وزارت داخلہ کے بہت سارے معاملات پی ٹی آئی کے ساتھ جڑے ہیں اسی لیے اسٹیبلشمنٹ کے لیے یہ وزارت اتنی اہمیت اختیار کر چکی تھی کہ انہوں نے اس کے لیے ن لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں پر اعتماد نہیں کیا۔ محسن نقوی کو اگرچہ ن لیگ کی بھی حمایت حاصل ہے اور پیپلز پارٹی کی بھی مگر وہ آزاد حیثیت میں سینیٹر منتخب ہوں گے اور وزیر اعظم کو بھی چیلنج کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ یہ کہنا ہے اینکر پرسن اور تجزیہ کار تنزیلہ مظہر کا۔
نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبرسےآگے' میں سینئر صحافی آصف بشیر چوہدری کا کہنا تھا کہ محسن نقوی اگرچہ 2 اپریل کو سینیٹر منتخب ہو جائیں گے مگر فی الحال وہ ایک نوٹیفکیشن کی بنیاد پر مشیر داخلہ بنے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ انہیں طاقت کہاں سے مل رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزارت داخلہ میں افسران کی تعیناتی کے معاملے پر وہ وزیر اعظم کے مدمقابل آ گئے۔ اپنی مرضی کی ٹیم بنانے کی بات جتنی آگے تک نکل چکی ہے اب ہو نہیں سکتا کہ کسی ایک جانب والے کی مرضی سے پوری ٹیم آئے، یہ معاملہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر طے ہو گا۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
تنزیلہ مظہر کے مطابق نواز شریف وزیر اعظم بننے کے لیے پاکستان آئے تھے مگر الیکشن میں ان کی مقبولیت کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ اب نواز شریف کی پارٹی میں کوئی پریکٹیکل ذمہ داری نہیں رہی۔ نواز شریف کے اپنے اور پارٹی کے سیاسی مستقبل کے لیے یہی موزوں ہے کہ وہ ملک سے باہر چلے جائیں کیونکہ انہیں الیکشن میں صرف پی ٹی آئی کی وجہ سے نقصان نہیں اٹھانا پڑا بلکہ اس تاثر نے بھی ان کی مقبولیت کم کی ہے کہ وہ لاڈلہ پلس بن گئے ہیں۔
آصف بشیر چوہدری نے بتایا حکومتی امور میں اسٹیبلشمنٹ کا عمل دخل بہت واضح ہے۔ کابینہ میں کچھ 'طاقتور' شخصیات شامل ہو چکی ہیں اور 2 اپریل کو سینیٹ میں بھی بعض 'طاقتور' لوگ پہنچ جائیں گے۔ نواز شریف کا اس وجہ سے بھی پاکستان میں کوئی رول نہیں رہ گیا کہ وہ شہباز شریف جتنے لچک دار نہیں ہیں۔ شہباز شریف کی جگہ نواز شریف وزیر اعظم ہوتے تو کابینہ میں اہم عہدوں پر تعیناتیوں کے معاملے پر ان کا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ضرور اختلاف پیدا ہوتا۔
پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ 'خبرسےآگے' ہر پیر سے ہفتے کی شب 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے پیش کیا جاتا ہے۔