کیا حکومتی سرپرستی یا مدد ایک اقلیت پر حلال اور دوسری پر حرام ہو جاتی ہے؟

کیا حکومتی سرپرستی یا مدد ایک اقلیت پر حلال اور دوسری پر حرام ہو جاتی ہے؟
پاکستان کا آئین جو کہ اسلامی آئین بھی تصور کیا جاتا ہے، ملک میں بسنے والی تمام اقلیتوں کو برابر کے حقوق دیتے ہوئے مذہبی آزادی کا حامی ہے۔ پچھلے کچھ دنوں سے اسلام آباد کے سیکٹر 9-ایچ کے علاقہ میں ہندو مندر کی تعمیر ملک میں ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ اس مندر کی تعمیر سے اقلیتی ہندو برادری کے 3000 کے قریب افراد کی مذہبی رسومات منسلک ہیں۔

اس ضمن میں زمین تو 2016 سے مندر کے لیے موجود ہے تاہم پاکستان میں موجود چھوٹی ہندو برادری مندر کی تعمیر کے لیے مناسب رقم اکٹھی کرنے میں ناکام رہی جس کے بعد موجودہ وزیراعظم عمران خان سے جنوری 2020 میں ہندو برادری کی طرف سے مدد کرنے کی درخواست کی گئی، جس پر وزیراعظم کی طرف سے رقم فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی (بعض ذرائع کے مطابق رواں برس جون میں وزیراعظم کی طرف سے 100 ملین کی رقم مندر کی تعمیر کے لیے جاری کر دی گئی ہے)۔ مگر وزارت مذہبی امور کی جانب سے یہ بیان بھی سامنے آیا کہ وزارت کسی نئی عبادت گاہ کی تعمیر کے لیے رقم نہیں دے سکتی البتہ پہلے سے تعمیر عبادت گاہ کی تزئین و آرائش کے لیے مدد فراہم کر سکتی ہے۔

بہرحال مندر کے لیے رقم دینے کے معاملہ میں مختلف ردعمل سامنے آئے۔ ایک درخواست اس کی تعمیر کے خلاف لاہور ہائیکورٹ اور تین درخواستیں اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کرائی گئیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے تو یہ کہہ کر درخواستیں خارج کر دیں ہیں کہ آئین اقلیتوں کے حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ مختلف قسم کے فتوے بھی سامنے آئے جیسے کہ جامعہ اشرفیہ نے مندر کی تعمیر کے خلاف فتوی دیا۔ اسی طرح مسلم لیگ (ق)، جماعت اسلامی، جمعیت اہلحدیث اور جمعیت علمائے اسلام (ف) نے اس کی تعمیر کی مخالفت کی۔

مندر کی جگہ پر جو تھوڑی بہت چاردیواری موجود تھی اس کو انتہا پسند طبقے کی جانب سے گرا کر اس کی ویڈیو کو سوشل میڈیا پر وائرل کیا گیا۔ اسی طرح ایک اور شخص نے گری ہوئی دیوار پر کھڑے ہو کر اذان بھی دی۔ اس کے دوسری طرف ایسے افراد اور تنظیمیں بھی ہیں جو اقلیتوں کے حقوق کو مدنظر رکھ کر مندر کی تعمیر کی حمایت میں ہیں۔ جیسے کہ پاکستان علما کونسل، شیعہ علما بورڈ اور سول سوسائٹی کے افراد۔

بعض حامی افراد کا یہ بھی مؤقف تھا کہ اسلام آباد میں 5 شراب خانے موجود ہیں مگر مندر کی مخالفت کرنے والے انتہا پسندوں نے کبھی ان کی اعلانیہ مخالفت نہیں کی۔

اپنی کمائی سے عبادت گاہ بنانے کے لیے بظاہر کوئی قدغن قانونی طور پر کہیں بھی موجود نہیں ہے مگر بدقسمتی سے ایسی صورتحال کا سامنا مسلمانوں کو گاہے بگاہے ہندوستان میں کرنا پڑتا ہے، جہاں ان کو مسجد بنانے کے لیے کئی قسم کی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ ہندو اکثریت میں ہونے کی وجہ سے جہاں مرضی مندر بنا لیتے ہیں۔

اسی طرح پاکستان میں مسلمان اکثریت میں ہونے کی وجہ سے بالخصوص سنی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد مسجد بنانے کے سلسلے میں ہر وقت مکمل آزاد ہیں جبکہ اقلیتوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اقلیتوں میں بھی کچھ اقلیتیں دوسروں کی نسبت آسانی سے عبادت گاہ بنا سکتے ہیں جیسے کہ سکھ برادری۔

اب دوبارہ مندر بنانے کے معاملہ پر واپس آ جاتے ہیں تو جناب سب سے پہلے تو سیکٹر ایچ-9 میں صرف مندر کے لیے ہی جگہ نہیں بلکہ مستقبل کے پارسی معبد اور گرجا گھر کے لیے بھی جگہ مختص ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ صرف مندر کی تعمیر پر ہی پاکستان میں موجود مخصوص عناصر کو اعتراض ہے یا پھر مسیحی اور پارسی عبادت گاہوں پر بھی اعتراض ہو گا۔

میری ذاتی رائے کے مطابق تو دوہرے معیار اپنانے کی بجائے اصول سب اقلیتوں کے لیے برابر ہونا چاہیے اور اگر سکھوں کی عبادت گاہ کرتار پور کو حکومت کی پشت پناہی میں تعمیر کیا جا سکتا ہے اور اس پر ملک میں موجود تمام عناصر خاموش رہے تو ہندوؤں کے مندر کی تعمیر کے سلسلہ میں اتنا واویلا کیوں؟

ذرائع کے مطابق گوردوارہ کرتار پور کے لیے پاکستانی حکومت نے 100 کروڑ روپے مختص کیے تھے۔ اصول تو سب کے لیے برابر ہونا چاہیے۔ کیا حکومتی سرپرستی یا مدد ایک اقلیت پر حلال اور دوسری پر حرام ہو جاتی ہے؟ اگر اجازت ہو تو سب کے لیے ہو اور پابندی ہو تو سب کے لیے ہو۔ آخر ہم کب اپنے دوہرے معیار چھوڑیں گے؟ آخر میں یہ کہوں گا کہ پیارے آقا حضرت محمد ﷺ کے دور مبارک میں غیر مسلم آپ کا اخلاق اور نرمی دیکھ کر اسلام قبول کرتے تھے۔ پیارے آقا ﷺ کی ذات مبارک سے ان انتہا پسند عناصر کو نصیحت حاصل کرنی چاہیے جو غیرمسلم کی عبادت گاہ کے لیے مختص جگہ پر جا کر دیوار گرا کر،اذان دے کر فخر محسوس کرتے ہیں۔

احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔