پاکستان اور بھارت کے درمیان برف کو پگلانے کے لئے اور جنگ کی سی صورتحال کو ختم کرنے کی کوششوں کی ایک طویل تاریخ موجود ہے۔ اور شاید یہ سلسلہ طویل عرصے تک چلتا ہی رہے گا، اس وقت تک جب تک کہ دونوں پڑوسیوں کے درمیان دیرپا امن قائم نہیں ہو جاتا، وہ امن جو دونوں طرف کے عوام کی تو ہمیشہ خواہش رہی ہے، پر شاید حکومتوں کی کمزوریاں یا پھر دونوں ملک کے طاقتور حلقوں کو ابھی یہ سمجھ ہی نہ آئی ہو کہ امن ہی دونوں ملکوں کے ڈیڑھ ارب لوگوں کی تقدیر بدل سکتا ہے، انکی غربت ختم کر سکتا ہے، انکی تعلیم صحت اور پینے کے صاف پانی اور صاف ستھری آلودگی اور بارود کی بدبو سے پاک فضا فراہم کر سکتا ہے۔
تاریخ پر نظر ڈالیں تو پینسٹھ کی جنگ کے بعد تاشقند کی کانفرنس، پھر اکہتر کی جنگ اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد جہاں بھارتی مداخلت کے تسلیم شدہ حقائق موجود ہیں، شملہ سمجھوتہ دونوں ملکوں کے درمیان برف پگلنے کا سبب بنا۔ پھر 80 کی دہائی میں ضیاالحق کی آمریت کے دوران کرکٹ ڈپلومیسی اور 1999 میں بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی لاہور یاترا جس کے نتیجے میں تاریخی لاہور ڈیکلریشن سامنے آیا اور سمجھوتہ ایکسپریس کے بعد پہلی بار سڑک کے راستے دونوں ملکوں میں رہنے والی رشتے داروں اور عزیزوں کو دوستی بس کے ذریعے آنے جانے کی سہولت ملی۔ مجھے یہ دونوں اہم اور تاریخی واقعات ٹی وی رپورٹر کی حیثیت سے کور کرنے کا موقع ملا۔
مجھے یہ بھی یاد ہے کہ اٹل بہاری واجپائی کے اعزاز میں شاہی قلعہ لاہور میں منعقد کی جانے والی تقریب کو جماعت اسلامی نے کس طرح سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ دوستی بس کو جس طرح سخت حفاظتی گھیرے میں لیکر لاہور کے فلیٹیز ہوٹل سے دلی روانہ کیا گیا اس سے لگتا یہ تھا کہ دوستی بس دلی نہیں جنگ کے میدان بھیجی جا رہی ہے۔
دوستی بس کا سفر شروع ہوا تھا کہ اور اسے تین ماہ کے قریب ہوئے تھے کہ کارگل کی جنگ نے دونوں ملکوں کے درمیان ایک بڑی خلییج پیدا کردی۔ یوں دونوں ملکوں کے درمیان دیرینہ حل طلب معاملات کے حل کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔
پھر جنرل مشرف کی آگرہ یاترا کسے یاد نہیں جہاں سمجھوتہ ہوتے ہوتے رہ گیا اور بھارتی میڈیا کے جارحانہ رویہ نے گویا صورتحال خراب کر دی۔ وجہ کارگل کی جنگ اور اس سے پیدا ہونے والی بداعتمادی ہی رہی۔
دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات پر جمی برف پگلانے کے لئے کوششوں کا سفر جاری رہا جس میں 2002 کی کھٹمنڈو سارک کانفرنس میں جنرل پرویز مشرف کا بھارتی وزیر اعظم سے تقریر کے دوران ہاتھ ملانے کو دنیا بھر نے دیکھا اور اگلے ہی سال اسلام آباد کی سارک کانفرنس کے دوران واجپائی مشرف ملاقات کے بعد جاری ہونے والی مشترکہ اعلانیہ نے پوری دنیا میں ہلچل مچا دی اور اعلان ہوا کہ کشمیر، سیاچن، سرکریک سمیت تمام مسائل کے حل کے لئے دونوں ملکوں کے درمیان جامع مذاکرات کا عمل شروع کیا جائے گا اور اعتماد کی بحالی کے لئے سی بی ایم شروع کیا جائے گا، جس میں بس سروس سری نگر اور مظفرآباد کے درمیان بھی شروع ہوئی، اسی طرح مظفر آباد اور سرینگر کی درمیان تجارت کا بھی آغاز ہوا اور پھلوں اور سبزیوں سے بھرے ٹرک دونوں طرف آنا جانا شروع ہوئے۔
دونوں طرف کے میڈیا اور سول سوسائٹی کے وفود کا تبادلہ، مذہبی مقامات پر آمدورفت آسانی سے شروع ہو گئی۔ مجھے جامع مذاکرات کے عمل کی رپورٹنگ کے لئے 2006 اور 2007 میں دہلی جانے کا موقع ملا، اور دونوں مرتبہ ہر شخص کی زبان پر یہ بات تھی کہ سرکریک اور سیاچن پر دونوں ملکوں کے درمیان معاملات بہت حد تک طے ہو چکے ہیں بس صرف اعلان ہونا باقی ہے۔ پر پاکستان میں مشرف کی حکومت ختم ہو گئی اور پیپلز پارٹی نے آصف علی زرداری کی سربراہی میں حکومت سمبھال لی، کیونکہ بینظیر بھٹو کو 2007 میں انتخابات سے دو روز قبل لیاقت باغ کے جلسے کے بعد خود کش حملے میں شہید کر دیا گیا۔ 2008 میں جمہوری حکومت بنتے ہی صرف پانچ ماہ میں ممبئی حملوں نے دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کے عمل کو نہ صرف ختم کر دیا بلکہ وہ آج تک دوبارہ شروع نہ ہو سکا اور ہوتا بھی کیسے بھلا؟ دونوں ملکوں کے اصل کرتا دھرتاؤں کی انا کم ہوتی تو معاملات آگے چلتے۔
پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی کرکٹ ڈپلومیسی کی کوشش کی پر ناکام رہے۔ پھر نواز شریف نے روس کے شہر اوفا میں مودی سے ملاقات اور اسکے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ نے ملک بھر میں شور برپا کر دیا کیونکہ اس میں ممبئی حملوں کی تحقیقات کا ذکر تھا پر کشمیر کے مسئلے کے حل کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ فرانس اور پھر لاہور میں نواز اور مودی کی ملاقاتیں ہوئیں پر معملات جوں کے توں رہے۔
2018 کے انتخابات کے بعد عمران خان نے اپنی حلف برداری میں اپنے بھارتی کرکٹ کھلاڑیوں اور دوستوں کو دعوت دی، جن میں نوجوت سنگھ سدھو بھی شامل تھے۔ تقریب میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور سدھو کے درمیان ملاقات میں آرمی چیف نے کرتار پور بارڈر کھولنے کا اشارہ دیا جس کا اعلان سدھو نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کیا۔ بھارتی میڈیا نے سدھو پر شدید تنقید کی اور یہاں بھی سوال اٹھایا گیا کہ اعلان عمران خان کو خود کرنا چاہیے تھا کیونکہ وہ سربراہ حکومت ہیں۔ خیر میرے نزدیک یہ بات بہت خوش آئند ہے کہ 2008 سے جمی برف کچھ بگلنے چلی ہے تو ضرور پگھلے پر حکومت کا کام حکومت ہی کو کرنا چاہیے۔
کرتارپور ضلع نارووال میں دریائے راوی کے کنارے ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جو پاک بھارت سرحد سے صرف تین کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور یہ سکھوں کے لئے انتہائی عقیدت کا مقام ہے کیونکہ کہا جاتا ہے کہ بابا گرونانک کا انتقال کرتارپور میں ہوا تھا۔ روایت کے مطابق چونکہ مسلمان بھی بابا گرو نانک سے عقیدت رکھتے تھے تو انہوں نے ان کی میت کے پھولوں کی تدفین یہاں کی جب کہ سکھوں نے سرحد پار۔ آج سے 17 سال پہلے پاکستان نے اعلان کیا کہ وہ اس کاریڈور کو سکھوں کے لئے بغیر ویزا اور سفری دستاویزات کے آنے جانے کی اجازت دینے کے لئے تیار ہے پر بھارت اسکے لئے تیار نہ ہوا۔ اب 28 تاریخ کو عمران خان کاریڈور کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھ رہے ہیں، جبکہ بھارت کی وزیر خارجہ کو تقریب میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ انہوں نے خود تو آنے سے معذرت کی پر حکومت کے دو وزرا بھارت کی نمائندگی کے لئے بھیے جا رہے ہیں جو کہ ایک خوش آئند اقدام ہے۔ سکھ سمادھی پر حاضری کے لئے پیدل پاکستان آ جا سکیں گے۔
پاک بھارت تعلقات معمول پر آنا وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ جب تک ان دونوں ملکوں کے درمیان امن قائم نہیں ہوتا اور کشمیر سمیت دیرینہ مسائل حل نہیں ہوتے خطے میں امن تو کجا، دونوں ملکوں کے عوام کی یہ خواہش بھی شاید پوری ہونا مشکل ہو کہ یہاں کبھی یورپ امریکہ یہ مشرق بعید یا مشرق وسطیٰ کے ممالک جیسی خوشحالی دیکھی جا سکے گی، جو صرف امن کی صورت میں ہی ممکن ہے اور کرتارپور امن کے قیام میں سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔
مضمون نگار سینیئر براڈکاسٹ جرنلسٹ ہیں۔ ان سے asmatniazi@gmail.com اور ایکس پر @AsmatullahNiazi پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔