ہو جائے گا کہ یہ کوئی زندہ شخص کم از کم نہیں کر پائے گا۔
یہ ساری کہانی صرف ایک شخص کی روٹین کی کہانی ہے۔ اس کو آپ اپنی زندگی میں دیکھیں تو آپ کو بھی احساس ہو گا کہ روزانہ ہم کتنی غلط باتوں پر پردہ ڈالتے ہیں۔ لوگوں کے احساسات کا قتل کرتے ہیں۔ لوگوں کی امیدوں پر پانی پھیرتے ہیں۔ میرٹ ہمارے ہاتھوں پامال ہوتا ہے۔ عزتیں ہمارے ہاتھوں چوراہوں پر بکتی ہیں۔ کسی لاچار کی غربت مٹانے کے لئے ہم اپنی ہوس بجھاتے ہیں۔ دوسروں کے گھروں میں اندھیارا اس لئے کرتے ہیں کہ ہمارے اپنے گھر میں دیپ جلتے رہیں۔ تو آپ خود سوچیں ایسے شخص کو ہم زندوں میں شمار کر سکتے ہیں؟
مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں میڈیا سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں۔